BHARTRIHARI - Immortal Poetry of the Sanskrit Poet in Urdu Translation

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 14 окт 2024
  • Poetry by Bhartrihari, famous Sanskrit poet, scholar, yogi and king.
    Urdu Translation: Jai Krishna Chaudhary
    Recitation: Raheel Farooq
    بھرتری ہری کی شاعری
    ترجمہ: جے کرشن چودھری
    بھرتری ہری سنسکرت کا غیرفانی شاعر سمجھا جاتا ہے۔ وہ شمالی ہند کا ایک مشہور بادشاہ تھا جو راج پاٹ چھوڑ کر جنگلوں میں نکل گیا تھا۔ اس کا کلام حسن و عشق، حکمت و فلسفہ اور زہد و ریاضت کے گوناگوں مضامین سے مملو ہے۔ بھرتری ہری کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف دنیا بھر میں کیا گیا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس سے ماخوذ ایک خیال بالِ جبریل میں سرِ عنواں درج کر کے اردو دنیا کو اس سے متعارف کروایا۔
    پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
    مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
    بھرتری ہری کا کلام مع اردو ترجمہ - سنسکرت شاعری
    _____
    BHARTRIHARI
    Bhartrihari, a luminary in Indian literary history, stands out as a revered poet whose verses continue to captivate audiences both within the traditional context and in the world of modern scholarship. His celebrated works, including the "Śatakatraya," reveal his deep insight into human emotions, social dynamics, and the complexities of life. His poetry, renowned for its exploration of various aesthetic moods, has transcended time and borders, leaving an indelible mark on the world of literature. Notably, his introduction to the Urdu-speaking world was facilitated by Allama Iqbal, who translated one of Bhartrihari's verses and included it at the start of his book "Baal-e-Jibreel," thereby extending the reach of Bhartrihari's timeless poetic wisdom.
    Phool ki patti se kat sakta hai heere ka jigar
    Mard-e-Nadaan Par Kalam-e-Narm-o-Nazuk Be Asar
    ---------
    SUBSCRIBE: / @urdu
    WEBSITE: urdugah.com/lehja
    SUPPORT: / urdu
    ---------
    URDU SHOP
    Shop at the first and only Urdu storefront on Amazon. Discover books, music, movies & shows, antiques, clothing, accessories, supplies and more - all curated for you by Lehja!
    www.amazon.com...
    As part of Amazon Influencer Program, we may earn affiliate commissions for qualifying purchases. Shopping online through this store supports Lehja without costing you any additional money. Thank you!
    ---------
    POETRY TEXT:
    سنسکرت کلام کا مکمل ترجمہ شدہ اردو متن:
    عالم کے علم و فن کا چراغ محض اس وقت تک روشن ہے جب تک کسی دلنواز حسینہ کے دامنِ حسن کا جھونکا اس تک نہ پہنچے۔
    کہیں نغمۂ شادی ہے اور کہیں نوحۂ غم۔ کہیں علم و ادب کے چرچے ہیں اور کہیں شرابیوں کا شور و غل۔ کہیں عورتوں کے حسن و شباب کی رنگینی ہے اور کہیں کریہہ منظر کوڑھ سے گلے ہوئے جسم۔ نہ جانے یہ دنیا آبِ حیات سے بھری ہے یا زہرِ ہلاہل سے!
    اے علم و فن کے پروانو! سچ بتاؤ۔ تمھیں کون سی چیز پسند ہے؟ شب و روز کسی دلنواز حسینہ کے قدموں پر سرِ نیاز جھکائے رکھنا یا دور، بہت دور پہاڑوں کی گپھاؤں میں تنِ تنہا یادِ خدا میں محو رہنا؟
    عورت کو راحتِ جاں کیسے کہا جائے؟
    اس سے جدا رہیے تو بےقرار، اسے دیکھیے تو بےچین، شاد کامِ وصل ہوں تو بدمست۔ غرض ہر وقت ایک عالمِ خود فراموشی چھایا رہتا ہے۔
    زیادہ بکواس سے کیا مطلب؟ حاصلِ کلام یہ کہ اس دنیا میں مردوں کے استعمال کے قابل صرف دو ہی چیزیں ہیں۔ ایک تو تازہ شراب سے مخمور، چھاتیوں کے بوجھ سے جھکی ہوئی، پسینہ سے تربتر حسینہ کا شباب۔ اور دوسرا کسی جنگل کا گوشہ!
    کاش میں کسی مقدس جنگل میں خدا کے نام کا ورد کرتا ہوا اپنی زندگی کے دن بتا دیتا۔ کاش میں ان سب کو یکساں سمجھتا۔۔۔
    سانپ اور گلے کا ہار، جان لیوا دشمن اور عزیز دوست، چمکتا ہوا ہیرا اور مٹی کا ڈھیلا، پھولوں کی سیج اور پتھر کی سخت چٹان، حقیر تنکا اور دلآویز دوشیزہ!
    کنول کی نازک ڈنڈی سے ہاتھی کو باندھا جا سکتا ہے، ہیرے کو سرسوں کے پھول کی پتی سے بیندھا جا سکتا ہے اور شہد کی ایک بوند سے کھارے سمندر کو میٹھا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن مردِ ناداں کو میٹھی باتوں سے رام کر لینا سعیِ لاحاصل ہے۔
    مبارک ہیں وہ لوگ جو پہاڑوں کی گپھاؤں میں بیٹھ کر عظیم روشنی (خدا) کا دھیان کرتے ہیں اور ان کے چہروں پر سے خوشی کے ڈھلکے ہوئے آنسو وہ پرندے پیتے ہیں جو خوف سے بےنیاز ہو کر ان کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔
    ایک ہم ہیں کہ جن کی زندگی لاحاصل دنیاوی خوشیوں کی تلاش میں کنجوں کے اندر، خوشنما تالابوں کے کنارے پر اور بڑے بڑے محلوں میں گزر جاتی ہے۔
    بڑھاپا ایک خونخوار بھیڑیے کی طرح دروازے کے اندر جھانک رہا ہے۔ بیماریوں نے دشمنوں کی طرح صحت کے قلعے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ زندگی پانی کی طرح ایک ٹوٹے ہوئے برتن سے آہستہ آہستہ بہہ رہی ہے۔ کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ انسان ان حالات کی روشنی میں بھی برائی ہی کرتا چلا جائے؟
    #Poetry #Literature #Classic

Комментарии • 21