شب وہی لیکن ستارہ اور ہے اب سفر کا استعارہ اور ہے ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے اس سمندر کا کنارہ اور ہے موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا تیر سینے میں اتارا اور ہے متن میں تو جرم ثابت ہے مگر حاشیہ سارے کا سارا اور ہے ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر آسماں کا ہی اشارہ اور ہے دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی تیز بارش کا سہارا اور ہے ہارنے میں اک انا کی بات تھی جیت جانے میں خسارا اور ہے سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے فصل غم کا گوشوارہ اور ہے دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں آسماں پر ایک تارہ اور ہے حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے آج سے رستہ ہمارا اور ہے پروین شاکر
Boht khob ...Perveen ki to baat he our thi logon
پروین شاکر صاحبہ کا دورِ حاضر میں کوئی ثانی نہیں،
انکے کلام کا ہر ہر لفظ نایاب ہے
Waah.. kya baat!!
A great poet she was. Excellent Ghazal
What a beauty in thought and expression, a joy for ever.
wah kiay kehny mamm apky
Arey Waah... Pehle toh sirf audio thi is ghazal ki ....ab video bhi.. Aur videos post kariye Parveen shakir ke
Waah!
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
ایک مٹھی ریت میں کیسے رہے
اس سمندر کا کنارہ اور ہے
موج کے مڑنے میں کتنی دیر ہے
ناؤ ڈالی اور دھارا اور ہے
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھا
تیر سینے میں اتارا اور ہے
متن میں تو جرم ثابت ہے مگر
حاشیہ سارے کا سارا اور ہے
ساتھ تو میرا زمیں دیتی مگر
آسماں کا ہی اشارہ اور ہے
دھوپ میں دیوار ہی کام آئے گی
تیز بارش کا سہارا اور ہے
ہارنے میں اک انا کی بات تھی
جیت جانے میں خسارا اور ہے
سکھ کے موسم انگلیوں پر گن لیے
فصل غم کا گوشوارہ اور ہے
دیر سے پلکیں نہیں جھپکیں مری
پیش جاں اب کے نظارہ اور ہے
اور کچھ پل اس کا رستہ دیکھ لوں
آسماں پر ایک تارہ اور ہے
حد چراغوں کی یہاں سے ختم ہے
آج سے رستہ ہمارا اور ہے
پروین شاکر
ڈھیروں محبتیں
آپ کی عنایت ہے بھای ۔ سلامت باشی