تعارفِ علومِ حدیث :: حدیث ضعیف کے احکام اور اسرائیلیات
HTML-код
- Опубликовано: 10 фев 2025
- تعارف علوم حدیث کا چودھواں لیکچر
حدیث ضعیف کے احکام :
احتیاط :
تعریف کے مطابق صحیح حدیث کے لئے راوی عادل بھی ھو اور اس کا ضبط بھی اچھا ہونا چاہیے - اب ضروری نہیں نیک آدمی کا ضبط اچھا ھو - تو کیا وہم کی وجہ سے ہم نے اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے یا فسق کی وجہ سے یا حدیث کی سند میں کوئی مسئلہ ہے -سو ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے ضعف کا سبب کیا ہے اور اس سبب کو دیکھتے ہوئے اس پر حکم لگایا جاتا ہے اس کے لئے بہت دقت نظری کی ضرورت ہے
مثال کے طور پر لوگ کہتے ہیں کہ فلاں امام نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو ضعیف حدیث ہے - اب جب پوچھا جائے کہ کیوں ضعیف ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں ایک راوی ہے جو ضعیف ہے - حالانکہ اس راوی کا زمانہ امام صاحب کے زمانے کے بعد کا ہوتا ہے - اس کا مطلب اس امام نے وہ حدیث کسی اور ذریعے سے لی تھی - اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کسی امام کا کسی حدیث سے استدلال اس حدیث کے ضعف کو کم کر دیتا ہے -
حدیث ضعیف بیان کرنے کے آداب :
حدیث کے متن کو علی الاطلاق ضعیف کہنے میں احتیاط ہونی چاہیے - ھو سکتا ہے کہ اس کے مختلف طرق ہوں اور کسی ایک طرق سے یہ ضعیف ھو -
حدیث ضعیف کی نسبت حضور کی طرف یوں نہیں کی جاتی کہ آپ نے فرمایا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آپ سے یوں مروی ہے
اسی طرح اگر وہ حدیث حسن لغیرہ تک نہیں پہنچتی تو پھر اسے ضعف کا حکم لگا کر بیان کرنا چاہیے -
حدیث ضعیف پر عمل کرنے کا حکم :
بنیادی طور پر اس میں تین موقف ہیں
• علی الاطلاق ناجائز ہے - کسی بھی درجے میں عمل نہیں کرنا چاہیے - قاضی ابو بکر ابن العربی یہ امام مالک کے پیرو کار فقہا میں سے تھے ان کے ہاں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں
• علی الاطلاق جائز ہے- اس پر بھی عمل کرنا ہر لحاظ سے جائز ہے - امام ابو داوود اور امام احمد بن حنبل اس موقف کے حامل ہیں وہ کہتے ہیں احکام میں بھی ضعیف حدیث سے استنباط کیا جا سکتا ہے - اس میں بھی ان کی دو شرائط ہیں کہ ضعف شدید نہ ھو اور اس کے مقابلے میں نص نہ ھو -اصل میں یہ ان کا موقف قیاس کے مقابلے میں ہے یعنی اپنی رائے سے ضعیف حدیث پر عمل بهتر ہے
• کچھ شرائط کے ساتھ : یہ جمہور علماء کا موقف ہے -
o ان کے نزدیک ضعیف حدیث پر فضیلت کے طور پر ہی عمل ھو سکتا ہے عقائد و احکام میں نہیں ھو سکتا
o دوسری شرط ہے ہے کہ ضعف شدید نہ ھو - یعنی تمام طرق ضعیف نہ ھو ں
o فی الوقع وہ عمل ثابت شدہ ھو اور معمول به ھو - جیسے صلوات تسبیج - کیوں کہ یہ نوافل اور قرآن کی قرات کے بارے میں ہے جو بالجملہ ثابت ہے
درست بات یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر کسی نہ کسی درجے میں عمل کرنے پر علماء کا اجماع رہا ہے
-------------------------------------------
اسرائیلیا ت کے احکام :
اس کا مطلب ہے کہ بنی اسرایل کے لٹریچر سے جو روایت ہمارے پاس آئی - کیا وہ قا بل عمل ہیں یا نہیں
اسرائیلیات کا ماخذ :
بنیادی طور پر اس کا ماخذ تین چیزیں تھی -
• اہل کتاب کا دینی لٹریچر - مسلمان علماء اہل کتاب کے دینی لٹریچر کا مطالعہ کر لیتے تھے اور اس میں سے چیزیں بیان کر دیتے تھے
• دوسرا غیر مسلم اہل کتاب سے میل جول - اس بہت سی معلومات ہماری طرف آئی
• اہل کتاب میں سے جو حضرات مسلمان ہوئے وہ سب سے بڑا ماخذ بنا - ان میں سے چند نام بہت معروف ہیں جیسے حضرت عبدللہ ابن سلام ، کعب احبار ، وہب بن منبہ ، عبد الملک ابن جریج - حضرت عبدللہ بن سلام صحابی ہیں - کعب احبار نے حضرت عمر کے دور میں اسلام قبول کیا تو جلیل قدر تابعی ہیں - ان میں سے پہلے تین حضرت پہلے یہودی تھے پھر مسلمان ہوئے جبکہ حضرت ابن جریج پہلے رومی یعنی نصرانی تھے
o عبدللہ بن سلام سے بہت زیادہ راویات منقول نہیں ہیں
o کعب احبار اور وہب بن منبہ نے کافی روایات بیان کی لیکن ان کا عمومی رویہ احتیاط کا تھا - یہ پہلے تصریح کر دیتے کہ روایت اسرائیلیا ت میں سے ہے
o ابن جریج بھی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن ان کی طرف سے بہت کچھ تفسیر کی کتابوں میں آیا - وہ ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس کے شاگرد عطاء بن ابی رباح کے خاص شاگرد تھے
حدیث کی حجیت پر نقد کرنے والوں کی ایک بڑی وجہ اسرئیلیا ت ہیں - سب سے زیادہ کعب احبار اور وہب بن منبہ پر تنقید ہوئی - لیکن یہ بات درست نہیں کیوں کہ ان دونوں کا رویہ بہت احتیاط کا تھا - اور حدیث کو انہوں نے روایات سے بالکل رکھا ہے -
ابن جریج کا لیکن تفسیر میں کام علماء کے نزدیک زیادہ احتیاط والا نہیں اور اس میں ان پر تنقید ہوئی ہے
اسرائیلیات کا حکم :
ایک حدیث میں حضور نے فرمایا نہ ان کی تصدیق کرو نہ تصدیق کرو بلکہ یوں کہ دیا کرو کہ ہم اس پر ایمان لائے جو حضور نے میں دیا
لیکن ایک دوسری جگہ حضور نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں
بعض علماء نے اس پر تفصیل بیان کی ہے - احکام میں ان سے استفادہ نہیں کیا جائے گا - لیکن واقعات یا نصیحت آموز باتیں ان میں اسرئیلیا ت تین طرح کی ہیں
• موافق قران و سنت : ان کو قبول کیا جائے گا
• مخالف قران و سنت : جیسے معاذاللہ یہودیوں کے مطابق حضرت سلیمان آخر عمر میں بت پرست ھو گئے -
وَ مَا كَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰـكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا
اور سلیمان نے کفر نہ کیابلکہ شیطان کافر ہوئے
• جس کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہیں - ان کی نہ تصدیق ھو گی نہ تصدیق لیکن اس کا ادب یہ ہے کہ اس طرح کی مافوق الفطرت باتوں کو کم سے کم بیان کرنا چاہیے - جو باتیں قران میں آگیی وہ بیان کرنی چاہیے - اس طرح کی باتیں دین نہیں ہیں اور نہ ہی اسرائیلیات کو لازمی ماننا دین کی کوئی شرط ہے - اگر آپ قرآن کی تفسیر میں اس طرح کی باتیں بیان کریں گے تو سننے والا اسے دین ہی سمجھے گا سو اس میں حد درجہ احتیاط ضروری ہے
----------------------------------------------
02-02-2025
#تعارفِ علومِ حدیث
#hadith
#hadees
معلم :: ڈاکٹر مولانا امیر حمزہ صاحب
الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ
• تعارف علوم حدیث