طعنہِ آزادی

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 12 сен 2024
  • گر طبیعت ہی مائل بہ سکوں نہ ہو
    ذوق دریافت سے بڑھ کر کوئی فسوں نہ ہو
    کسی نجم دور افتادہ سے پکارتی کوئی آواز بھی ہو
    اِذن ِ پرواز بھی ہو
    تو جُز تسلیم راہ بچتی ہے کوئی؟
    پھریونہی رختِ سفر باندھا جانِبِ نجمِ دور افتادہ
    جسے کہتے ہیں زمیں
    کچھ دھات اور تیل سامان کیا، کچھ نقشہ بھی سیارےکا
    اور اوڑھا بھیس بنجارے کا
    اب دیس اور بھیس کا سارا علم کس کارن ہو؟
    سو بولے لوگ، بنجا رے تم بنجارن ہو
    کیوں دھات اور تیل کا عام سا سودا کرتی ہو؟
    جب حُسن سے مالا مال بھی ہو؟
    تم غلط بازار میں آئی ہو، چلو رہ تمہیں دکھلاتے ہیں
    بس ساتھ چلو ہم سب تم کو اپناتے ہیں
    وہ دن گیا اور ساتھ گیا سب شوق مرا سیاحت کا
    کچھ بال و پَر بھی کٹے، پرواز گئی، آواز گئی
    کچھ شور سنا سسکتے بِلکتے سیارے فریادی کا
    کیا نعرہ تھا وہ؟ زن زندگی آزادی کا؟
    عجب سیارہ عجب تر لباس عجب ترین یہاں کا دستُورِ زباں
    نعرہ ِ آزادی
    طعنہِ آزادی پسند؟
    فرد کو میسر نہیں ہے بس “ہونے” کی آزادی
    خِرَد کی آزادی،”le rêve” پرونے کی آزادی
    آرائش ِ بدن، زیبائش ِ پیرہن کی آزادی
    بسر اوقات اور فقط رونے کی آزادی
    قطعا میسر نہیں ہے بس “ہونے” کی آزادی
    تلاش ِ حق کی آزادی، برگزیدن ِ مشرب و مسلک کی آزادی
    یہاں سر کٹتے ہیں ایسی باتوں پر
    کہاں ہے گُفتار کی آزادی؟
    یہاں قواعد ہیں شب ڈھلے مُقفِّل کواڑوں کے
    کہاں ہے “sortir le soir” کی آزادی؟
    یہاں خرابی ِ اعصاب پے لگتے ہیں کلنک
    کہاں ہے ضعف کے اشکار کی آزادی؟
    لوگ کرتے ہیں تعییُّن بنجارے بنجارن کا
    کہاں ہے صنف پہ اصرار کی آزادی؟
    نہیں للکار کی،تکرار کی، اظہار کی آزادی
    “وجہ ِ گمراہی ِ نسل ِ نو ہے یہ بے کار کی آزادی“
    نہ تو محبوب کو چننے کی نہ سنسار کی آزادی
    نا حقوق ِ رازداری ِ پس ِ دیوار کی آزادی
    نھیں ہم جنس سے الفت میں گرفتار کو آزادی
    ہے مگر مُلّا کو ہے سنگ سار کی آزادی
    نھیں پیکر کردار کو تو سنگھار کی آزادی
    ہے مگر واعظ کو ہے جبّہ و دَستار کی آزادی
    نھیں مے خوار قلم کار کو آزادی
    نھیں فنکار کو آزادی
    نھیں اخبار کو آزادی
    نھیں اشعار میں افکار کے پرچار کی آزادی
    ہے مگر دیں دار کو کفار پہ تلوار کی آزادی
    ہر دکاندار کو لاچار خریدار سے دو چار کی آزادی
    تھی میسر کبھی خوددار کو جو اتوار کی آزادی
    کیا کرے پائے جو وہ اب حسِ بیدار کی آزادی؟
    نھی ہرگز نھی ضعف سے ناچار ہوئے ہندو کو تو افطار کی آزادی
    ہے مگر مجمعے کو ہے رسد فی النار کی آزادی
    گردواروں، مندروں، گرجوں کے بھی مسمار کی آزادی
    لاحق ہے ہر اک طاقت کو جو سرشار سی آزادی
    لاچار کی دیوار پہ ستم خوار کی آزادی
    سرکار کو انوار کی بھر مار کی آزادی
    زمیندار کو کمہار سے بدکار کی آزادی
    سردار کو گاؤں کے بیوپار کی آزادی
    شہنشاہ کے دربار میں دھتکار کی آزادی
    بنجارے کو میسر نھی سر ِ دار بھی آزادی
    فقط “ہونے” کی آزادی کہ جو مجمع ہے جمع
    دیکھنے آیا ہے جو بیگانہ صفت غیر کا انجام
    اپنے بوسیدہ سے نعروں کی تصحیح تو کرلے
    کہتے ہیں جلادو قتل کر ڈالو بدیسی بنجارن
    بنجارے کو میسر نہیں “ہونے” کی آزادی
    سعدیہ خاف
    دسمبر ۸، ۲۰۲۳

Комментарии • 1