حضور اپنا برتن چھوٹا ہو تو شکایت دریا سے نہیں کی جاتی۔ بڑے مقامات مشکل ہی ہوتے ہیں، اور چھوٹی شخصیت کا ٹھکانا ان سے دور رہتا ہے۔ بڑی اقوام اپنے مفکرین کے فلسفوں میں الجھتی نہیں، انہیں اپنی بقا اور ترقی کا زریعہ بناتی ہیں؛ چھوٹی قومیں بنا تدبر دور بیٹھی الجھتی رہتی ہیں، خواہ 'فلسفہ' کتنا ہی فعالی اور عملی کیوں نہ ہو۔
@@SaroshAlamgir اقبال کی فکرواقعی بڑی ھے بتاٸیے کون بڑا بنا ایک نام لے لیجیے سواٸۓ مجلسوں میں پڑھنے کے اور سردھننے کے آپکو سمجھ آگٸ بڑی بات ھے کچھ ھمیں ںبھی عناٸت ھو
@@SaroshAlamgir میں اقبال کی فکر کی نفی نہیں کرتامگر یہ نفسیاتی دنیا ھےاسکا فزیکل فینامینا سےتعلق نہیں ۔اللہ نے ھمیںیہ نصیحت کی ھےمیری طرف وسیلےیعنی فزیکل فینامینا سے آٶ مغرب نے اس علم کو پایا کامیاب ھوے اور ھم اقبال کی خودی میں کھوٸۓ گیت گاتے رہ گیے رومی نے ھمیں گول گول گھمادیا دوستو گول گول کھومنے سے بہتر ھےعملی طورپر کچھ کیا اٸۓ چاھے تھوڑا ھی سہی اقبال نے مغرب کی شاخ کو نازک آشیانہ کہا خوداسی شاخ پر بیٹھ کر چہچاٸۓنفساتی ھواٶں میں اڑے وہ لکھنٶ دلی لاھورسے فارغ تھے جرمن میں عیاں ھوے
@@sadiqhussain157 اگر آپ کی بات کا الزامی جواب دینا ہو تو سرِ دست تین باتیں پوچھی جا سکتی ہیں: ۱۔ اگر اقبال کا فلسفہ ہی ہر مصیبت کی جڑ ہے، تو آپ تو خود کو اقبال کے فلسفے میں الجھنے سے بچا کے بہت بڑے آدمی بن چکے ہوں گے؛ آپ نے جو بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں ان کا کچھ تعارف کرا دیجیے۔ ۲۔ اقبال کے فلسفے میں الجھنے سے پہلے برِ صغیر میں جو بہت بڑے اور عملی لوگ گزرے ہیں ان کا کچھ تعارف بھی ہو جائے۔ ۳۔ اقبال کے فلسفے پر کچھ الزام تب دھرا جا سکتا جب ہمارے ہاں لوگوں میں اس سے کچھ بنیادی سطح کی ہی شناسائی ہوتی۔ یہاں تو ہزار میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملتا جس نے اقبال کے فلسفے کا تعارفی مطالعہ ہی کر رکھا ہو۔ جسے کسی نے پڑھا ہی نہیں، وہ لوگوں کے راستے کی رکاوٹ کیسے بن گیا؟ ان الزامی جوابات سے قطع نظر، آپ کے کمنٹ سے انتہائی واضح نظر آتا ہے کہ جناب کا کُل اثاثہ چند ایک سنے سنائے اشعار ہیں، اور اس کے سوا آپ نے کوئی مطالعہ نہیں کر رکھا۔ نہ آپ کو اقبال کا مشرق و مغرب پہ کل نقد کا علم ہے، نہ ان کے اپنے علمی و عملی کارناموں کا علم ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور موثر تحریکوں کے پیچھے کیسے مفکرین موجود ہیں، اور حتیٰ کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ اقبال کے سب سے بنیادی پروجیکٹس میں ایک تھا ہی مشرقی اقوام میں عملیت کا شعور اجاگر کرنے کا، جس پہ انہوں نے بے تحاشا کام کیا، اور ہند کے مسلمانوں پر ان کی سب سے بڑی تنقید ہی بےعملی کی تھی۔ تنقید ضرور کیجیے، مگر جس پہ تنقید کرنی ہے پہلے اس کا کچھ مطالعہ فرما لیجیے۔
حضور، یہاں بات اقبال کے تصورِ خودی کی ہو رہی ہے، جس کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے۔ جو بات آپ کر رہے ہیں اس مسکینی کی مخالفت میں اقبال نے ان گنت صفحات رنگین کر دیے ہیں۔ اگر یہ آپ کا تصور ہے تو آپ کو مبارک، مگر اس کا نام خودی کی بجائے خودکشی رکھ لیجیے تو ذیادہ بامعنی ہو۔
@@SaroshAlamgir خوب کہا وہ تو زندگی کو فلسفے کی نظر سے دیکھتے تھے ۔بڑے لوگ بڑا ادب ھمیشہ تنقید کی زد میں رھتا ھے اقبال نے شکوہ کونسے میدان بدر میں لکھا تھا آج یہ لاٸبریری کی زینت بنی دنیا کے کسی کونے کے نظام تعلیم کا حصہ نہیں اقبال نے فکر کی جگہ اڑان کو ترجیعی دی شاھین انکا محبوب بن گیا زندگی محض اڑنا جھپٹنا مارنا نہیں
@@sadiqhussain157 برادر، آپ کو ایک مرتبہ بیٹھ کے اپنے خیالات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے؛ ممکن ہے اس سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے؛ فی الوقت آپ کی باتوں میں بہت انتشار ہے۔ مثال کے طور پہ ایک طرف آپ فرما رہے ہیں کہ اقبال نے زندگی کو فلسفے کی نظر سے دیکھا (جو کہ فکر پہ مبنی ہے)؛ دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے فکر کی جگہ اڑان کو ترجیح دی۔ بہرحال یہاں گفتگو اقبال کے افکار پہ ہو رہی ہے، خواہ وہ سہی ہوں یا غلط۔ تنقید کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے دوسرے کا نکتۂ نظر سمجھا جائے۔ 'خودی' اقبال کی خاص اصطلاح ہے جسے انہوں نے مخصوص معانی میں استعمال کیا ہے۔ آپ کو اس سے نظریاتی اختلاف ہے تو اسے سمجھنے کے بعد ضرور اختلاف کا اظہار کریں، مگر 'خودی' کے لفظ ہی کے مفاہیم کو توڑ مروڑ کے پیش کرنا کسی چیز کا حل نہیں۔ جہاں تک آپ کا تقدیر کا تصور ہے، اس میں بہت مسائل ہیں اور ہماری بنیادی اسلامی تعلیمات سے بھی متصادم ہیں۔ پھر بھی اگر آپ اس کا موثر ابلاغ چاہتے ہیں تو اپنے دلائل کو ترتیب دیں، مختلف علما اور خود اقبال کے خطبات میں چوتھے خطبے میں اس پر تنقید کا مطالعہ کریں، قران و سنت اور منطق سے اس تنقید کا جواب دینے کی کوشش کریں۔ پھر شاید کچھ ایسا مربوط نکتۂ نظر سامنے آ سکے جو قابلِ التفات ہو۔ خالی دعووں کی ورنہ کچھ خاص حیثیت نہیں۔
i never listened before such a beautiful definition of Khudi
Thank you so much for such rewarding appreciation.
Can you please also share the lecture you gave in nca lhr
Those lectures were unfortunately not recorded. Were you there?
@@SaroshAlamgir unfortunately no
بہت بہترین ❤❤❤❤❤
Thanks for expanding our perspective on such important topics and imparting in the great mission of nature
Asalamalakum can we get notes of this lecture sir it is so important
❤❤
I have a question weather Iqbal was firstly driven to Tassawuf or in the later part of his intellectual journey he idealized it...
If we analyse it in religious point of view it seems that the name of person affects his/her personality
Sir does the name belongs to khudi
Which name, brother?
My apologies for such a delayed response.
منفی خودی کا تصور اس طرح واضح ہوجاتا ہے۔ خاک ساروں نے جہاں کو اہلِ عظمت کردیا۔
کی خودی جس نے خدا نے اس کو غارت کردیا۔
اقبال نے فلسفہ میں الجھایا ھمیں وہ نشانات دکھاٸۓجو پریکٹس ھونا مشکل ھیں
حضور اپنا برتن چھوٹا ہو تو شکایت دریا سے نہیں کی جاتی۔ بڑے مقامات مشکل ہی ہوتے ہیں، اور چھوٹی شخصیت کا ٹھکانا ان سے دور رہتا ہے۔ بڑی اقوام اپنے مفکرین کے فلسفوں میں الجھتی نہیں، انہیں اپنی بقا اور ترقی کا زریعہ بناتی ہیں؛ چھوٹی قومیں بنا تدبر دور بیٹھی الجھتی رہتی ہیں، خواہ 'فلسفہ' کتنا ہی فعالی اور عملی کیوں نہ ہو۔
@@SaroshAlamgir اقبال کی فکرواقعی بڑی ھے بتاٸیے کون بڑا بنا ایک نام لے لیجیے سواٸۓ مجلسوں میں پڑھنے کے اور سردھننے کے آپکو سمجھ آگٸ بڑی بات ھے کچھ ھمیں ںبھی عناٸت ھو
@@SaroshAlamgir میں اقبال کی فکر کی نفی نہیں کرتامگر یہ نفسیاتی دنیا ھےاسکا فزیکل فینامینا سےتعلق نہیں ۔اللہ نے ھمیںیہ نصیحت کی ھےمیری طرف وسیلےیعنی فزیکل فینامینا سے آٶ مغرب نے اس علم کو پایا کامیاب ھوے اور ھم اقبال کی خودی میں کھوٸۓ گیت گاتے رہ گیے رومی نے ھمیں گول گول گھمادیا دوستو گول گول کھومنے سے بہتر ھےعملی طورپر کچھ کیا اٸۓ چاھے تھوڑا ھی سہی اقبال نے مغرب کی شاخ کو نازک آشیانہ کہا خوداسی شاخ پر بیٹھ کر چہچاٸۓنفساتی ھواٶں میں اڑے وہ لکھنٶ دلی لاھورسے فارغ تھے جرمن میں عیاں ھوے
@@sadiqhussain157
اگر آپ کی بات کا الزامی جواب دینا ہو تو سرِ دست تین باتیں پوچھی جا سکتی ہیں:
۱۔ اگر اقبال کا فلسفہ ہی ہر مصیبت کی جڑ ہے، تو آپ تو خود کو اقبال کے فلسفے میں الجھنے سے بچا کے بہت بڑے آدمی بن چکے ہوں گے؛ آپ نے جو بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں ان کا کچھ تعارف کرا دیجیے۔
۲۔ اقبال کے فلسفے میں الجھنے سے پہلے برِ صغیر میں جو بہت بڑے اور عملی لوگ گزرے ہیں ان کا کچھ تعارف بھی ہو جائے۔
۳۔ اقبال کے فلسفے پر کچھ الزام تب دھرا جا سکتا جب ہمارے ہاں لوگوں میں اس سے کچھ بنیادی سطح کی ہی شناسائی ہوتی۔ یہاں تو ہزار میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملتا جس نے اقبال کے فلسفے کا تعارفی مطالعہ ہی کر رکھا ہو۔ جسے کسی نے پڑھا ہی نہیں، وہ لوگوں کے راستے کی رکاوٹ کیسے بن گیا؟
ان الزامی جوابات سے قطع نظر، آپ کے کمنٹ سے انتہائی واضح نظر آتا ہے کہ جناب کا کُل اثاثہ چند ایک سنے سنائے اشعار ہیں، اور اس کے سوا آپ نے کوئی مطالعہ نہیں کر رکھا۔ نہ آپ کو اقبال کا مشرق و مغرب پہ کل نقد کا علم ہے، نہ ان کے اپنے علمی و عملی کارناموں کا علم ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اور موثر تحریکوں کے پیچھے کیسے مفکرین موجود ہیں، اور حتیٰ کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ اقبال کے سب سے بنیادی پروجیکٹس میں ایک تھا ہی مشرقی اقوام میں عملیت کا شعور اجاگر کرنے کا، جس پہ انہوں نے بے تحاشا کام کیا، اور ہند کے مسلمانوں پر ان کی سب سے بڑی تنقید ہی بےعملی کی تھی۔
تنقید ضرور کیجیے، مگر جس پہ تنقید کرنی ہے پہلے اس کا کچھ مطالعہ فرما لیجیے۔
اصل میں خودی کا مطلب ھے بندہ یہ سمجھ جاٸۓ وہ تقدیر کے آگے کتنا مسکین ھے
حضور، یہاں بات اقبال کے تصورِ خودی کی ہو رہی ہے، جس کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے۔ جو بات آپ کر رہے ہیں اس مسکینی کی مخالفت میں اقبال نے ان گنت صفحات رنگین کر دیے ہیں۔ اگر یہ آپ کا تصور ہے تو آپ کو مبارک، مگر اس کا نام خودی کی بجائے خودکشی رکھ لیجیے تو ذیادہ بامعنی ہو۔
@@SaroshAlamgir خوب کہا وہ تو زندگی کو فلسفے کی نظر سے دیکھتے تھے ۔بڑے لوگ بڑا ادب ھمیشہ تنقید کی زد میں رھتا ھے اقبال نے شکوہ کونسے میدان بدر میں لکھا تھا آج یہ لاٸبریری کی زینت بنی دنیا کے کسی کونے کے نظام تعلیم کا حصہ نہیں اقبال نے فکر کی جگہ اڑان کو ترجیعی دی شاھین انکا محبوب بن گیا زندگی محض اڑنا جھپٹنا مارنا نہیں
@@sadiqhussain157
برادر، آپ کو ایک مرتبہ بیٹھ کے اپنے خیالات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے؛ ممکن ہے اس سے بہت سوں کا بھلا ہو جائے؛ فی الوقت آپ کی باتوں میں بہت انتشار ہے۔ مثال کے طور پہ ایک طرف آپ فرما رہے ہیں کہ اقبال نے زندگی کو فلسفے کی نظر سے دیکھا (جو کہ فکر پہ مبنی ہے)؛ دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے فکر کی جگہ اڑان کو ترجیح دی۔
بہرحال یہاں گفتگو اقبال کے افکار پہ ہو رہی ہے، خواہ وہ سہی ہوں یا غلط۔ تنقید کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے دوسرے کا نکتۂ نظر سمجھا جائے۔ 'خودی' اقبال کی خاص اصطلاح ہے جسے انہوں نے مخصوص معانی میں استعمال کیا ہے۔ آپ کو اس سے نظریاتی اختلاف ہے تو اسے سمجھنے کے بعد ضرور اختلاف کا اظہار کریں، مگر 'خودی' کے لفظ ہی کے مفاہیم کو توڑ مروڑ کے پیش کرنا کسی چیز کا حل نہیں۔
جہاں تک آپ کا تقدیر کا تصور ہے، اس میں بہت مسائل ہیں اور ہماری بنیادی اسلامی تعلیمات سے بھی متصادم ہیں۔ پھر بھی اگر آپ اس کا موثر ابلاغ چاہتے ہیں تو اپنے دلائل کو ترتیب دیں، مختلف علما اور خود اقبال کے خطبات میں چوتھے خطبے میں اس پر تنقید کا مطالعہ کریں، قران و سنت اور منطق سے اس تنقید کا جواب دینے کی کوشش کریں۔ پھر شاید کچھ ایسا مربوط نکتۂ نظر سامنے آ سکے جو قابلِ التفات ہو۔ خالی دعووں کی ورنہ کچھ خاص حیثیت نہیں۔
@@SaroshAlamgir بہت شکریہ