Ismaili Waez - Momin Vs Muslim - The Tree of Islam - Alwaez Abu Ali

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 24 ноя 2024

Комментарии • 7

  • @almasali5373
    @almasali5373 3 года назад +1

    Yam thank you for downloading.

    • @thewisdom4997
      @thewisdom4997  3 года назад

      Thank you for watching, keep us in your prayers.

  • @arshialijan2649
    @arshialijan2649 3 года назад

    ❤❤❤

  • @manubhanvadia3751
    @manubhanvadia3751 3 года назад +1

    Ya Ali Madad, One jamat

    • @thewisdom4997
      @thewisdom4997  3 года назад

      Thank you for watching and supporting one Jamat

  • @IsmailiGinanSufiyana
    @IsmailiGinanSufiyana 2 года назад

    *حبل اللہ*
    "وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ﴿۱۰۳:۳﴾
    او تم سب کے سب مل کر خدا کی رسی مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں فرقہ فرقہ نہ بنو *۱* ۔"
    اس فرمان الہی میں قرآن اور امامت کی مثال ایک ایسی رسی سے دی گئی ہے، جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں اور دوسرا مومنین کے ہاتھ میں ہو، جو عرش برین سے فرش زمین تک پہنچی ہو، اور جو ازل سے ابد تک رسا ہو سکتی ہو، پس خدا کی ایسی رسی صرف قرآن اور نور امامت کی باہم ملی ہوئی علمی حیثت ہی ہو سکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پر عمل دور نبوت میں نبی صلعم کے ذریعہ کیا جائے اور دور امامت میں امام کے ذریعہ، چنانچہ عہد رسالت میں مسلمان رسول اللہ کے ذریعے قرآن پر عمل کرتے تھے، اسی لئے وہ اس وقت آپس میں فرقہ فرقہ نہیں بنے تھے، اسی طرح اگر اب بھی خلیفہ رسول(یعنی امام زمان) کے ذریعے قرآنی حقائق کو سمجھتے، تو وہ ہر گز فرقہ فرقہ نہ بن جاتے، کیونکہ ملی وحدت کا مرکز امام حاضر ہی ہیں، جن کی فرمنبرداری میں فرقہ فرقہ ہونے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
    چنانچہ " *اعتصام* " کے معنی ہیں، خطرے سے بچنے کے لئے کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑنا اور " *وَ* *اعْتَصِمُوْا* " میں اسی معنی کا امر ہے، اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے، کہ وہ خطرہ کون سا ہے، جس سے بچنے کے لئے خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا ضروری ہوا ہے؟ اس کا جواب دو طرح سے ہے، پہلا جواب یہ ہے، کہ جس شخص کا ہاتھ خدا کی رسی سے چھوٹ گیا، تو اسے گمراہی کا خطرہ رہتا ہے، اور اس کے بر عکس جو شخص خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہا کرے، تو وہ ہدایت پاتا ہے، چنانچہ حق تعالی کا ارشاد ہے:۔
    " وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴿۳:۱۰۱﴾
    اور جو شجص خدا سے وابستہ ہو، تو وہ ضرور سیدھی راہ پر لگا دیا گیا۔" ظاہر ہے، کہ خدا کہ رسی ہی کو مضبوطی سے تھامے رہنا، خدا سے وابستہ ہو جانا ہے، جس کا نتیجہ سیدھی راہ پر لگنا ہے، وارنہ گمراہی کا خطرہ رہتا ہے۔
    مزکورہ سوال کا دوسرا جواب یہ ہے، کہ خدا کی رسی سے وابستہ نہ ہونے میں انسان کو ہمیشہ کے لئے بہیمیت کی پستی میں جا گرنے کا خطرہ درپیش رہتا ہے، اسی لئے فرمایا گیا ہے، کہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو، تاکہ تم کو حیوانیت کی پستی سے ملکوتیت کی بلندی پر اٹھا لیا جائے، کیونکہ خدا کی رسی اور کمند کا ایک خاص مفہوم یہ ہے، کہ یہ عالم ملکوت کی بلندی سے عالم ناسوت کی پستی تک باندھی گئی ہے، یا یوں کہنا چاہئے، کہ خدا کی رسی سے وابستگی کی مثال ایک ایسی سیڑھی کی طرح ہے، جو عالم سفلی سے عالم علوی پر چڑھنے کے لئے قائم کر دی گئی ہے، چناچہ حق تعالی کا ارشاد ہے:۔
    "مِّنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ ﴿۳:۷۰﴾
    خدا کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے" دانشمند کے لئے ظاہر ہے کہ سیڑھی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے، پس معلوم ہوا، کہ جو خدا کی رسی ہے، وہی خدا کی سیڑھی ہے، کیونکہ ہدایت الہیہ کا مرکز ایک ہی ہے، مگر اس کے نام اور مثالیں بے شمار ہیں۔
    *فت نوٹ* :
    ۱: مولوی فرمان علی صاحب اپنے ترجمہ قرآن صفہ نمبر ۹۹ کے حاشیئے پر لکھتے ہیں:۔
    "حضرت امام جعفر الصادیق علیہ السلام سے روایت ہے، کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے، کہ ہم اہل بیت خدا کی رسی ہیں، اور سب کو جس کی مضبوطی سے تھامنے کا خدا نے حکم دیا ہے، دیکھو صواعق محرقہ نیز تفسیرالمتقین صفہ نمبر ۷۴ کےحاشیہ پر دیکھو۔ المجالس المستنصریہ کے صفہ ۱۷۰ پر بھی خدا کی رسی کی یہی تعریف کی گئی ہے۔
    *از کتاب قرآن اور نور امامت، علامہ نصیر الدین نصیرؔ ہونزائی*