تمہیں کس طرح بتاؤں؟

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 12 сен 2024
  • تمہیں کِس طرح بتاؤں؟
    مرے شہرِ آرزو میں جو سکوت سا ہے برپا
    مری چاہتوں کے لب پَر جو جمود سا ہے طاری
    تمہیں دیکھنے کی خاطر
    وہ نظر کہ جاگتی تھی دَر اَ ز روز و شب مسلسل
    ہے کیوں آج اُس میں لرزاں ترے ہجر کا یہ محشر ؟
    تمہیں کس طرح بتاؤں؟
    ابھی یہ گھڑی کہ جس میں ابھی تم ہو پاس میرے
    یہ کیوں بوجھ لگ رہی ہے؟
    مری سانس کیوں ہے ساکن؟
    مری آس جل رہی ہے
    ہے یہ میرے دل کو دھڑکا
    ابھی یہ گھڑی کہ جس میں ابھی تم ہو پاس میرے
    مرے پاس تم نہیں ہو
    ہے مجھے ابھی جو لاحق
    وہ تلاش تم نہیں ہو
    تمہیں کس طرح بتاؤں؟
    کہ جو میرے دل سے اُجڑی
    وہ اُمید دیدنی تھی
    مرے سامنے تھیں تم اور
    شب ِ ہجر ڈھل رہی تھی
    کوئی اور تھی وہ دنیا کیئے جس میں ہم بسیرا
    ابھی یہ گھڑی ہے جس میں ہمیں لوٹنا ہے گھر کو
    تمہیں کس طرح بتاؤں؟
    مرا جگرِ زخم خوردہ نہ سنبھل سکے گا اب کے
    فقط ایک راستہ ہے
    مری زیست کا تسلسل فقط اس طرح ہے جاری
    کہ میں سانس روک رکھوں
    شب ِ وصل ٹھہر جائے
    تِری دید کا وہ منظر مری آنکھ سے نہ اترے
    ترے ہجر کا یہ لمحہ مری عمر لے نہ جائے
    تمہیں کس طرح بتاؤں؟
    کہ سکوت زندگی ہے
    یہ جمود زندگی ہے
    سعدیہ خاف
    دسمبر ۱۳، ۲۰۲۳، 11:50PM

Комментарии • 4