Sir...have u participated in lectures and talks in "the black hole" . Seems I have seen u there...if I m correct, u teach Pakistan studies...I recall u had a spate with Prof Ishtiaq Ahmed. That aside, your work is highly commendable...loved listening to the talk...hope u will continue with the good work.
The man who opened 130+ schools 100 years ago and change PakhtunKhwa dynamics. The man who spent 37 years of his life in prison but never compromised on his Principles. The man who presented and followed Philosophy of NonViolence 100 years ago when everyone was busy in WW-1 and WW-2. He stood against patriarchy. His voice always echoed for underprevilged classes. This man prevented Hindu-Muslim riots in Peshawar through his wisdom. The wisdom which is now desired, has been given by him a century ago. This is Khan Abdul Ghaffar Khan aka Bacha Khan ! Shahan #BachaKhan #BachaKhanWeek2025 #BachaKhanMonth2025 #FakhreAfghan #ANP
The anchor is requested to invite Mr.Juma Khan sufi to give his version about the persona of Bacha khan.His book Farib e Natamam gives almost a different story.
@ Not believable.They all came back from self exile from Afghanistan thru a deal.Ajmal khatak was made an MNA,nephew of Wali’wife communication minister.No body has contradicted Sufi’s version so far.I am personally a great admirer o Bacha khan struggle but the fact remains that Sufi has narrated some damaging stories of his friends in Afghanistan and Bacha khan and needs to be clarified.
یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ باچا خان کی تحریک نئے سماجی رشتوں کی شناخت، قومی آزادی، طبقاتی سماج کا انکار، دھرتی کی حکمت و دانش کی دریافت نو اور ابھرتے ہوئی سماجی پیداواری قوتوں کی محرک تھی اور اسی کو احیائے پشتون تحریک کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔ باچا خان کی آتما اسمانوں جیسا وسیع اور اپنے پہاڑوں جیسا مظبوط ہے۔
Well done, Khattak Sab.You should have mentioned the name of the woman who wrote about the women rights in early forties and whom you consider to be the great feminist of her time.
20 جنوری 1988 یوم وفات باچاخان ڈاکٹر سہیل خان برصغیر کی ازادی کی تاریخ میں جب اورجہاں کہیں انڈین برٹش این ڈبلیو ایف پی کی تاریخی پلڑے کا ذکر أئے گا تو وہ باچاخان کے بغیر نامکمل ہوگا ۔ جبکہ پاکستان میں جب اور جہاں کہیں جمہوریت ، ائین کی بالا دستی ، پسے اور محروم طبقات و قومیتوں کے حقوق ، برداشت ، صبر ، جہد مسلسل ، تعلیم برائے امن و أشتی ، وسائل پر مساوی حقوق ، بنیادی بشری حقوق ، تعلیم و تربیت ، ادب کے فروغ ، متبادل نصاب کے ذریعے متبادل تعلیم ، دھرتی سے جڑے محبتوں اور حقوق و فرائض کیدرمیان توازن کا ذکر باچاخان کے سابقے اور لاحقے کے بغیر بے معنی ہوگا ۔ باچاخان اپنی ذات میں انتہائی مذہبی لیکن باہر سے ہمہ وقت سیکولر ، وہ تعلیم میں جدید رجحانات کے داعی مگر تربیت کے لئے اپنی اقدار اور روایتون کے امین تھے ۔ وہ بلاشبہ پختون نیشنلزم کے بانی تھے ۔ لیکن دوسرے قومیتوں سے امن محبت اور بھائی چارے کے متلاشی ۔ وہ خود کرشماتی شخصیت کے مالک مگر سیاسی جدوجھد میں شخصیت پرستی کے مخالف ۔ وہ ایک ناقابل فراموش سیاسی ورکر تھے لیکن سیاسی جدوجہد کے لئے قانون ائین اور جمہوری رویہ اپنانے کے رہنما ۔ باچاخان نے فرنگی راج میں چودہ سال اور پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ سال جیلیں اس لئے کاٹیں کیونکہ اگر وہ عوام میں رہتے تو عوام ہی کے کہتے اور عوام ہی کے رہتے ۔ یہی ایک نکتہ تھا کہ جس سے فرنگیوں اور ریاست پاکستان کو خطرہ تھا ۔ عوام کے ذہنوں پر قبضہ کے لئے جہاں اج کل کثیر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ ان لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے باچاخان کے پاس نہ تو سرمایہ تھا اور نہ ہی ریاستی وسائل ۔ ہاں اگر تھی تو محبت ۔ وقت کا بہترین استعمال اور خود تک کارکن کی سہل ترین رسائی ۔ انکے پاس معاشرے کی تربیت کا ہدف تھا ۔ تو حصول کے لیے تصوراتی فلسفہ کی بجائے عملیت پسندی کا طریقہ کار ۔اسی عملیت پسندی کے فلسفہ کو لے کر باچاخان نے اپنی دھرتی ، زبان ، ادب ، وسائل اور قوم سے محبت کی تبلیغ کی ۔اور دوسرے اقوام ، زبانون ، اور انکے مشترکہ وسائل پر حقوق کی تسلیمیت کا پرچار بھی کیا ۔ اج اپ اخبار کے اٹھ صفحات میں جرم و سزا کی بڑھتیں ہوئی خبریں پڑھیں تو اج بھی انکا فلسفہ عدم تشدد وقت کے بہترین حل کے طور پر موجود ہے ۔ اج بھی اپ مٹی سے لاتعلق رکھنے والا نصاب تعلیم دیکھیں تو باچاخان کا متبادل نصاب کا تصور اتنا ہی تازہ اور موزوں لگے گا ۔انکی تعلیمات کل بھی اپنوں اور مخالفوں کے لئے مشعل راہ تھے اور اج بھی ہیں ۔ اللہ تعالی انکو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں ۔
باچا خان ایک سیکولر انسان تھے کبھی بھی سیاسی فائدے کیلئے مذھب کا سہارہ نہیں لیا. باچا خان کے تحریک میں ہندو سکھ عیسائی مسلمان وغیرہ سب شامل تھے. باچا خان انسانیت پر زور دیتے تھے. وہ کہتے ہیں کہ خدا کو کوئی خدمت کی ضرورت نہیں بلکہ مخلوق /انسانیت کی خدمت کرنا چاہئے. باچا خان اپنے کتاب "میری زندگی اور جدوجھد" میں لکھتے ہیں کہ مذھب انسان کا زاتی فعل ہے مذھب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا نام ہے ریاست کو کسی مذھب کی ضرورت نہیں.
Very interesting and informative video ❤❤❤
one of the best video i have ever watched
Really a detailed introduction of Bacha Khan
باچا خان کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں تفصیلی تعارف
Sir ,really enjoyed it and obviously learnt a lot from khattak sahab.
Glad to hear that
Sir...have u participated in lectures and talks in "the black hole" . Seems I have seen u there...if I m correct, u teach Pakistan studies...I recall u had a spate with Prof Ishtiaq Ahmed.
That aside, your work is highly commendable...loved listening to the talk...hope u will continue with the good work.
The man who opened 130+ schools 100 years ago and change PakhtunKhwa dynamics.
The man who spent 37 years of his life in prison but never compromised on his Principles.
The man who presented and followed Philosophy of NonViolence 100 years ago when everyone was busy in WW-1 and WW-2.
He stood against patriarchy. His voice always echoed for underprevilged classes.
This man prevented Hindu-Muslim riots in Peshawar through his wisdom.
The wisdom which is now desired, has been given by him a century ago.
This is Khan Abdul Ghaffar Khan aka Bacha Khan !
Shahan
#BachaKhan #BachaKhanWeek2025 #BachaKhanMonth2025 #FakhreAfghan #ANP
The anchor is requested to invite Mr.Juma Khan sufi to give his version about the persona of Bacha khan.His book Farib e Natamam gives almost a different story.
Hmmm Juma Khan Sufi got (didn't write) this book for publication to avoid brutality of Pakistani establishment.
@ Not believable.They all came back from self exile from Afghanistan thru a deal.Ajmal khatak was made an MNA,nephew of Wali’wife communication minister.No body has contradicted Sufi’s version so far.I am personally a great admirer o Bacha khan struggle but the fact remains that Sufi has narrated some damaging stories of his friends in Afghanistan and Bacha khan and needs to be clarified.
باچا خان کی خدائی خدمتگار تحریک پُر اثر اور قابل عمل رہی، کاش کہ آج بھی اس کا احیا ہوسکے، آج خدائی خدمتگار نظریے کی اشد ضرورت ہے ۔۔
یہ نکتہ کافی اہم ہے کہ باچا خان کی تحریک نئے سماجی رشتوں کی شناخت، قومی آزادی، طبقاتی سماج کا انکار، دھرتی کی حکمت و دانش کی دریافت نو اور ابھرتے ہوئی سماجی پیداواری قوتوں کی محرک تھی اور اسی کو احیائے پشتون تحریک کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔
باچا خان کی آتما اسمانوں جیسا وسیع اور اپنے پہاڑوں جیسا مظبوط ہے۔
Well done, Khattak Sab.You should have mentioned the name of the woman who wrote about the women rights in early forties and whom you consider to be the great feminist of her time.
20 جنوری 1988 یوم وفات باچاخان
ڈاکٹر سہیل خان
برصغیر کی ازادی کی تاریخ میں جب اورجہاں کہیں انڈین برٹش این ڈبلیو ایف پی کی تاریخی پلڑے کا ذکر أئے گا تو وہ باچاخان کے بغیر نامکمل ہوگا ۔ جبکہ پاکستان میں جب اور جہاں کہیں جمہوریت ، ائین کی بالا دستی ، پسے اور محروم طبقات و قومیتوں کے حقوق ، برداشت ، صبر ، جہد مسلسل ، تعلیم برائے امن و أشتی ، وسائل پر مساوی حقوق ، بنیادی بشری حقوق ، تعلیم و تربیت ، ادب کے فروغ ، متبادل نصاب کے ذریعے متبادل تعلیم ، دھرتی سے جڑے محبتوں اور حقوق و فرائض کیدرمیان توازن کا ذکر باچاخان کے سابقے اور لاحقے کے بغیر بے معنی ہوگا ۔
باچاخان اپنی ذات میں انتہائی مذہبی لیکن باہر سے ہمہ وقت سیکولر ، وہ تعلیم میں جدید رجحانات کے داعی مگر تربیت کے لئے اپنی اقدار اور روایتون کے امین تھے ۔
وہ بلاشبہ پختون نیشنلزم کے بانی تھے ۔ لیکن دوسرے قومیتوں سے امن محبت اور بھائی چارے کے متلاشی ۔ وہ خود کرشماتی شخصیت کے مالک مگر سیاسی جدوجھد میں شخصیت پرستی کے مخالف ۔ وہ ایک ناقابل فراموش سیاسی ورکر تھے لیکن سیاسی جدوجہد کے لئے قانون ائین اور جمہوری رویہ اپنانے کے رہنما ۔
باچاخان نے فرنگی راج میں چودہ سال اور پاکستان میں ساڑھے اٹھارہ سال جیلیں اس لئے کاٹیں کیونکہ اگر وہ عوام میں رہتے تو عوام ہی کے کہتے اور عوام ہی کے رہتے ۔
یہی ایک نکتہ تھا کہ جس سے فرنگیوں اور ریاست پاکستان کو خطرہ تھا ۔ عوام کے ذہنوں پر قبضہ کے لئے جہاں اج کل کثیر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا ہے ۔ ان لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے باچاخان کے پاس نہ تو سرمایہ تھا اور نہ ہی ریاستی وسائل ۔ ہاں اگر تھی تو محبت ۔ وقت کا بہترین استعمال اور خود تک کارکن کی سہل ترین رسائی ۔
انکے پاس معاشرے کی تربیت کا ہدف تھا ۔ تو حصول کے لیے تصوراتی فلسفہ کی بجائے عملیت پسندی کا طریقہ کار ۔اسی عملیت پسندی کے فلسفہ کو لے کر باچاخان نے اپنی دھرتی ، زبان ، ادب ، وسائل اور قوم سے محبت کی تبلیغ کی ۔اور دوسرے اقوام ، زبانون ، اور انکے مشترکہ وسائل پر حقوق کی تسلیمیت کا پرچار بھی کیا ۔
اج اپ اخبار کے اٹھ صفحات میں جرم و سزا کی بڑھتیں ہوئی خبریں پڑھیں تو اج بھی انکا فلسفہ عدم تشدد وقت کے بہترین حل کے طور پر موجود ہے ۔
اج بھی اپ مٹی سے لاتعلق رکھنے والا نصاب تعلیم دیکھیں تو باچاخان کا متبادل نصاب کا تصور اتنا ہی تازہ اور موزوں لگے گا ۔انکی تعلیمات کل بھی اپنوں اور مخالفوں کے لئے مشعل راہ تھے اور اج بھی ہیں ۔ اللہ تعالی انکو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں ۔
باچا خان ایک سیکولر انسان تھے کبھی بھی سیاسی فائدے کیلئے مذھب کا سہارہ نہیں لیا. باچا خان کے تحریک میں ہندو سکھ عیسائی مسلمان وغیرہ سب شامل تھے. باچا خان انسانیت پر زور دیتے تھے.
وہ کہتے ہیں
کہ خدا کو کوئی خدمت کی ضرورت نہیں بلکہ مخلوق /انسانیت کی خدمت کرنا چاہئے.
باچا خان اپنے کتاب "میری زندگی اور جدوجھد" میں لکھتے ہیں کہ مذھب انسان کا زاتی فعل ہے مذھب انسان اور خدا کے درمیان تعلق کا نام ہے ریاست کو کسی مذھب کی ضرورت نہیں.