جواب : قرآن کریم نے اصحاب رسول کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے،اوراس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ چاہے کوئی بدری ہو یا غیر بدری ،حدیبیہ سے پہلے ایمان لایا ہو یا حدیبیہ کے بعد، فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے درمیان آیا ہو یا فتح مکہ کے بعد۔ لہذا ان گروہ کے اصلی چہروں کو قرآن کریم نے اس طرح ذکر کیا ہے: ۱۔ مشہور منافقین (سورہ منافقون، آیت ۱) ۔ ۲۔ دھوکہ باز اور چالاک منافق ( سورہ توبہ، آیت۱۰۱ ) ۔ ۳۔ دلوں کے مریض (سورہ احزاب، آیت۱۲ ) ۔ ۴۔ فتنہ پھیلانے والے دشمنوں کی باتیں سننے والے (سورہ توبہ ، آیت ۴۵ ۔ ۴۷) ۔ ۵۔ اچھے برے اعمال انجام دینے والے (سورہ توبہ، آیت ۱۰۲ ) ۔ ۶۔ مرتد افراد (سورہ آل عمران، آیت ۱۵۴ ) ۔ ۷۔ مومنین کے علاوہ تسیلم شدہ افراد(سورہ حجرات ، آیت ۱۴ ) ۔ ۸۔ مئولفة القلوب (سورہ توبہ، آیت۶۰) ۔ ۹۔ فاسق (سورہ حجرات، آیت ۶ ) ۔ ۱۰۔ جنگ کے وقت کفار کو پشت دیکھا کر بھاگنے والے ( سورہ انفال، آیت ۱۵۔ ۱۶ ) ۔ اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ان دس گروہوں کو عادل وباتقوی شمار نہیں کیا جاسکتا ،عادل اور متقین کی تعریف کرنے والی آیات بھی ان کو شامل نہیں ہیں ورنہ آیات کے مفہوم میں تناقض لازم آے گا ۔ قرآن کریم نے پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی رحلت کے بعد ایک گروہ کے مرتد ہونے کی خبر دی ہے: ”وَ ما مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اٴَ فَإِنْ ماتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی اٴَعْقابِکُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّہَ شَیْئاً وَ سَیَجْزِی اللَّہُ الشَّاکِرینَ (۱)“ اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیااگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔ اگرچہ آیت کا لہجہ ایک شرط کو بیان کررہا ہے ( اگر پیغمبر اکرم مرجایں یا قتل ہوجایں توکیا تم جاہلیت کی طرف پلٹ جاوگے ؟)اور قضیہ شرطیہ اس کے واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔ لیکن آیت کا مضمون اس کو بیان کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے اصحاب کے درمیان اس آیت کے نزول کے وقت یعنی ہجرت کے تیسرے سال جنگ احد میںکچھ ایسے افراد موجود تھے جن کی رفتار اوراعمال اس بات کی نشان دہی کرتے تھے کہ ممکن ہے رسول اسلام کی رحلت کے بعد یہ مرتد ہوجاے ، لہذا یہ کیوں کرممکن ہے کہ تمام اصحاب رسول یہاں تک کہ جنگ احد میں شرکت کرنے والوں کو برابر مان لیں ؟ چہ جائیکہ وہ لوگ جوجنگ احد کے بعد ایمان لائے یا اس کے بھی بعد ایمان لائے!۔ ا گر ان آیات کو مومنین کی مدح کرنے والی آیات کے ساتھ ملادیں تومفسرایک واضح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اصحاب صالح تھے اور بعض غیر صالح۔بعض ایسے بلند مرتبہ تھے جن کی برکت سے بارش نازل ہوتی تھی ،اور بعض ایساایمان رکھتے تھے کہ جو کسی کام کا نہیں تھا (۲) ۔ _________________ ۱۔ سورہ آل عمران : ۱۴۴ ۔ ۲۔ سیمای عقائد شیعہ ، ص ۳۱۵ ۔ حوالہ جات:تاریخ انتشار: « 1401/08/08 » منسلک صفحات
جواب : قرآن کریم نے اصحاب رسول کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہے،اوراس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ چاہے کوئی بدری ہو یا غیر بدری ،حدیبیہ سے پہلے ایمان لایا ہو یا حدیبیہ کے بعد، فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں کے درمیان آیا ہو یا فتح مکہ کے بعد۔ لہذا ان گروہ کے اصلی چہروں کو قرآن کریم نے اس طرح ذکر کیا ہے:
۱۔ مشہور منافقین (سورہ منافقون، آیت ۱) ۔
۲۔ دھوکہ باز اور چالاک منافق ( سورہ توبہ، آیت۱۰۱ ) ۔
۳۔ دلوں کے مریض (سورہ احزاب، آیت۱۲ ) ۔
۴۔ فتنہ پھیلانے والے دشمنوں کی باتیں سننے والے (سورہ توبہ ، آیت ۴۵ ۔ ۴۷) ۔
۵۔ اچھے برے اعمال انجام دینے والے (سورہ توبہ، آیت ۱۰۲ ) ۔
۶۔ مرتد افراد (سورہ آل عمران، آیت ۱۵۴ ) ۔
۷۔ مومنین کے علاوہ تسیلم شدہ افراد(سورہ حجرات ، آیت ۱۴ ) ۔
۸۔ مئولفة القلوب (سورہ توبہ، آیت۶۰) ۔
۹۔ فاسق (سورہ حجرات، آیت ۶ ) ۔
۱۰۔ جنگ کے وقت کفار کو پشت دیکھا کر بھاگنے والے ( سورہ انفال، آیت ۱۵۔ ۱۶ ) ۔
اصحاب رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ان دس گروہوں کو عادل وباتقوی شمار نہیں کیا جاسکتا ،عادل اور متقین کی تعریف کرنے والی آیات بھی ان کو شامل نہیں ہیں ورنہ آیات کے مفہوم میں تناقض لازم آے گا ۔
قرآن کریم نے پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی رحلت کے بعد ایک گروہ کے مرتد ہونے کی خبر دی ہے: ”وَ ما مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اٴَ فَإِنْ ماتَ اٴَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی اٴَعْقابِکُمْ وَ مَنْ یَنْقَلِبْ عَلی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّہَ شَیْئاً وَ سَیَجْزِی اللَّہُ الشَّاکِرینَ (۱)“ اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں کیااگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم اُلٹے پیروں پلٹ جاؤ جو بھی ایسا کرے گا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیں کرے گا اور خدا تو عنقریب شکر گزاروں کو ان کی جزا دے گا۔
اگرچہ آیت کا لہجہ ایک شرط کو بیان کررہا ہے ( اگر پیغمبر اکرم مرجایں یا قتل ہوجایں توکیا تم جاہلیت کی طرف پلٹ جاوگے ؟)اور قضیہ شرطیہ اس کے واقع ہونے پر دلالت نہیں کرتا ۔ لیکن آیت کا مضمون اس کو بیان کرتا ہے کہ پیغمبر اسلام کے اصحاب کے درمیان اس آیت کے نزول کے وقت یعنی ہجرت کے تیسرے سال جنگ احد میںکچھ ایسے افراد موجود تھے جن کی رفتار اوراعمال اس بات کی نشان دہی کرتے تھے کہ ممکن ہے رسول اسلام کی رحلت کے بعد یہ مرتد ہوجاے ، لہذا یہ کیوں کرممکن ہے کہ تمام اصحاب رسول یہاں تک کہ جنگ احد میں شرکت کرنے والوں کو برابر مان لیں ؟ چہ جائیکہ وہ لوگ جوجنگ احد کے بعد ایمان لائے یا اس کے بھی بعد ایمان لائے!۔
ا گر ان آیات کو مومنین کی مدح کرنے والی آیات کے ساتھ ملادیں تومفسرایک واضح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اصحاب صالح تھے اور بعض غیر صالح۔بعض ایسے بلند مرتبہ تھے جن کی برکت سے بارش نازل ہوتی تھی ،اور بعض ایساایمان رکھتے تھے کہ جو کسی کام کا نہیں تھا (۲) ۔
_________________
۱۔ سورہ آل عمران : ۱۴۴ ۔
۲۔ سیمای عقائد شیعہ ، ص ۳۱۵ ۔
حوالہ جات:تاریخ انتشار: « 1401/08/08 »
منسلک صفحات