Mushaira Ahmad Faraz | Ahmad Faraz Poetry

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 9 сен 2024
  • Ahmad Faraz Poetry
    ہمارے چینل میں خوش آمدید! اس ویڈیو میں ہم آپ کو اردو ادب کے مشہور شاعر احمد فراز کی دلکش دنیا میں لے کر جا رہے ہیں۔ احمد فراز کی شاعری ان کے جذبات، رومانیت، اور دل کو چھو لینے والے اظہار کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔
    اس ویڈیو میں کیا دیکھنے کو ملے گا:
    احمد فراز کی مشہور ترین شاعری کا مجموعہ
    دل کی گہرائیوں سے کیے گئے اشعار کا پڑھنا
    احمد فراز کی شاعری کے موضوعات اور انداز پر تبصرہ
    احمد فراز کیوں؟
    احمد فراز کی شاعری وقت اور سرحدوں سے ماورا ہے، جس کی وجہ سے وہ اردو ادب میں ایک محبوب شخصیت ہیں۔ ان کا کام دنیا بھر میں شاعری کے شوقین لوگوں کو متاثر اور مسحور کرتا ہے۔
    ہمارے ساتھ اردو شاعری کا جشن منائیں:
    اگر آپ اردو شاعری کے شوقین ہیں یا اردو ادب کی خوبصورتی کو دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ویڈیو آپ کے لیے ہے۔ ہمارے چینل کو لائک، کمنٹ، اور سبسکرائب کرنا نہ بھولیں تاکہ آپ مزید اردو شاعری اور دوسرے عظیم شاعروں کے کام سے لطف اندوز ہو سکیں۔
    سُنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    سو اُس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
    یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے ربط ھے اُس کو خراب حالوں سے
    سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے دن میں اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
    سُنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے اُس کے بدن کی تراش ایسی ہے
    کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے اُسے بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
    سو ہم بھی معجزے اپنے ھُنر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے درد کی گاہگ ہے چشمِ ناز اُس کی
    سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے حشر ہیں اُس کی غزال سی آنکھیں
    سُنا ہے اُس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے اُس کی سیاہ چشمگیں قیامت ہے
    سو اُس کو سُرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
    ستارے بامِ فلک سے اُتر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے رات سے بڑھ کر ہیں کاکلیں اُس کی
    سُنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے اُس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
    سو ہم بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے اُس کے شبستاں سے مُتصل ہے بہشت
    مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اُس کی
    جو سادہ دل ہیں اُسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
    سُنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ اِمکاں میں
    پلنگ زاویے اُس کی کمر کے دیکھتے ہیں
    رُکے تو گردشیں اُس کا طواف کرتی ہیں
    چلے تو اُس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
    بس اِک نگاہ سے لُٹتا ہے قافلہ دل کا
    سو راہروانِ تمنّا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
    اب اُس کے شہر میں ٹھہریں یا کُوچ کر جائیں
    فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
    زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
    توبہت دیرسے ملا ہے مجھے
    تو محبت سے کوئی چال تو چل
    ہار جانے کا حوصلہ ہے مجھے
    دل دھڑکتا نہیں ٹپکتا ہے
    کل جو خواہش تھی آبلہ ہے مجھے
    ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
    اِک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے
    کوہ کن ہو کہ قیس ہو کہ فراز
    سب میں اِک شخص ہی ملا ہے مجھے
    (احمد فراز : کتاب : پس انداز موسم )​
    منتظر کب سے تحیر ہے تری تقریر کا
    بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
    رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
    خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
    کیسے پایا تھا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے
    مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
    جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
    مَیں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
    جانے کس عالم میں تُو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر
    آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
    عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
    جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شیر کا
    اب کہاں کوئی حرمِ جز فقیہانِ حرم
    پھر یہ ہنگانہ بپا کیسا ہے دار و گیر کا
    جس کو بھی چاہا اُسے شدت سے چاہا ہے فراز
    سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
    احمد فراز

Комментарии • 4