Tahzeer un Nas par Itraz Ka Jawab By Maulana Ilyas Ghuman Sahib Almuhannad Alalmufannad series

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 8 сен 2024

Комментарии • 128

  • @rohanibeta5574
    @rohanibeta5574 2 года назад +7

    اللہ پاک حضرت مولانا شیخ الحدیث والتفسیر صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

  • @MohammadshamshadMohammad-vq9ot
    @MohammadshamshadMohammad-vq9ot 4 месяца назад +6

    الحمدللہ ہم علمائے دیوبند کو ماننے والے ہیں علمائے حق علمائے دیوبند زندہ باد❤❤❤❤

  • @irfananwar135
    @irfananwar135 3 месяца назад +3

    SubhanAllah. Molvi SB Allah Pak aap k ilm aur sehat mein barkat dy

  • @user-ci5wz8mj9r
    @user-ci5wz8mj9r 4 месяца назад +4

    ماشاءاللہ

  • @user-bp5lp1pp2j
    @user-bp5lp1pp2j 4 месяца назад +3

    Vvvv good

  • @molanasuhailislamicbyan3071
    @molanasuhailislamicbyan3071 Год назад +5

    آپ مجھے بہت پسند ہے حضرت

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      اگر انشراح صدر نہیں ھے تو نہ مانو۔ دین میں کوئی جبر تو ھے نہیں۔ سادہ اور آسان سی بات ھے، کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ سمجھنا مشکل ھو۔ اگر ھم اللہ اور اللہ کے رسول کو مانتے ھیں تو اللہ اور اللہ کے رسول کی باتیں بھی ھمیں ماننی چاھیئں۔
      کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے خبر پاکر یہ نہیں بتایا تھا کہ
      امت زوال پذیر ھوجائے گی۔
      ایمان دلوں میں سے اٹھ جائے گا اور گویا ثریا ستارے پر چلا جائے گا۔
      علماء بھی بگڑ جائیں گے۔
      اس اٹھے ھوئے ایمان کو واپس دلوں میں قائم کرنے کا کیا کوئی حل حضور اکرم نے بتایا تھا یا نہیں ؟؟
      اللہ بھی موجود، اللہ کے رسول کی ھدایات بھی موجود اور اللہ کی نازل کردہ کتاب بھی موجود تو پھر
      ھر صدی کے سر پر مجددین کے آنے کی خبر حضور نے کیوں دی تھی ؟
      خلیفتہ اللہ المھدی کے آنے کی خوشخبری کیوں دی گئی تھی ؟
      عیسٰی بن مریم کے آسمان سے نزول کی ضرورت کیا تھی ؟
      کیا ان سب نے ٹورسٹ ویزا پر آنا تھا ؟
      خلافت علی منہاج النبوت کے از سر نو قائم ھونے کی خوشخبری کیوں دی گئی تھی ؟؟؟؟
      اگر کسی کی ضرورت ھی نہیں ھے اور سب اچھا ھی اچھا ھے اور راوی چین ھی چین لکھتا ھے تو پھر آپ کو اپنے علماء کی بات سننے کی بھی کیا ضرورت ھے ؟
      آرام سے گھر بیٹھو اور اللہ اللہ کرو۔

    • @user-iw7uj3uz2q
      @user-iw7uj3uz2q 5 месяцев назад

      *حدیث ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے معانی از بزرگان ِ سلف*
      *اعتراض* : یہ ثابت کرنے کے لئے کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا حدیث *’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘* پیش کرتے ہیں۔ اور مطلب یہ کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا۔
      ان کے اس دعویٰ کی غلطی ثابت کرنے کے لئے ہم ذیل میں ان چند بزرگان کے حوالے درج کرتے ہیں جنہوں نے اس حدیث کی تشریح فرمائی ہے کہ میرے بعد شریعت لانے والا کوئی نبی نہیں ہو گا:۔
      *زوجہ رسول ﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا*
      لوگو ! آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین تو کہو مگر ہر گز یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
      (تفسیر الدرالمنثور جلد 5 صفحہ 204)
      *عالم بے بدل حضرت ابن قتیبہ*
      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول آنحضرت ﷺ کے فرمان ’لانبی بعدی‘ کے مخالف نہیں کیونکہ حضور ﷺ کا مقصد اس فرمان سے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کو منسوخ کرنے والا ہو ۔
      (تاویل مختلف الاحادیث صفحہ 236)
      *محدث امت امام محمد طاہر گجراتی*
      حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کا یہ قول ’لانبی بعدی‘ کے منافی نہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی مراد یہ ہے کہ ایسا نبی نہیں ہوگا جو آپ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے ۔
      (تکملہ مجمع البحار صفحہ85)
      *حضرت امام عبدالوہاب شعرانی*
      مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی ۔ محض تشریعی نبوت ختم ہوئی ہے ۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ کے قول مبارک ’لا نبی بعدی و لا رسول‘ سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ۔
      (الیواقیت والجواہر جلد 2صفحہ 24)
      *حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی*
      آنحضرت ﷺ کے اس قول ’لا نبی بعدی‘ سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ جو نبوت اور رسالت ختم ہوگئی ہے وہ حضور ﷺ کے نزدیک نئی شریعت والی نبوت ہے ۔
      (قرۃ العینین صفحہ 319)
      *حضرت حافظ برخوردار صاحب*
      اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی ایسانبی نہیں جو نئی شریعت لے کر آئے ، ہاں اللہ چاہے انبیاء ، اولیا میں سے ۔
      (نبراس صفحہ 445 حاشیہ)
      *حضرت محی الدین ابن عربی*
      قول رسول کہ رسالت اور نبوت منقطع ہوگئی ہے ۔ میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی ، سے مراد یہ ہے کہ اب ایسا نبی نہیں ہوگا جو میری شریعت کے مخالف شریعت پر ہو ۔ بلکہ جب کبھی کوئی نبی ہوگا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہوگا۔
      (فتوحات مکیہ جلد2 صفحہ3)
      *نواب نورالحسن خان*
      حدیث ’لاوحی بعدی‘ بے اصل ہے۔البتہ ’لانبی بعدی‘ آیا ہے ۔ جس کے معنی نزدیک اہل علم کہ یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا ۔
      (اقتراب الساعہ صفحہ 162)
      *مولوی محمد زمان خان آف دکن*
      حدیث ’لاوحی بعدی‘ باطل و بے اصل ہے ۔ ہاں ’لانبی بعدی‘ صحیح ہے ۔ لیکن معنی اس کے علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی نبی صاحب شرع کہ شرع محمدی کو منسوخ کرے بعد حضرت ﷺ کے حادث نہ ہو ۔
      (ہدیہ مہدویہ صفحہ 301)
      *امام اہل سنت حضرت ملا علی قاری*
      خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو آپ ﷺ کے دین کو منسوخ کرے اور آپ کا امتی نہ ہو۔
      (الموضاعات الکبریٰ صفحہ 292)
      *شیخ عبدالقادر کردستانی*
      آنحضرت ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لے کر مبعوث نہ ہوگا۔
      (تقریب المرام جلد 2صفحہ233)
      *فرقہ مہدویہ کے بزرگ سید شاہ محمد*
      ہمارے محمد ﷺ خاتم نبوت تشریعی ہیں فقط ۔
      (ختم المہدیٰ سبل السویٰ صفحہ 24)
      *خلیفہ الصوفیاء شیخ العصر حضر ت ا لشیخ بالی آفندی*
      خاتم الرسل وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت جدیدہ پیدا نہ ہوگا ۔
      (شرح فصوص الحکم صفحہ 56) (مقامات مظہری صفحہ 88)
      *مولانا ابوالحسنات عبدالحئی فرنگی محل*
      ’بعد آنحضرت ﷺ کے یا زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہوناالبتہ ممتنع ہے ۔ ‘
      (دافع الوسواس صفحہ 16)
      ان مندرجہ بالا ارشادات سے روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کے غیر مشروط آخری نبی ہونے کا جو تصور چودھویں صدی میں پیدا ہو ا اس کا گزشتہ تیرہ صدیوں کی اسلامی تاریخ میں کوئی نشان نہیں ملتا ۔ بلکہ علمائے سلف محض زمانی لحاظ سے آخری نبی ہونے کے خیال کو ردّ کرتے رہے ہیں ۔
      *نامور صوفی حکیم ترمذی*
      ’خاتم النبیین کی یہ تاویل کہ آپ ﷺ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں بھلا اس میں آپ کی کیافضیلت و شان ہے اور اس میں کون سی علمی بات ہے ۔ یہ تو محض احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے ۔‘
      (کتاب ختم الاولیاء صفحہ 341)
      *بانی دیوبند مولوی محمد قاسم نانوتوی*
      ’عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا ۔ ‘
      (تحذیر الناس صفحہ 3، 28)
      گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ جہاں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اس سے مراد شرعی نبوت ہے۔ اور جہاں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے بعد نبی آسکتا ہے آس سے مراد آمتی(محمدی) نبوت ہے۔ یعنی شرعی نبوت بند ہے اور آمتی(محمدی) نبوت جاری و ساری ہے۔

    • @user-iw7uj3uz2q
      @user-iw7uj3uz2q 5 месяцев назад

      ختم نبوت اور حضرت علی There is another incident of Hazrat Ali which is as follows:
      وأخرج ابن الأنباري في المصاحف عن أبي عبد الرحمن السلمي قال: كنت اقرىء الحسن والحسين، فمر بي علي بن أبي طالب رضي الله عنه وأنا اقرئهما فقال لي: اقرئهما وخاتم النبيين بفتح التاء
      Abu Abdur Rahman narrates that he used to teach Hazrat Hasan and Hussain. Once Hazrat Ali bin Abu Talib passed nearby him while he was teaching them, so he said to him “Teach them Khataman Nabiyeen with a fatha on the ta” (Durr-e-Manthoor, Under 33,40)
      Now firstly, we already have proof from the Holy Prophet saw and his wife, the mother of the believers, that Prophethood is indeed open but only to a prophet from within the ummah.
      Hazrat Abu Abdullah Muhammad Bin Ali Hussain Al Hakim Al Tirmidhi states:
      يقول الصوفي المعروف محمد بن علي الحسن الحكيم الترمذي (المتوفى عام 308 هـ):
      “فإن الذي عَمِيَ عن خبرِ هذا يظنّ أن خاتم النبيين تأويله أنه آخرهم مبعثا. فأي منقبة في هذا؟ وأي علم في هذا؟ هذا تأويل البُلْهِ الجَهَلة.”
      (كتاب ختم الأولياء، ص341 المطبعة
      “According to us, it means that prophethood manifested itself in its full and complete manner in the Holy Prophet, peace and blessings of Allah be upon him . His heart became a vessel for the complete perfection of prophethood an d then hisheart was sealed. How can the glory and superiority of Muhammad, peace and blessings of Allah be upon him, be manifested if we claim that he was the last to appear in the world. This is, no doubt, an interpretation of the foolish and the ignorant.” (Kitab Khatamul Auliya, Page 341)
      Al Imam Ibn Qutaybah ad-Dinwari who passed away in 267 After Hijri stated:
      ويورد الإمام ابن قتيبة - رحمه الله - قول عائشة رضي الله عنها، ويعلق عليه ويقول:
      “وليس هذا من قولها ناقضا لقول النبي صلى الله عليه وسلم: لا نبي بعدي، لأنه أراد لا نبي بعدي ينسخ ما جئت به.”
      (كتاب تأويل مختلف الأحاديث ص127 دار الكتاب العربي بيروت)
      “So far as it concerns the statement of ‘Ā’ishah ra: ‘Call the Apostle of Allāh (saw): The Seal of the Prophets and do not say: There will be no prophet after him’; it is directed to the descent of ‘Īsā asand this statement of her does not contradict the statement of the Prophet saw
      ‘There will be no prophet after me’, because he meant: ‘There will be not prophet after me who will abrogate that with which I came.” (Dar al-Kitaab Al Arabi, Beirut)
      Furthermore, a famous scholar named Shaykh Muhammad Tahir stated:
      ويقول الإمام محمد طاهر (المتوفى عام 986 هـ) أحد الصلحاء المعروفين، في شرح قول السيدة عائشة رضي الله عنها:
      “هذا ناظر إلى نـزول عيسى، وهذا أيضا لا ينافي حديث “لا نبي بعدي”، لأنه أراد لا نبي ينسخ شرعه.”
      (تكملة مجمع بحار الأنوار، لمحمد طاهر الغجراتي، ص 502)
      “And it is narrated from ‘Ā’ishah: ‘Say that he is the Seal of the Prophets and do not say: There will be no prophet after him’. This aims at the decent ‘Īsā, and this also does not contradict the ḥadīth‘There will be no prophet after me’, because he meant that no prophet will abrogate his sharī‘ah.” (Takmilah Majmaʻ biḥār al-anwār fī gharāʼib at-tanzīl wa-laṭāʼif al-akhbār)
      Even in the Sharh of Mishkat al Masabih it is written:
      وقال شارح “مشكاة المصابيح” محمد بن رسول الحسيني البرزنجي: “ورد “لا نبي بعدي” ومعناه عند العلماء أنه لا يحدث بعده نبي بشرع ينسخ شرعه.”
      (الإشاعة لأشراط الساعة ص149 دار الكتب العلمية بيروت)
      This is also telling us that La nabiyya badi refers to a prophet abrogating the shariah of the Holy Prophet saw.
      Hazrat Imam Mulla Ali Qari states:
      ومع هذا لو عاش إبراهيم وصار نبيا، وكذا لو صار عمر نبيا لكانا من أتباعه عليه الصلاة والسلام كعيسى والخضر وإلياس عليهم السلام. فلا يناقض قولَه تعالى: (وخاتم النبيين) إذ المعنى أنه لا يأتي نبي بعده ينسخ ملته ولم يكن من أمته.” (الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لملا علي القاري ص192 دار الكتب العلمية بيروت)
      “Had Ibrahim lived and become a prophet, and likewise had Umar become a prophet they would be follower prophets of the Holy Prophet , peace and blesings of Allah be upon him, like Isa, Khizar and Ilyas upon whom all be peace. It does not contradict the divine word ‘KhatamunNabiyyeen’ which means that there shall not be a prophet abrogating his law nor one who was not of his followers. (Al Asrar al Marfuah fil Akhbr al Mauzuah Page 192)
      Hazrat Imam Jalal-ud-Din Suyuti states referring to the Advent of the latter day Messiah and his Prophethood:
      حقا كفر ته نبو بسلب قال من
      “Whoever says He Will not be a prophet, he has committed disbelief” (Hijajul Karamah Page 431)
      He also states that despite the latter day messiah would be a khalifa of the Ummah of Muhammadsaw, he shall remain a Messenger and a respected Prophet (Hijajul Karamah Page 426)

    • @user-iw7uj3uz2q
      @user-iw7uj3uz2q 5 месяцев назад

      ختم نبوت اور بزرگان امت Hazrat Imam Abdul Wahab Sha’rani States:
      يشرح الشيخ عبد الوهاب الشعراني (المتوفى 976 هـ) حديث “لا نبي بعدي” ويقول:
      “فقوله صلى الله عليه وسلم “لا نبي بعدي ولا رسول بعدي”، أي ما ثمّ مَن يشرع بعدي شريعة خاصة.”
      (اليواقيت والجواهر للشعراني ج 2 ص 35 دار المعرفة للطباعة والنشر بيروت 1900م)
      “”Let it be known that the order of prophethood has not totaly ceased; it is the law - bearing prophethood which has discontinued.” Then while explaining the Hadith la nabiyya badi and La rasoola badi expounded that there shall be no law-bearing prophet after him.” (Al Yawaqit wal Jewahir, Volume 2, Page 39)
      He also states in the same book:
      “Surely, prophets and messengers have gone before and shall continue to appear in this world in future, but essentially they will be under the Sharia of the Holy Prophet Muhammad saw. But most men are ignorant of this truth”(Page 27)
      The Messiah of the Latter Days shall make his advent as a Wali with the qualities of a prophet, and the Sharia of the Holy Prophet Muhammad (saw) shall be unfolded unto him through revelation from Allah and he shall have a complete grasp of its meaning”(Page 27)
      “Remember that prophethood has not disappeared. Prophets can appear. The prophethood that has ceased to exist is only that which brings with it a new law”(Page 35)
      Allama Abul Fadhl Shihabuddin Assayyad Mahmud states:
      “The tradition, that there is no revelation after me is absurd. The notion that Gabrael will not descend to the earth after the demise of the Holy Prophet, peace and blesssings of Allah be upon him, has no foundation at all ….. Most probably what is meant by the negation of revelation regarding Isa, peace be on him, after his descent is the revelation of the Law, but what has been described, is the revelation without the Law.” (Rooh ulmaani Volume 21, Page 41)
      Hazrat Maulana Rumi states:
      “The Holy Prophet saw was the Khatam because no one had ever been like him before, nor shall there be one after him. When an artist excels others in art, you do not say ‘The art has ended with you”(Miftah Ul Ulum Volume 15 Pages 56-57)
      He also states: “Make such plans to perform righteousness in the way of God that you attain prophethood within the Ummah” (Masnawi, Daftar I, Page 53, Vol V page 42)
      And: “The Holy Prophet (saw) was declared ‘Khatam’ because he excelled in munificence and in perpetuating the spiritual blessings to his followers. When a master excels all others in his art, don’t you use the word ‘Khatam’ to convey the idea that he has excelled all others in his domain?”(Page 18-19 1917 edition)
      Lastly: “Stive hard in the path of virtue in a manner so that you may be blessed with prophethood while you are still a follower” (Miftah Ulum Volume 13, Page 98, 152)
      Nawab Siddique Hasan Khan, a leader of the Ahl-e-Hadith stated:
      ويقول السيد نواب نور الحسن خان بن نواب صديق حسن خان
      “الحديث “لا وحي بعد موتي” لا أصل له، غير أنه ورد “لا نبي بعدي”، ومعناه عند أهل العلم أنه لن يأتي بعدي نبي بشريعة تنسخ شريعتي.”
      “The Hadith there is no revelation after my demise’ has no foundation, although LA NABIYYA BA’DEE is quite correct, which, according to the men of letters, means that there shall be no prophet after me who shall be raised with a new code of Law which abrogates my Law.” (Iqtrab ul Saat Page 162)
      Hazrat Maulana Abul Hasanat Abdul Hayee states:
      “”After the demise of the Holy Prophet, peace and blessings of Allah be upon him, or even during his own lifetime, it is not an impossibility for someone to be exalted to the position of a simple prophet. But a prophet with a new Law is, indeed, forbidden.” (Dafe al Wasawis Fi Athar ibn Abbas Page 16)
      Maulana Muhammad Qasim Nanotwi who is the founder of Dar-ul-Uloom Deoband stated:
      “According to the layman the Messenger of Allah, peace and blessings on him, being the KHATAM (seal), is supposed to have appeared after all the previous prophets. But men of understanding and the wise know it very well that being the first or the last, chronologically, does not carry any weight. How could, therefore, the words of the Holy Qura’n: ”But he is the Messenger of Allah and the seal of the Prophets” (33:41) glorify him? But I know very well that none from among the Muslims would be prepared to agree with the common men.” (Tahzir ul Naas Page 4-5)
      He also states: “If we accept this view it shall not at all contravene his finality, even though someone in the future does rise to the high status of prophethood” (Tahzir ul Naas Page 34)
      Hazrat Sheikh Ahmad Farooqi states:
      The rising of prophets after the Khatamar Rasul Hazrat Muhammad, the Chosen One saw from among his own followers and as a heritage, does not in any way run counter to his status asthe Khatamar Rasul. Therefore, O reader, do not be among those who doubt” (Maktubat Imam Rabani Vol 1)
      Hazrat Maulana Abul Hasanat Abdul Hayee Brehlvi states:
      After the demise of the Holy Prophet saw or even during his own lifetime, it is not an impossibility for someone to be exalted to the position of a simple prophet. But a prophet with a new Law is, indeed, forbidden” (Dafail Waswas, Page 16).
      The sum up of all the above is that wherever Muhammad pbuh said I am Last Prophet he means Sharri Nabuwwat and wherever he said future Prophet can come it means Ummati(Muhammadi) Nabuwwat.

    • @user-iw7uj3uz2q
      @user-iw7uj3uz2q 5 месяцев назад

      ختم نبوت اور مجدد اعظم
      Hazrat Shah Waliullah Muhaddith of Delhi who is known to be the mujadid of the 12th century states:
      أما الشاه ولي الله الدهلوي فيقول:
      “وخُتم به النبييون.. أي لا يوجد من يأمره الله سبحانه بالتشريع على الناس.”
      (التفهيمات الإلهية، ج2 ص85 بتصحيح وتحشية الأستاذ غلام مصطفى القاسمي، أكادمية الشاه ولي الله الدهلوي حيدر آباد باكستان)
      “The closing of prophethood with the Holy Prophet saw means that there can be no divinely inspired reformer after him who would be commissioned with a new law by Allah”(Tafheemat-e-Ilahiyya Part 2 Pagee 85)
      He further states:
      “The meaning of the Holy Prophet being the Khataman Nabiyyin is that there shall not now appear a person whom God may appoint with a new Law for mankind, that is to say, there shall be no prophet who shall come with a new Law(Tafhimate Ilahiyya Volume II, page 53, 72-73)
      The people generally believe that when he (Messiah) would descend on earth, he would only be an ‘Ummati.’ Certainly, it is not correct. He would be an embodiment of the spirit which enkindled the soul of the Holy Prophet (saw) would be his faithful replica”… “There cannot be an independent prophet after the Holy Prophet (saw) who is not his follower and his adherent” … “The end of prophethood with the Holy Prophet (saw) only means that there can be no law bearing prophet or a prophet from outside the Ummah(Al Khairul Kathir, page 111)
      Hazrat Mohyuddin Ibn Arabi states: ““The prophethood has terminated with the person of the Prophet of Allah(saw), and his blessings, was no other than the law-bearing prophethood not prophethood itself and this is the meaning of his “verily apostleship and prophethood ceased with me therefore there shall be after me neither an apostle nor a prophet i.e there shall not be after me a prophet with a law other than mine but that he shall be subject to my law”(Al Fatuhat ul Makiyya Volume 2 page 3)
      He also states:
      “From the study and contemplation of the Darud we have arrived at the definite conclusion that there shall, from among the Muslims, certainly be persons whose status, in the matter of prophethood, shall advance to the level of prophets, if Allah pleases. But they shall not be given any book of law”…“It is the height of excellence in the Holy Prophet (saw) that through the prayer in ‘Darud Sharif’ he placed his progeny at par with the prophets, and his surpassing eminence over Hazrat Ibrahim lies in the fact that his Sharia can never be repealed (Fatuhati Makiyyah Volume 1, Chapter 73, Page 545)
      In fine, we have learnt for certain (from Darud Sharif) that this ‘Ummah’ is destined to have amongst it such personages as would be ranked with the prophets in the eyes of Allah, but they shall not be law-bearers(Fatuhati Makiyyah Volume 1, Chapter 73, Page 545)
      “Jesus (as) shall descend amongst the Muslim Ummah as an arbitrator without a new law. Most surely, he will be a prophet. There is no doubt about it.”(Fatuhati Makiyyah Volume 1, Chapter 73, Page 570)
      “It is known that ‘Ahle Ibrahim’ are the prophets and messengers, and they are the people who came after Abraham like Isaac, Jacob, Joseph and those prophets and messengers from their progeny manifest Laws. This signifies the fact that in the sight of God they had prophethood. The Holy Prophet (saw) intended that followers who are from among those who followed him should achieve the rank of prophethood, though they would not be law-bearing. But he kept for them a type of Sharia from his own Sharia. Therefore he said, ‘O Allah exalt Muhammad and his Ahl by bestowing mercy upon them as Thou conferred prophethood upon the Ahl of Ibrahim thus exalting Ibrahim. Consequently, they had prophethood with Shariah. And Thou has decreed that there would be no Shariah after me. Hence, shower Mercy upon me and upon my Ahl - i.e. confer upon them the rank of prophethood from Thyself, notwithstanding that they would not bring any Sharia. The height of Muhammad’s exaltedness is expressed by the fact that through invoking prayers for him he raised his own progeny to the level of prophets and he was granted the superiority over Hazrat Ibrahim through the fact that the Law he brought should never be abrogated.”(Fatuhati Makiyyah Volume 1, Chapter 73, Page 177-178)
      He also states:
      “In so far as the law-bearing prophethood is concerned, it verily ceased and terminated in Muhammad, peace and blessings of Allah be upon him, and therefore has there is no law-giving prophet aBer him…. but Allah has in His graciousness to His servants, continued general prophethood without the law-bearing elements.” (Fusus ul Hikam, Page 134-135)

  • @muhammadzaid6308
    @muhammadzaid6308 5 месяцев назад +2

    اسلام علیکم ورحمتہ
    اچھا ایڈمن بھائی کوئی تقویہ الایمان کی روایت پر بھی اس طرح کی کوئی تفصیلی ویڈیو ڈالیے۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  5 месяцев назад +1

      و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
      محترم وہ عبارت بتا دیں؟۔ کیونکہ ان کی کئی عبارات کو لے کر اعتراض کیا جاتا ہے۔ ان شاءاللہ العزیز سیریز شروع کریں گے اس پر

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  5 месяцев назад +1

      المہند علی المفند پلے لسٹ دیکھیں شاید اس میں مل جائے آپ کو۔

  • @ubaidurrahmanrahman9127
    @ubaidurrahmanrahman9127 День назад +1

    سبحان اللہ ماشاء اللہ بہت خوب جزاکم اللہ تعالٰی خیرا آمین
    لیکن یہ معلوم کرنا ہے کہ کتاب حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ یہ کتاب ملتی ہے اس میں صفحات ترتیب سے نہیں ہے جیسے مثلا ۱۰ کے بعد ۱۵ اسی طرح پوری کتاب میں اسکی وجہ کیا ہے
    اس کتاب کی مجھے سخت ضرورت ہے
    جسکے صفحات ترتیب سے پوں
    براے مہربانی

  • @hashimshabir618
    @hashimshabir618 Год назад +3

    mshallah zabrdast

  • @pu8reLib
    @pu8reLib Месяц назад

    آئیں بائیں شائیں

  • @Sketchyworld78
    @Sketchyworld78 4 месяца назад +1

    Maslake ala hazrat zindabad ❤❤❤❤❤❤

  • @ahlesunnathaqjamat7343
    @ahlesunnathaqjamat7343 11 месяцев назад +1

    g asar ibna abbas per kon baat kara ga?

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  11 месяцев назад

      مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللّٰہ نے اسی پر بات کی ہے

    • @allamashahzadahmadqadri2405
      @allamashahzadahmadqadri2405 4 дня назад

      ruclips.net/video/fAkKScWCM0g/видео.htmlsi=WgRZYWHc2ahDTZMZ

  • @muhaq755
    @muhaq755 Год назад

    اگر انشراح صدر نہیں ھے تو نہ مانو۔ دین میں کوئی جبر تو ھے نہیں۔ سادہ اور آسان سی بات ھے، کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ سمجھنا مشکل ھو۔ اگر ھم اللہ اور اللہ کے رسول کو مانتے ھیں تو اللہ اور اللہ کے رسول کی باتیں بھی ھمیں ماننی چاھیئں۔
    کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے خبر پاکر یہ نہیں بتایا تھا کہ
    امت زوال پذیر ھوجائے گی۔
    ایمان دلوں میں سے اٹھ جائے گا اور گویا ثریا ستارے پر چلا جائے گا۔
    علماء بھی بگڑ جائیں گے۔
    اس اٹھے ھوئے ایمان کو واپس دلوں میں قائم کرنے کا کیا کوئی حل حضور اکرم نے بتایا تھا یا نہیں ؟؟
    اللہ بھی موجود، اللہ کے رسول کی ھدایات بھی موجود اور اللہ کی نازل کردہ کتاب بھی موجود تو پھر
    ھر صدی کے سر پر مجددین کے آنے کی خبر حضور نے کیوں دی تھی ؟
    خلیفتہ اللہ المھدی کے آنے کی خوشخبری کیوں دی گئی تھی ؟
    عیسٰی بن مریم کے آسمان سے نزول کی ضرورت کیا تھی ؟
    کیا ان سب نے وزٹ ویزا پر آنا تھا ؟
    خلافت علی منہاج النبوت کے از سر نو قائم ھونے کی خوشخبری کیوں دی گئی تھی ؟؟؟؟
    اگر کسی کی ضرورت ھی نہیں ھے اور سب اچھا ھی اچھا ھے اور راوی چین ھی چین لکھتا ھے تو پھر آپ کو اپنے علماء کی بات سننے کی بھی کیا ضرورت ھے ؟
    آرام سے گھر بیٹھو اور اللہ اللہ کرو۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      تمہارے مرزا کی طرح تمہاری باتوں میں بھی تضاد ہے کبھی مرزا کو مسیح ابن مریم کا مصداق بتاتے ہو اور کبھی مہدی ۔ مسیح علیہ السلام کی والدہ کا نام مریم ہے جب کہ مرزا کی والدہ کا نام اور ہے پھر دونوں ایک کیسے ہوٸے؟ مسیح ابن مریم سچا انسان اور نبی جب کہ تمہارا مرزا جھوٹا اور غلیظ انسان

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      اللہ تعالی نے کتاب و سنت کو راہنماٸی کے لیے چھوڑا ہے اس امت میں ۔

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      @@altasdeeqaat امر واقعہ یہ ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق کتاب و سنت کی موجودگی میں امت بہتر فرقوں میں تقسیم ھوئی اور پھر عیسیٰ بن مریم اماما مھدیا حکما عدلا کی جماعت الاحمدیہ الاسلامیہ کے ذریعے یہ بکھری ھوئی امت پھر سے ملت واحدہ بنتی جا رھی ھے۔

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      @@altasdeeqaat تضاد میری باتوں میں نہیں ھے،آپ کی مکفرانہ سمجھ کا قصور ھے۔اسلام آپ کی ذاتی جاگیر بھی نہیں ھے۔ یہ اللہ اور اللہ کے رسول کا دین ھے۔ جب اللہ کے رسول نے صاف بتا دیا ہوا ھے کہ مھدی اور عیسٰی دو الگ وجود نہیں ھیں تو آپ حضور کی بات نہ مان کر حضور کی اطاعت سے باھر جاچکے ھو۔ آپ جیسے نافرمان پر افسوس ھی کیا جا سکتا ھے

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      @@altasdeeqaat تقویٰ سے کام لو اورخلیفۃ اللہ المھدی کی احمدی جماعت میں شامل ھوجائو۔آپکو پتہ تو چل ھی چکا ھے کہ حضور ﷺ والا سچا اسلام احمدی مسلمانوں میں ھی پایا جاتا ھے۔

  • @waqarbnmushtaq657
    @waqarbnmushtaq657 26 дней назад

    خاتم النبیین مطلقاً ہے ۔۔ہر زمین آسمان کیلئے جاھل اگر تو حدیث سے دوسری زمینوں میں نبی مان رہا ہے تو قرآن سے خاتم النبیین ہونا بھی ثابت ہوگیا ہے ۔۔۔نانوتوی بھی گدھا تھا تو بھی گدھا ہے ۔۔۔۔

    • @mohammadillahi3990
      @mohammadillahi3990 20 дней назад

      اسلام علیکم میرا خیال آپ اور آپ کے والد محترم کے بارے میں بارے میں بھی یہی ہے

  • @muhaq755
    @muhaq755 Год назад +1

    ایک خاتون نے اپنی آپ بیتی کاواقعہ یوں بیان کیا ھے:
    "میرا تعلق اھل تشیع کے ایک ایسے خاندان سے ھے جو کٹڑ شیعہ ھیں۔پورا خاندان شیعہ ذاکروں سے بھرا ہوا ھے۔میری شادی لاھور میں ھوئی۔ھمارے سامنے کا گھر احمدیوں کا تھا جو بہت اچھے لوگ تھے جن کے ساتھ ھمارے فیملی ٹرمز بنے ھوئے تھے۔ان کی طرف ھمارا آنا جانا رھتا تھا۔اور ھر موضوع پر گپ شپ بھی ہوا کرتی تھی۔ احمدی مسلک کے اعتقادات بھی بات ہوا کرتی تھی۔
    سورہ المائدہ کی آیت ایک سو سترہ نے مجھ پر یہ بات واضح کردی تھی کہ حضرت عیسٰی فوت ھوچکے ھوئے ھیں۔ اس لئے فوت شدہ حضرت عیسٰی تو اب دنیا میں دوبارہ آ نہیں سکتے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عیسٰی علیہ السلام کے آنے کی پیشگوئی سے حضرت امام مھدی ھی مراد ھوسکتے ھیں۔
    جب میرے میاں کو پتہ چلا کہ میں حضرت عیسٰی کی وفات کی قائل ھو چکی ھوں تو وہ بہت پریشان ھوئے۔مجھ سے کہنے لگے یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے حضرت عیسٰی کی وفات کیسے مان لی ؟ اسپر میں نے کہا کہ میں قرآن کی اس آیت کا کیسے انکار کرسکتی ھوں ؟
    میرے میاں پریشان ھوکر مجھے میری بہن کے گھر لے گئے اور کہنے لگے کہ اپنی بہن کو سمجھائو کہیں یہ مرزائی نہ ھوجائے۔ یہ تو حضرت عیسٰی کی وفات کی قائل ھوگئی ھے۔
    میری بہن شیعہ ذاکرہ تھیں۔انہوں نے بہت سی کتابیں رکھی ھوئی تھیں۔
    میری بہن نے ان میں سے احمدیوں کے رد میں لکھی ھوئی ایک کتاب دی کہ یہ کتاب اسے پڑھائو۔ اسکا احمدیوں کی طرف رجحان ختم ھو جائے گا۔
    میں نے وہ کتاب پڑھنی شروع کردی۔
    احمدیوں کے خلاف اس کتاب میں پیر مہر علی شاہ کا یہ فقرہ لکھا ہوا تھا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوٰی کے وقت سورج اور چاند کو رمضان کے مہینے جو گرھن لگا تھا وہ ان تاریخوں کو نہیں لگا تھا جو حديث میں بتائی گئی تھیں۔
    پیر مہر علی شاہ کا یہ فقرہ میرے ذھن میں بیٹھ گیا اور میں سوچنے پر مجبور ھوگئی کہ وہ پیشگوئی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مھدی کی نشانی اور سچائی کے لئے بتائی ھوئی ھے۔اگر یہ نشانی مرزا غلام احمد قادیانی کے لئے پوری ھوچکی ھے تو یہ ایک آسمانی گواھی ھے۔
    مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوٰی کے وقت سورج کو اور چاند کو گرھن لگا اور وہ بھی رمضان کے مہینے میں۔ پیر مہر علی شاہ خود لکھ رھے ھیں کہ یہ دونوں گرھن رمضان کے مہینے میں لگے۔ جس نے اس کے باوجود نہیں ماننا وہ کوئی نہ کوئی عذر اور بہانہ تو بنا ھی لے گا کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ھوئی۔
    میں سوچنے پر مجبور ھوگئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کسی جھوٹے پر پوری نہیں ھوسکتی۔اس لئے اس نشانی اور آسمانی گواھی کو ھرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔اس نشانی سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی سچے ثابت ھوتے ھیں۔ اس لئے میں اس آسمانی گواھی کو جھٹلا نہیں سکتی۔ چنانچہ دل ھی دل میں مرزا غلام احمد قادیانی کی صداقت کو تسلیم کرنے کے سوا میرے لئے کوئی چارہ نہ تھا۔
    اس وقت میری عجیب حالت تھی۔ایک طرف یہ خیال آتا تھا کہ میں جو ایک پکی شیعہ خود کو ھدایت پر یقین کرنے والی ھوں کیا میں اس سے پہلے گمراھی پر تھی ؟
    سخت پریشانی کی حالت میں تھی اور زاروقطار رو رھی تھی اور ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھی کر رھی تھی۔ قرآن پاک میرے سامنے پڑا تھا۔ میں نے قرآن پاک اٹھا لیا اور عرض کی کہ اے اللہ یہ تیری ھدایت کی کتاب ھے۔ علمی طور پر تو مجھے پتہ چل چکا ھے کہ احمدی مسلک سچا ھے لیکن تیری اس ھدایت کی کتاب کے ذریعے میں تجھ سے راھنمائی اور تیری ھدایت کا نشان مانگتی ھوں۔ مجھے تیرے قرآن کے ذریعے تیری تصدیق چاھیئے۔ مجھے بتا کہ کیا احمدی واقعی سچے ھیں؟
    اور پھر میں نے آنکھیں بند کرکے قرآن پاک کو کھولا۔ تو جو آیت میرے سامنے کھلی اس کا ترجمہ یہ تھا:
    انہی لوگوں میں سے ایک شخص تھا جس کی طرف ھم نے وحی بھیجی تھی کہ لوگوں کو اللہ سے ڈرائو اور جنت کی خوشخبری دےدو۔
    قرآن مجید کے ذریعے اللہ تعالٰی کی اس راھنمائی کو پڑھ کر میرا دل اطمینان سے بھر گیا کہ میرا جو سوال تھا اللہ نے مجھے اس کا جواب قرآن سے دے دیا ھے اور احمدیت کی صداقت پر اپنا کھلا نشان عطا کر دیا ھے۔اس لئے اب مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور یوں میں نے احمدیت کی صداقت کو دل کی گہرائی سے اور پورے یقین اور ایمان کے ساتھ قبول کر لیا۔
    اس کے بعد ان کے ساتھ کیا بیتی اس کا ذکر دوسری قسط میں۔
    یہ باتیں ایک شیعہ خاتون نے یوٹیوب کی ویڈیو آئینہ اسلام میں بیان کی ھیں۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      مرزا قادیانی کا اصرار ہے کہ توفی کا معنیٰ پورے قرآن شریف میں روح کو قبض کرنے اور جسم کو بے کار چھوڑ دینے کے ہیں۔
      ۲۔ مثال کے طور پر اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے قرآن کی چند آیات پیش کی ہیں کہ ان میں توفی کا معنیٰ موت ہی ہے اور بتانا یہ چاہتے ہیں کہ جب ان آیات قرآنیہ میں توفی سے معنیٰ موت ہے تو ایسے ہی قرآن میں جہاں کہیں بھی توفی کا لفظ ہو تو وہاں معنیٰ موت ہی ہو گا۔
      ۳۔ اس جگہ توفیتنی کا معنی رفعتنی (تو نے مجھے اُٹھا لیا) کرنا الحاد اور تحریف ہے۔
      ۴۔ فلما توفیتنی (جو ماضی کا صیغہ ہے) سے پہلے جو آیت ہے اذ قال اللّٰہ یعیسیٰ اس میں بھی’’ قال‘‘ ماضی کا صیغہ ہے اور پھر اس جگہ قال کے شروع میں لفظ اذ موجود ہے جو ماضی کے لیے خاص ہے جس سے واضح ہے کہ فلما توفیتنیکے نزول کے وقت یہ ماضی کا قصہ تھا۔
      جواب شق نمبر۱: کیا توفی کا معنیٰ پورے قرآن شریف میں روح کو قبض کرنے اور جسم کو بے کار چھوڑنے کے ہیں اس پر ہم تفصیل کے ساتھ وفات مسیح پر مرزا قادیانی کی پیش کردہ پہلی آیت کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
      جواب شق نمبر ۲:جو آیات مرزا قادیانی نے پیش کر کے باور کروایا ہے کہ ان آیات میں توفی کے موت معنیٰ ہیں لہٰذا باقی جہاں کہیں قرآن میں لفظ توفی ہو گا وہاں بھی معنیٰ موت ہی ہوں گے یہ ان کی جہالت اور کج روی کا ثبوت ہے مرزا قادیانی کی طرف سے پیش کردہ آیات میں تو واضح طور پر توفی کا معنیٰ موت کرنے کے قرائن موجود ہیں اس سے دوسرے معنیٰ کی نفی کرنا کیسے درست مانا جا سکتا ہے۔
      جواب شق ۳: مرزا قادیانی کا کہنا کہ’’ فلما توفیتنیکا معنیٰ رفعتنی کرنا الحاد و تحریف ہے‘‘ یہ اُن کی جہالت کی دلیل ہے۔ جبکہ بڑے بڑے علماء مفسرین نے یہی معنیٰ کیا ہے چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
      فلما توفیتنی یعنی قبضتنی ورفعتنی الیک۔(تفسیر مظہری)
      توفیتنی قبضتنی الیک بالرفع۔(تفسیر بحر المحیط)
      فلما توفیتنی ای رفعتنی الی السماء۔(تفسیر نظم الدرر فی تناسب الآیات والسور)
      فلما توفیتنی رفعتنی من بینہم۔(تفسیر ابن عباس)
      فلما توفیتنی ای قبضتنی بالرفع الی السماء۔(تفسیر روح المعانی)
      فلما توفیتنی فالمراد منہ وفاۃ الرفع الی السماء۔(تفسیر کبیر)
      اس کے علاوہ بھی اگر آپ سابقہ مفسرین مرحومین کے تفاسیر کا مطالعہ کریں تو آپ کو اسی معنی کی تائید ملے گی۔
      مذکورہ مفسرین میں اُمت کے سب سے بڑے مفسر سیدنا ابن عباس کی تفسیر ابن عباس میں بھی یہی مرقوم ہے تو کون ہے جو ابن عباس رضی اﷲ عنہ کے مخالف خیال رکھے۔ ان حضرات کو ملحد ومحرف کہنا اپنے آپ کو ملحد و محرف بنانا ہے۔
      👇

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      جواب شق ۴: (الف) فلما توفیتنی صیغہ ماضی کا ہے اور اس آیت کے شروع میں لفظ اذ ہے جو ماضی کے لیے خاص ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ فلما توفیتنیکے نزول کے وقت یہ ماضی کا قصہ تھا۔
      جناب بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ تو نبی و رسول کا ہے مگر علمی کمال یہ ہے کہ آنجہانی کو آیت کے سیاق و سباق کا بھی پتہ نہیں۔ حالانکہ واضح طور پر یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ اس آیت کا سیاق و سباق خود بتلا رہا ہے کہ اس آیت کا تعلق قیامت کے دن سے ہی ہے اور یہ سارا واقعہ یوم یجمع اللّٰہ الرسل فیقول ما ذا اجبتم قالوا لا علم لنا(مائدہ: ۱۰۹) سے شروع ہو کر قال اللّٰہ ہٰذا یوم ینفع اللّٰہ الصادقین صدقہم(۱۱۹) پر مکمل ہو رہا ہے۔ جس طرح یوم یجمع اللّٰہ الرسل کا تعلق بھی قیامت کے دن سے ہے۔ ایسے ہی واضح طورپر یہ بات سامنے آئی کہ فلما تو فیتنی کا قول بھی حضرت مسیح علیہ السلام کا قیامت کے دن ہوگا۔ باقی رہی یہ بات کہ تو فیتنی اور اذ قال اﷲ یعیسیٰ ماضی کے صیغے میں اور معنیٰ مستقبل کیوں کیے جائیں تو ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے۔ علم بلاغت کا یہ اصول ہے کہ جو امر یقین الوقوع ہو۔ اس کو ماضی کے صیغہ سے ذکر کردیا جاتاہے تاکہ اس کا قطعی ہونا واضح ہوجائے جس کی قرآن مجید میں کئی مثالیں موجود ہیں:
      ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الی ربھم ینسلون۔(یٰسین: ۵۱)
      ولو تریٰ اذ وقفوا علی النار فقالوا یلیتنا نرد ولانکذب بآیات ربنا و نکون من المومنین۔(انعام:۲۷)
      ولو تریٰ اذا وقفو علی ربھم الیس ہذا بالحق قالو بلیٰ و ربنا(انعام: ۳۰)
      ولو تریٰ اذا المجرمون ناکسوا راؤسھم عند ربھم۔(سجدہ: ۱۲) ولو تریٰ اذ فزعوافلات فوت و اخذوا من مکان قریب و قالو آمنا بہ (سباء: ۵۱)
      مذکورہ پیش کردہ آیات میں سے پہلی آیت کا تعلق قیامت کے برپا ہونے سے ہے اور باقی آیات کا قیامت کے دن پیش آنے والے واقعات سے ہے۔ مگر ان آیات میں مضارع کے بجائی ماضی کے صیغے ذکر ہوئے ہیں باقی رہا لفظ ’’اذ‘‘ کہ وہ ماضی کے لیے خاص ہے اور پھر اس پر مرزا قادیانی کی ضد یہ بھی مرزا قادیانی کی جہالت کا بیّن ثبوت ہے شاید کسی جگہ اتنا ہی لکھا دیکھ لیا ہو گا او روہی لکھ دیا جب کہ نحو کی کتب میں جہاں تفصیلات موجود ہیں وہاں علماء نحو نے یوں تحریر کیا ہے اذ الکائۃ للماضی……قد تجیٔ للمستقبل۔(لفظ) اذ ماضی کے لیے ہے مگر کبھی کبھی مستقبل کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اذ الأغلال فی أعناقہم والسلاسل یسحبون۔(شرح جامی، بحث اسماء ظروف)
      👇

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      (الف) مرزا قادیانی خود بھی ایک جگہ ہمارے اس موقف کی تائید کر رہے ہیں لکھتے ہیں:
      ’’جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہو گی وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو مضارع کو ماضی پر لاتے ہیں تاکہ اس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو اور قرآن مجید میں اس کی بہت سی نظیریں ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
      ’’ونفخ فی الصور فاذاہم من الاجداث الیٰ ربہم ینسلون۔‘‘ اور جیسا کہ فرماتا ہے: ’’اذ قال اللّٰہ یعیسیٰ ابن مریم اَ ءَ نت قلت للناس اتخذونی وامی الٰہین من دون اللّٰہ۔قال اللّٰہ ہٰذا یوم ینفع الصادقین صدقہم۔
      ترجمہ: بلاشبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ جواب یعنی ’’فلما توفّیتنی‘‘یو م حساب کو دیں گے جس دن مخلوق کو اُٹھایا جائے گا اور وہ حاضر ہوں گے۔
      (روحانی خزائن، جلد: ۲۱، ص: ۱۵۹)
      (ب) نیز مرزا قادیانی لکھتے ہیں ان عیسیٰ یجیب بہذا الجواب یوم الحساب یعنی فلما توفیتنی فی یوم یبعث الخلق و یحضرون۔(روحانی خزائن، جلد: ۲۲، ص: ۶۶۵)
      قارئین محترم: مرزا قادیانی کے ان مذکورہ دونوں حوالوں سے مرزا قادیانی کے اٹھائے ہوئے شبہات ان کے اپنے ہاتھوں چکنا چور ہو رہے ہیں

  • @muhaq755
    @muhaq755 Год назад

    آپ لوگ بزدلی چھوڑ دو اور نر مردوں کی طرح ڈٹ کر گواھی دو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہ ھے کہ آنیوالے عیسٰی علیہ السلام کا مرتبہ نبی اللہ کا مرتبہ ھوگا اور آنیوالے مھدی علیہ السلام کا مرتبہ خلیفتہ اللہ کا مرتبہ ھوگا۔
    لہٰذا آپ لوگوں کو یہ گواھی ڈٹ کر دینی چاھیئے کہ عیسٰی نبی اللہ اور مھدی خلیفتہ اللہ کے آنے سے آیت خاتم النبیین پر کوئی زد نہیں پڑتی۔اور ڈنکے کی چوٹ پر یہ گواھی بھی آپ لوگوں کو دینی چاھیئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اللہ تعالٰی عیسٰی نبی اللہ کو وحی کرے گا۔
    پیر مہر علی شاہ گولڑوی ابتداءً حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں حُسن ظنی اور عقیدت کے جذبات رکھتے تھے۔چنانچہ پیر مہر علی صاحب کے ایک مرید بابو فیروز علی صاحب اسٹیشن ماسٹر گولڑہ نے (جو بعد میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے بارہ میں دریافت کیا تو پیر مہر علی شاہ صاحب نے بلاتامل جواب دیا تھا کہ
    ‘‘امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ بعض مقامات منازل سلوک میں ایسے ہیں کہ وہاں اکثر بندگان خدا پہنچ کر مسیح اور مہدی بن جاتے ہیں ۔بعض ان کے ہم رنگ ہوجاتے ہیں۔یہ مَیں نہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ شخص(یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) منازل سلوک میں اس مقام پر ہے یا حقیقتاً وہی مہدی ہے۔جس کا وعدہ جناب سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس امت سے کیا ہے۔ مذاہب باطلہ کے واسطے یہ شخص(یعنی مرزا غلام احمد قادیانی) شمشیر براں کا کام کر رہا ہے اور یقینا ًتائید یافتہ ہے’’
    (الحکم 24؍جون 1904ء صفحہ5کالم )
    جاوید احمدغامدی صاحب کے پاس ایک صاحب آئے تھے کہ آپ بھی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو ختم نبوت کا منکر قرار دو۔ غامدی صاحب نے انہیں جواب دیا کہ میں صرف مرزا صاحب کو سنگل آئوٹ کرکے ان کے خلاف فتوی میں شامل نہیں ھوسکتا۔ کیونکہ حضرت عائشہ رض سمیت امت کے بہت سے بزرگان اور صوفیاء کا ختم نبوت کا وھی عقیدہ ھے جو مرزا غلام احمد صاحب کا ھے۔
    امت کے بزرگوں کا اور صوفیاء کا عقیدہ یہ ھے کہ
    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آسکتا جو حضور کا امتی نہ ھو اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے تابع نہ ھو۔
    ختم نبوت کے متعلق آج کے مولوی جو عقیدہ رکھتے ھیں وہ اکثر بزرگان سلف کا عقیدہ نہیں تھا۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      جھوٹ بولتے ہوٸے شرم آنی چاہیے
      عقیدہ ختم نبوت اجماع سے ثابت ہے :
      امام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی رحمہ اللہ (م:505ھ) فرماتے ہیں:
      اِنَّ الْاُمَّۃَ فَہِمَتْ مِنْ ہٰذَااللَّفْظِ وَمِنْ قَرَائِنِ اَحْوَالِہٖ اَنَّہٗ اَفْہَمَ عَدْمَ نَبِیٍّ بَعْدَہٗ اَبَدًا… وَاَنَّہٗ لَیْسَ فِیْہِ تَاْوِیْلٌ وَلَاتَخْصِیْصٌ فَمُنْکِرُ ہٰذَا لَا یَکُوْنُ اِلَّامُنْکِرَالْاِجْمَاعِ
      الاقتصادفی الاعتقاد: ص123
      ترجمہ: امت کے تمام اہل اسلام نےقرآن میں مذکور لفظ(خاتم النبیین) سے یہی عقیدہ سمجھا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نیا نبی ہوگا اور نہ ہی کوئی نیا رسول ہوگا اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل وتخصیص نہیں لہٰذا اس کامنکر اجماع کامنکرہوگا۔
      فائدہ: یہاں تاویل و تخصیص والی بات کا مطلب یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیین کا کوئی اور معنی مراد نہیں لیا جا سکتا ہے۔
      امام ابوالفضل عیاض بن موسیٰ مالکی رحمہ اللہ (م:544ھ) فرماتے ہیں:
      لِاَنَّہُ اَخْبَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنَّہ خاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَانَبِیَّ بَعْدَہُ وَاَخْبَرَ عَنِ اللہِ تَعَالٰی اَنَّہ خاتَم النَّبِیِّیْنَ وَاَنَّہُ اُرْسِلَ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ واَجْمعتِ الاُمَّۃُ علٰیٰ حَمْلِ ھٰذَالْکَلَامِ عَلٰی ظَاہِرِہ واَنَّہُ مَفْہُوْمہُ الْمُرَاد بہ دُونَ تَاوِیل وَلَا تَخْصِیْص فَلَا شَکَّ فِی کُفْرِ ھٰؤُلاء الطَّوَائِفِ کُلِّہَا قَطْعًا اِجْمَاعاً وَسَمْعاً.
      الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ، فصل فی بیان ماھو من المقالات کفر
      ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے یہ فرمایا ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا ۔ اور اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں اور یہ کہ آپ کو تمام انسانیت کا نبی بناکر بھیجا گیا اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ اس کلام سے جو ظاہری معنی سمجھ میں آ رہا ہے وہی مراد ہےاس کے علاوہ کوئی اور معنی مراد لینے کی قطعاً گنجائش نہیں ۔ اس لیے جو شخص اس )عقیدہ ختم نبوت ( کا انکار کرے اس کے کافر ہونےمیں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں اور یہ قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے ۔
      امام احمد بن محمد ابن حجر مکی رحمہ اللہ )م:974ھ (فرماتے ہیں :
      مَنِ اعْتَقَدَ وَحْيًا مِنْ بَعْدِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ كَافِرًا بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِيْنَ۔
      الفتاوی الفقھیۃ الکبریٰ، کتاب الانتباہ لتحقیق عویص مسائل الاکراہ
      ترجمہ: جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور نئے نبی پہ وحی آتی ہے اس کے کافر ہونے پر اجماع ہے یعنی امت محمدیہ کے تمام مسلمان متفق اور متحد ہیں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ۔
      امام نور الدین ملاعلی قاری رحمہ اللہ)م:1014ھ ( فرماتے ہیں :
      دَعْوَی النُّبُوَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُفْرٌ بِالْاِجْمَاعِ۔
      شرح الفقہ الاکبر، ص: 202
      ترجمہ: ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرنا کفر ہے اس بات پر اجماع ہے یعنی امت محمدیہ کے تمام مسلمان متفق اور متحد ہیں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ۔
      مفتی بغدادابوالثنا ء شہاب الدین سید محمود بن عبداللہ آلوسی )م: 1270ھ) فرماتے ہیں :
      وَكَوْنُهُ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ مِمَّا نَطَقَ بِهِ الْكِتَابُ وَصَدَعَتْ بِهِ السُّنَّةُ وَأَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ فَيُكَفَّرُ مُدَّعِي خِلَافَهُ وَيُقْتَلُ اِنْ أَصَرَّ۔
      تفسیر روح المعانی آیت ماکان محمد ابااحد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین
      ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ”خاتم النّبیین“ ہونا ان عقائد میں سے ہے جس پر قرآن وسنت کے واضح دلائل موجود ہیں اورپوری امت کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پہ اجماع ہےیعنی امت محمدیہ کے تمام مسلمان متفق اور متحد ہیں کسی ایک کا بھی اختلاف نہیں ۔ جو شخص اس عقیدہ کا منکر ہو تو وہ کافر ہےایساشخص اگر توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      پیر مہر علی شاہ رحمہ اللہ کے بارے میں جناب کا جھوٹ👇
      مشائخِ پنجاب میں سے تاجدار ِ گولڑہ حضرت پیر مہر علی شاہ ؒ نے سب سے پہلے قادیان کے جھوٹے نبی کے دجل و فریب کی دھجیاں اُڑائیں۔ پیر صاحبؒ 1890ء میں جب حج کے لیے حرمین شریفین تشریف لے گئے اور زندگی کے باقی دن مدینۃ النبیﷺمیں بسر کرنے کا فیصلہ کیا توسیدُ الطائفہ حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒ نے آپ سے فرمایا: ’’آپ کے ہاں ایک بہت بڑا فتنہ ظاہر ہونے والا ہے ۔ اس کا سدِ باب آپ کی ذات سے متعلق ہے ۔ آپ وہاں خاموش بھی بیٹھے رہے تو بھی ملک کے علماء اس فتنے کی زد سے محفوظ رہیں گے اور عامۃُ المسلمین اس کی دستبرد سے بچ جائیں گے ۔‘‘ تاجدار گولڑہؒ اور مرزا قادیانی کے مابین پہلا ٹاکرا تب ہوا، جب مرزا قادیانی نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس دعوے کے جواب میں پیر صاحبؒ نے ’’شمس الہدایہ فی اثباتِ حیات المسیح‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر مرزا قادیانی کے دعویٔ مسیحیت کے تاروپود بکھیر دیے۔ اس کتاب کو جہاں علماء کے حلقوں میں بے حد پذیرائی حاصل ہوئی، وہیں مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار تلملا اٹھے ۔ چنانچہ 22 جولائی 1900ء کو قادیان کے مڈل فیل جعلی نبی نے جواباً ایک انتہائی گستاخانہ مضمون پر مبنی اشتہار کے ذریعے تاجدارِ گولڑہ کو عربی تفسیر نویسی کا چیلنج کیا۔ پیر صاحبؒ نے جوابی اشتہار میں 22 اگست کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے لاہور میں مرزا قادیانی سے نہ صرف تحریری بلکہ تقریری مباحثے کا چیلنج بھی قبول کر لیا۔ آپ کی سوانح ’’مہر منیر‘‘ کے مطابق 22 اگست 1900ء کو آپ پچاس علماء کے ہمراہ لاہور تشریف لائے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جب مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر تاجدار گولڑہ کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے تھے ۔ مباحثے کے لیے بادشاہی مسجد کا انتخاب کیا گیا، لیکن مرزا قادیانی عین موقع پر یہ کہہ کر میدان سے فرار ہو گیا کہ مولویوں نے مجھے دعویٔ نبوت میں جھوٹا ثابت کرکے قتل کرانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔
      کچھ دن گزرے تو قادیانی جماعت کے ایک وفد نے حضرت تاجدار گولڑہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں یہ کہہ کر مرزا قادیانی سے مباہلے کی دعوت دی کہ ایک اندھے اور لنگڑے کے حق میں مرزا اور دوسرے اندھے اور لنگڑے کے حق میں پیر صاحب دعا کریں۔ جس کی دعا سے اندھا اور لنگڑا صحت یاب ہو جائیں، وہ سچا ہو گا۔ قادیانی وفد کی بات سنتے ہی تاجدار گولڑہ نے فرمایا: ‘‘اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو آجاؤ’’ اور اس کے بعد قادیانی جماعت کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ کچھ وقت گزرا تو پیر صاحبؒ نے آخری ضرب لگاتے ہوئے مرزا کو دو چیلنج کیے ۔ اول یہ کہ آؤ ہم دونوں ایک کاغذ پر اپنا اپنا قلم چھوڑتے ہیں۔ جس کا قلم سچا ہو گا، وہ خود بخود چلتے ہوئے تفسیر قرآن لکھ دے گا۔ دوم یہ کہ آؤ ہم دونوں بادشاہی مسجد کے مینار پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہیں۔ جو سچا ہو گا، وہ بچ جائے گا اور جو جھوٹا ہو گا، مر جائے گا۔ پیر صاحب کے ان دونوں روحانی چیلنجز نے مرزا کے اوسان خطا کر دیئے ۔ اب اس کاذب نبی نے اپنا آخری حربہ آزماتے ہوئے اعلان کیا کہ پیر صاحب اس کی زندگی میں ہی دنیا سے رخصت ہو جائیں گے لیکن اس اعلان کے کچھ عرصے بعد ہی مرزا قادیانی 26 مئی 1908ء کو لاہور میں ہیضے کے مرض میں مبتلا ہو کر عین بیت الخلا کے اندر دم توڑ گیا، جبکہ تاجدار گولڑہ نے اس کی موت کے 29 برس بعد 11 مئی 1937ء کو وصال فرمایا۔

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      @@altasdeeqaat ختم نبوت کو امت کا اجماعی عقیدہ قرار دینے کا آپ کا دعوٰی بالکل جھوٹا دعوٰی ھے۔ آپکے اس جھوٹے دعوی کی دھجیاں درج ذیل گواھیوں نے بکھیر کر رکھ دی ھیں۔آپ لوگوں کو صاف صاف بتانا پڑے گا کہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرھندی درج ذیل عقیدہ رکھنے کی وجہ سے نعوذ باللہ آپ لوگوں کے بقول "ختم نبوت کے ڈاکو" ھیں یا نہیں؟؟؟
      حضرت مجدد الف ثانی کا عقیدہ یہ تھا کہ
      "خاتم الرسل حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد آپ کے متبعین کا آپ کی پیروی اور وراثت کے طور پر کمالات نبوت کا حاصل کرنا آپ کے خاتم الرسل ھونے کے منافی نہیں ھے۔ لہٰذا اے مخاطب تو شک کرنے والوں میں سے نہ ھو "
      (از مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی)
      اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔خاتم ان معنوں میں کہ آپ کی شریعت آخری ھے اور قیامت تک منسوخ نہیں ھوسکتی۔ مگر غیر تشریعی اور تابع محمدی اور امتی نبوت کا امکان ختم نہیں ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت اور آپ ھی کے فیض سے جاری ھو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق اس پر ثبت ھو۔
      چھٹی صدی ھجری کے ممتاز مفسر اور پیشوائے طریقت حضرت محی الدین ابن عربی کا عقیدہ ختم نبوت یہ تھا
      "ھم نے (درودشریف سے) قطعی طور پر جان لیا ھے کہ اس امت میں ایسے اشخاص بھی ھیں جن کا درجہ اللہ تعالٰی کے نزدیک نبوت میں انبیاء سے مل گیا ھے مگر وہ شریعت لانے والے نہیں ہیں"(فتوحات مکیہ جلد اول صفحہ 545)
      حضرت محی الدین ابن عربی نے یہ بھی فرمایاہواھے کہ:
      " نبوت مخلوق میں قیامت کے دن تک جاری ھے گو تشریعی نبوت منقطع ھوگئی ھے۔پس شریعت نبوت کے اجزا میں سے ایک جزو ھے" (فتوحات مکیہ جلد دوم صفحہ 100باب73)(82)
      بارھویں صدی کے مجدد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اپنی کتاب تفہیمات الہیہ ص53 میں تحریر فرماتے ھیں۔
      ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ھونے کا یہ مطلب ھے کہ اب کوئی ایسا شخص نہیں ھوگا جسے لوگوں کے لئے نئی شریعت دے کر مامور کیا جائے۔یعنی شریعت جدیدہ لانے والا کوئی نبی نہ ھو گا۔
      مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب تحریر فرماتے ھیں:
      اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ھو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
      (تحذیرالناس ص8)
      اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اگرچہ حضرت مولانا صاحب کا ذاتی عقیدہ یہ تھا کہ کوئی نیا نبی پیدا نہیں ھوگا بلکہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ھی تشریف لائیں گے لیکن یہ عقیدہ اس بناء پر نہیں تھا کہ آپ کے نزدیک نئے نبی کا پیدا ھونا خاتمیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ھے۔
      ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رض (معلمہ نصف الدین) فرماتی ھیں:
      ترجمہ: اے لوگو یہ تو کہا کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ھوگا" (درمنثور جلد 5 ص204)
      حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
      اللہ تعالٰی نے آل ابراہیم میں رسول، انبیاء اور امام بنائے لیکن عجیب بات ھے کہ لوگ نبوت و امامت کی نعمتوں کا وجود آل ابراہیم میں تو تسلیم کرتے ہیں لیکن آل محمد میں ان کے وجود سے انکار کرتے ہیں۔
      (الصافی شرح اصولکافی جزو سوم ص119)
      حضرت امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں۔
      جان لو مطلق نبوت نہیں اٹھی۔صرف شریعت والی نبوت مقطع ھوئی ھے۔
      (الیواقیت و الجواھر
      الشیخ عبدالقادر الکردستانی تحریر فرماتے ھیں:
      آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ھونے کے یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نئی شریعت لیکر مبعوث نہ ھو گا۔
      (تقریب المرام جلد2 ص 233)
      لہٰذا آپ صاف صاف بتائو کہ کیا یہ سارے بزرگ نعوذباللہ ختم نبوت کے ڈاکو تھے۔ ھرگز نہیں بلکہ تم لوگ ختم نبوت کے ڈاکو ھو۔

  • @muhaq755
    @muhaq755 Год назад

    بعض لوگ یہ غلطی کر رھے ھیں کہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر پرانا بنی اسرائیلی نبی آجائے تو کوئی حرج نہیں، اللہ تعالٰی اگر حضور کے کسی امتی کو خلیفتہ اللہ المھدی اور مسیح بنا کر بھیج دے تو یہ منظور نہیں۔ بنیادی بات نئے یا پرانے نبی کے آنے کی نہیں ھے۔ اصل بات یہ ھے کہ کیا آپ یہ اعتقاد رکھتے ھو کہ حضور کے بعد سب سے آخر میں دنیا جس نبی کو اپنے درمیان پائے گی وہ بنی اسرائیل کے دوھزار تیئیس سال پہلے والے نبی حضرت عیسٰی علیہ السلام ھوں گے ؟
    کیا آپ کا یہ اعتقاد ھے کہ پرانا نبی آجائے تو کوئی حرج نہیں، حضور کی امت میں سے اللہ تعالٰی حضور کی شریعت کے تابع کسی امتی کو خلیفتہ اللہ المھدی بنا کر بھیج دے، یہ آپ لوگوں کو منظور نہیں؟ گویا آپ اللہ تعالٰی کو یہ کہہ رھے ھو کہ کسی کو مھدی اور مسیح بنا کر بھیجنا اے اللہ آپ کا اختیار نہیں۔اے اللہ پہلے آپ کو ھم سے پتہ کرنا پڑے گا کہ حدیث کے مطابق آپ ایسا کر بھی سکتے ھو یا نہیں؟ ھم سے تصدیق کرائے بغیر اے اللہ ھم آپ کو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔
    ایسی بچگانہ باتیں چھوڑ دو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے آگے اپنا سر جھکا دو۔
    اگر خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی کی ضرورت ھی نہیں تھی
    تو پھر پرانے نبی کی بھی ضرورت نہیں ھونی چاھیئے تھی۔ اس لئے اپنے ذاتی خیالات کو چھوڑ دو اور حضور کی فرمائی ھوئی باتوں کو فورا مان جائو۔
    آپ لوگوں کو اس پہلو پر بھی غور کرنا پڑے گا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام جب دوھزار تیئیس سال پہلے آئے تھے اسوقت تو ختم نبوت کا کوئی مسئلہ یا جھگڑا نہیں پایا جاتا تھا۔ تو پھر لوگوں نے حضرت عیسٰی کو ماننے سے انکار کیوں کردیا تھا ؟
    اصل سمجھنے والی بات یہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں صاف بتا دیا ہوا ھے کہ میں نے جب بھی اپنے مرسل دنیا میں بھجوائے تو لوگوں نے انہیں ماننے سے انکار کیا اور ان کا مذاق اڑایا۔
    آپ بھی مسیح محمدی اور خلیفتہ اللہ المھدی جن کے حق میں اللہ تعالٰی نے رمضان کے مہینے میں چاند اور سورج کو گرہن لگنے کا آسمانی نشان ساری دنیا کو دکھایا تھا، ان کا انکار کرکے آپ لوگ اللہ تعالٰی کی فرمائی ھوئی اس بات کو سچا ثابت کر رھے ھو کہ
    یا حسرت علی العباد ما یاتیھم من رسول الا کانوا بہ یستھزئون
    آپ لوگ اللہ کے بھجوانے ھوئے مسیح و مھدی کا انکار کرکے اس کے وبال اور نقصان سے بچ نہیں سکے اور نہ آئندہ بچ سکو گےاور جو کمائیاں پہلے منکرین نے کی تھیں آپ لوگ بھی وہی کمائیاں کر رھے ھو۔مولانا حالی امت کی زبوں حالی کا حقیقت پر مبنی نقشہ مسدس حالی میں بڑی وضاحت سے کھینچ چکے ھیں۔
    آپ لوگ اللہ کے بھیجے ھوئے مسیح و مھدی جس کے حق میں اللہ تعالٰی نے ساری دنیا کو رمضان کےمہینےمیں چاند اور سورج کو گرہن لگنے کا آسمانی نشان دکھایا تھا اس کے انکار پر بضد رھنا چاھتے تو پھر اپنے اس فیصلے کے نتائج بھی بھگتتے چلے جائو۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      امتی نبی اور مرزا کا دھوکا
      مرزا نے نبوت کا دعویٰ کرنے اور اس کے لیے اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک نئی اصطلاح ’’امتی نبی‘‘ متعارف کرائی۔مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس وقت مسلمانوں کے درمیان نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے معاملے میں کسی قسم کا کوئی تنازعہ،شک یا کسی قسم کی کوئی الجھن نہیں پائی جاتی تھی۔مرزا اچھی طرح جانتا تھا کہ نبی ہونے کا دعوی کرنا ناممکن ہے۔ لہذا اس نے پہلے ختم نبوت کی حمایت میں مضبوط دلائل پیش لیے۔مثلاً کہا کہ:
      ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا ‘‘۔ (کتاب البریہ صفحہ 220)
      مزیدلکھتا ہے:
      ’’ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا‘‘۔ (ازالہ اوہام ،صفحہ 411)
      لیکن پھر مرزا نے بار بار خود اس میں تضاد کیا اور اس کو رد کیا اور بقول مرزا کے جھوٹے کے بیان میں تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ دعویٰ کرتا ہیکہ جبرائیل میرے پاس وحی لے کر آیا۔
      ’’میں رسول کے ساتھ ہو کر جواب دوں گا اپنے ارادے کو کبھی چھوڑ بھی دوں گا اور کبھی ارادہ پورا کروں گا اور کہیں گے تجھے یہ مرتبہ کہاں سے حاصل ہوا۔ کہہ خدا ذوالعجائب ہے میرے پاس آیل آیا اور اس نے مجھے چن لیا۔‘‘(حقیقۃ الوحی صفحہ 106)
      اس کے حاشیہ میں لکھتا ہے کہ یہاں اﷲ نے جبرائیل کو آیل کہا کیونکہ وہ بار بار آتا ہے۔
      یہ بات بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ وہ بار بار آتا ہے اس لیے اس کا نام آیل ہے۔
      ’’خدا تعالی نے مکالمہ مخاطبہ کاملہ تامہ مطہرہ مقدسہ کا شرف ایسے بعض افراد کو دیا جو فنا فی الرسول کی حالت تک اتم درجے تک پہنچ گئے اور کوئی حجاب درمیان میں نہ رہا اور امتی ہونے کا مفہوم اور پیروی کے معنی اتم اور اکمل درجے پر ان میں پائے گئے ایسے طور پر کہ ان کا وجود اپنا وجود نہ رہا بلکہ ان کی محویت کے آئینے میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود منعکس ہوگیا اور دوسری طرف اتم اور اکمل طور پرمخاطبہ مکالمہ الٰہیہ نبیوں کی طرح ان کو نصیب ہوا پس اس طرح پر بعض افراد نے باوجود امتی ہونے کے نبی ہونے کا خطاب پایا۔‘‘(وصیت۔ صفحہ 17)
      مندرجہ بالا پیرا اس بات کی واضح مثال ہے کہ کس طرح اس نے لاعلم مسلمانوں کو جھوٹ اور دھوکے سے اپنے امتی نبی ہونے کا یقین دلایا کیونکہ اس نے اپنے آپ کو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی میں اتنا فنا کر لیا کہ نا صرف وہ امتی نبی بن گیا بلکہ اور دوسرے بھی محنت کرکے اس ذریعے سے امتی نبی بنے اور بن سکتے ہیں۔(نعوذباﷲ)
      اگر ایسا ممکن ہوتا تو کیا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت میں کوئی ایک فرد بھی ایسا موجود ہے جس نے یہ رتبہ یا درجہ پا لیا۔ قادیانی کوئی ایک بھی نام تو بتائیں جس کو یہ درجہ نصیب ہوا ہو؟ بلکہ مرزا غلام قادیانی کا تو کہنا ہے کہ:
      ’’اور یہ بات ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خدا نے مجھ سے مکالمہ مخاطبہ کیا ہے جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطا نہیں کی گئی اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا عطا نہیں کیا گیا پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لیے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں‘‘۔(حقیقۃ الوحی صفحہ 407)
      مرزا کے جھوٹے بیانات میں ایک اور تضاد ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے کہا کہ امتی نبی اور بھی گزرے ہیں اور مزید یہ راستہ کھلا ہے جو چاہے یہ درجہ پاسکتا ہے اور یہاں کہتا ہے کہ اس امت میں یہ درجہ پانے کے لیے صرف میں ہی مخصوص ہوں۔
      کیا مرزا قادیانی کی اندھی تقلید کرنے والے اپنی آنکھیں کھولیں گے اور اس کے دھوکے سے باز آئیں گے؟عقل والوں کے لیے ہدایت کے راستے کھلے ہیں۔

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      ختم نبوت کا کوئی جھگڑا نہیں۔حضور ﷺ نے فرمایا تھا میرے بعد مھدی آئیگا جو خلیفتہ اللہ ھوگا اور میرے بعد عیسٰی آئے گا جو نبی اللہ ھوگا۔احمدی مسلمانوں نے آنیوالے مھدی اور عیسٰی کو مان لیا۔جنہوں نے نہیں مانا وہ حضور ﷺ کے نافرمان نہیں ھیں تو پھر اور کیا ھیں؟

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      آپ کے محققین کے مطابق مھدی کے ظہور اور عیسٰی علیہ السلام کے نزول کے بارے میں شیعہ اور سنی احادیث کی مجموعی تعداد ایک ھزار سے بھی زیادہ ھے۔ان تمام احادیث میں جو باتیں بیان ھوئی ھیں ان میں حد سے زیادہ متنوع اور مختلف پہلو پائے جاتے ھیں۔ اگر آپ سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کرنا چاھتے ھو تو آپ کو خود اس میدان میں اترنا پڑے گا تب آپ کو ان مشکلات کا اندازہ ھوگا کہ ان احادیث کے مضامین میں پایا جانے والا اختلاف اور تنوع کتنا زیادہ وسیع ھے۔
      حدیث میں بیان ھونے والے امور کی مختلف علماء نے اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اتنی زیادہ مختلف تشریحات کی ھوئی ھیں کہ ایک عام آدمی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ھے کہ کس عالم کی بات مانے اور کس کو رد کرے۔
      صرف ایک مخصوص عالم کی بات کو حتمی سمجھنا اور حتمی قراردینا، ایک ناقص اور نامکمل موقف ھے۔
      میری رائے میں عیسٰی علیہ السلام کے نازل ھونے والی احادیث میں ان کا امامکم منکم اور فامکم منکم ھونا اور اماما مھدیا حکما عدلا ھونا بھی بتایا گیا تھا یعنی جس عیسٰی کے نزول کی بطور استعارہ خبر دی گئی تھی انہوں نے آسمان سے نازل نہیں ھونا تھا بلکہ امامکم منکم یعنی تم ھی میں سے تمہارا امام ھونا تھا۔
      "جتنے منہ اتنی باتیں" کے مصداق،
      علماء نے ان احادیث کے مطالب کو مسئلہ" فیثا غورث "بنا ڈالا ھے۔
      میرے نزدیک ایک ھزار سے زائد ان احادیث کا لب لباب یہ ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اللہ تعالٰی نے اپنے منتخب کردہ ایک وجود کو کھڑا کرنا تھا اور وحی اور الہام کے ذریعے اس کی راھنمائی کرنی تھی۔ مھدی اور عیسٰی دو القاب ھیں جنکی صفات اس وجود میں منعکس ھونی تھیں۔
      عیسٰی ان معنوں میں کہ اس وجود نے صلیب کے غلط عقیدہ کو دلائل سے غلط ثابت کرنا تھا اور پہلے والے عیسٰی کی طرح سابقہ شریعت کے تابع ھونا تھا اور اپنے سے پہلے نبی مقتدا کے بعد چودھویں صدی کے سر پر ظاھر ھونا تھا۔
      اس وجود کا انکار بھی بالکل اسی طرح کیا جانا تھا جس طرح پہلے عیسٰی کا انکار کیا گیا تھا۔
      عیسٰی اور مھدی کی صفات رکھنے والی اس شخصیت کے ماننے والوں کو غالب آنے میں دو سے تین صدیاں لگنی تھیں جس طرح عیسٰی اول کو غالب آنے میں لگی تھیں۔
      آپ کی مرضی آپ چاھیں تو میری اس تفہیم کو قبول کریں، چاھیں تو رد کردیں اور پھر امت موسی کے یہودیوں کی طرح صدیوں لمبا انتظار کرتے چلے جائیں۔
      جہانتک اس بات کا تعلق ھے کہ اللہ تعالٰی کی تقدیر اس طرح ان فولڈ ھوتی ھے یا نہیں جس طرح حضرت مسیح و مھدیء موعود علیہ نے اللہ سے پائی ھوئی خبروں کی روشنی میں انہیں بیان فرمایا ھے۔
      انسان کی عمر اتنی طویل تو ھوتی نہیں کہ وہ صدیوں طویل انتظار کر سکے۔اس لئے درخت کو اس کے پھلوں سے اور ان نشانوں سے پہچاننا ھوگا،جو ابتک ظاھر ھو چکے ھیں۔
      اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے ھر ملک میں پہنچانے کے اسباب پیدا کروں گا اور اسلام کو تین صدیاں مکمل ھونے سے پہلے ساری دنیا میں تمہارے ماننے والوں کے ذریعے غلبہ اور برتری اور عزت کا مقام عطا کردوں گا۔
      ماہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرھن لگنے کی نشانی بھی اللہ تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں پوری کردی ھوئی ھے اور ان کے ذریعے خلافت علی منہاج النبوت کا سلسلہ بھی کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ھے اور یہ بات بھی پوری ھوچکی ھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دنیا کے قریبا ھر ملک میں پہنچ چکی ھے اور دنیا کے ھر ملک میں ان کے ذریعے اسلام کو غالب کرنے اور عزت کے بلند ترین مقام پر لیجانے کی مہم جاری ھوچکی ھے۔اس لئے ھم اللہ تعالٰی کی بتائی ھوئی اس خبر پر اعتماد کے ساتھ یقین رکھتے ھیں کہ اللہ تعالٰی کی تقدیر اسلام کا عالمگیر غلبہ جماعت احمدیہ کے ذریعے ضرور کرکے دکھائے گی۔ ان شآء اللہ العزیز
      ان احادیث کے حوالے سے ایک اہم پہلو یہ بھی ھے کہ جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ گیارہ ستاروں نے اور چاند اور سورج نے حضرت یوسف کو سجدہ کیا ھے۔ اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کو دکھایا گیا تھا کہ انہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کیا ھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا تھا کہ حضورﷺ نے اپنے ھاتھوں میں سونے کے کنگن پہنے ھوئے ھیں،
      لیکن ان خوابوں کی تعبیر ایک بالکل مختلف شکل میں ظاہر ھوئی تھی۔ اسی طرح احادیث میں جو پیشگوئیاں ھیں وہ بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے خوابوں میں یا کشوف میں دکھائے ھوئے نظاروں پر مشتمل ھیں۔ اس لئے ان کے متعلق یہ سوچنا کہ یہ اسی شکل میں پوری ھوں گی جس شکل میں خواب اور کشوف میں دکھائی گئی ہیں، میرے نزدیک یہ سوچ درست نہیں ھے۔ اللہ کی طرف سے بتائی گئی باتوں کو پورا تو ضرور ھونا ھے لیکن اس شکل میں نہیں، بلکہ ان کی تعبیر کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے معین کردہ شکل میں پورا ھونا مقدر کیا گیا ھے۔
      من شآء فلیومن ومن شآء فلیکفر

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      مولانا صاحبان ، مفتی صاحبان اور پیر صاحبان
      صورتیں دو ھی ممکن تھیں۔یعنی آپ نے اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نظر سے دیکھا ھوتا تو(1)حضرت مسیح و مھدیء موعود علیہ السلام کو آپ لوگ قبول کرچکے ھوتے(2) یا دوسری صورت یہ ھوتی کہ ان کی جماعت ابتک نابود ھو کر مٹ چکی ھوتی۔
      خلیفتہ اللہ ھونے اور اللہ کی طرف سے مامور ھونے کے جھوٹے دعویدار کو نہ تو اتنی لمبی مہلت ملتی ھے اور نہ ھی اسکی جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل جایا کرتی ھے
      آپکے نامی گرامی اور چوٹی کے تمام علماء نے ایک سو چونتیس سال ھر طرح ایڑی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیا،اور اللہ کے روشن کئے ھوئے اس نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانے کے لئے ھر کوشش جو ممکن تھی، وہ کرکے دیکھ لی۔
      لیکن ان کی تمام کوششیں وہ نتیجہ حاصل نہ کر سکیں جس کی وہ توقع رکھتے تھے۔
      آپ کے علماء کی کوششوں کے برعکس اللہ تعالٰی نے اپنی جو جماعت قائم کی تھی، وہ جماعت حضرت خلیفتہ اللہ المھدی علیہ السلام کی پیشگوئی کے عین مطابق دنیا کے ھر ملک میں پھیل چکی ھے اور مزید پھیلتی چلی جا رھی ھے۔
      اس لئے آپ سے گزارش ھے کہ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں
      اور اللہ کی تقدیر سے لڑنا چھوڑ دیں۔آجتک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ کی تقدیر کو کوئی ناکام کر سکا ھو۔
      اس لئے بغیر کسی تعصب کے تسلیم کرلیں کہ ھاں یہ ھماری غلطی تھی کہ ھم اللہ کے قائم کردہ اس سلسلہ کو ابولہب اور ابوجہل والی نظر سے دیکھتے رھے۔
      اب ایک سو چونتیس سالوں کی ناکام کوششوں کے بعد ھم تسلیم کرتے ھیں کہ جماعت احمدیہ اگر حق پر نہ ھوتی اور مسیلمہ کذاب کی طرح ھوتی تو ابتک اس کا نام و نشان مٹ چکا ھوتا۔
      لہٰذا ھم کھلے دل سے تسلیم کرتے ھیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ھی وہ سچے امام مھدی ھیں اور عیسٰی نبی اللہ کے مصداق بھی ھیں جن کے آنے کی خوشخبری ھمارے آقا و مولا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دی تھی۔
      اور ھم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ھیں کہ مھدی کے ظہور
      اور عیسٰی علیہ السلام کے نزول
      کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث ھیں، ھم ان احادیث کا صحیح مفہوم اور ان میں مضمر صحیح پیغام کو سمجھنے سے اسی طرح قاصر رھے ھیں جس طرح موسی علیہ السلام کی امت کے علماء حضرت عیسٰی کو پہچاننے سے قاصر رھے تھے اور وہ اپنی مذھبی کتابوں کے حوالے دکھا دکھا کر حضرت عیسٰی علیہ السلام اور انکے ماننے والوں کے ساتھ بحثیں کیا کرتے تھے۔
      لہذا ھم سب اللہ سے اپنی ان سب علمی اور عملی غلطیوں کی معافی مانگتے ھیں۔
      اور توبہ کرتے ھوئے اس کے حضور جھکتے ھیں۔
      اللہ تعالٰی بہت معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ھے۔
      ھم عہد کرتے ھیں کہ اب ھم حضرت مسیح و مھدیء موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ھو کر اس کے ذریعے دنیا بھر میں غلبہء اسلام کے لئے کی جانے والی کوششوں کا حصہ بنیں گے اور اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ھر جھنڈے سے اونچا لہرانے کے لئے ان شآء اللہ اپنی جانیں لڑا دیں گے۔
      اللہ تعالٰی اسلام کو دیگر ادیان پر وہ غلبہ اور عزت کا بلند ترین مقام جلد عطا فرمادے جس کا وعدہ اللہ تعالٰی نے
      لیظھرہ علی الدین کلہ
      کے الفاظ میں کیا ہوا ھے اور یہ غلبہ حضرت خلیفتہ اللہ المھدی کے وقت میں ھونا مقدر کیا ہوا ھے۔
      اللہ تعالٰی اسلام کو جلد از جلد عالمگیر فتح مبین اور کامل غلبہ عطا فرمادے اور ھمارے آقا و مولا خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ھماری طرف سے ٹھنڈی کردے۔ آمین
      جناب مولوی صاحب محترم
      اللہ تعالٰی آپ کو اور باقی تمام مسالک کے علماء اور مشائخ کو حق کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
      ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکوننا من الخاسرین

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      اﷲ تعالیٰ نے انسانی ہدایت کے لیے انبیاء ورسل کا سلسلہ شروع کیا اور جن کو نبی یا رسول بنایا گیا وہ نفوس قدسیہ ہر اعتبار سے ممتاز تھے وہ انسان ہی تھے مگر ظاہری و باطنی طاقت و قوت، کردار و گفتار، احوال و واقعات ایسے کہ فرشتے بھی ان کے مقام کو نہ پہنچ سکے۔ ساری کائنات کے انسان اپنے تمام مراتب کے باوجود اکٹھے ہو جائیں تو بھی کسی ایک نبی و رسول کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے۔ پھر ان انبیاء و رسل میں یقینا باہمی مراتب ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں تِلْکَ الرُّسُلُ فُضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْض۔البقرہ ،۲۵۳( یہ پیغمبر، ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔) ہرنبی و رسول اپنی جگہ ایک شان و مقام رکھتا ہے اور اپنی شان میں ممتاز ہے۔ اس مقدس جماعت میں سے ایک عالی مرتبہ کے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں جو بنی اسرائیل کے آخری نبی و رسول تھے۔ جنہوں نے اپنی رسالت کے زمانہ میں یہ اعلان کیا اور خوش خبری دی کہ میرے بعد ایک نبی و رسول آنے والا ہے جس کا نام احمد ہے۔ وہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے آنے والے رسول ہیں، ہمارے آقا حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لیس بینی وبینہ نبی‘‘ کہ میرے اور عیسیٰ کے درمیا ن کوئی نبی و رسول نہیں ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے ایک خصوصی شان عطا فرمائی ہے کہ آپ باپ کے بغیر پیدا کیے گئے جس کا اﷲ کے آخری کلام میں پوری صراحت کے ساتھ ذکر ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: (جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ)
      جب فرشتے نے حضرت مریم سے کہا کہ اﷲ تجھے بیٹا عطا کرنے والے ہیں تو مریم نے کہا اَنّٰی یَکُونُ لِی غُلَامٌ وَ لَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا۔سورۃ مریم، آیت: ۲۰ (کیسے ہو گا میرا لڑکا حالانکہ نہ تو مجھے کسی بشر نے چھوا ہے نہ میں بدکردار ہوں) چونکہ آدم و حوّا کی تخلیق کے بعد سے قانونِ الٰہی ہے کہ اِنَّا خَلَقْنٰٰکُم مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثیٰ۔ سورۃ حجرات، آیت: ۱۳ (ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عور ت سے پیدا کیا) جس کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مریم نے فرمایا کہ مجھے کیسے بچہ ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں پھر یہ کہ میں بدکار بھی نہیں۔ مریم کے جواب میں پھر کہا گیا کہ کَذَالِکَ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَّلِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃَ لِّلنَّاسِ وَّرَحْمَۃَ مِّنَّا وَکَانَ اَمْراً مَّقْضِیَّا۔سورۃ مریم، آیت: ۲۱ (کہ تجھے کسی بشر نے چھوا نہیں کسی بشر کے چھوئے بغیر) ایسے ہی ہو گا اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا میرے لیے بن باپ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں آسان ہے اور ہم لوگوں کے لیے اس کو اپنی نشانی بنانا چاہتے ہیں اور اپنی طرف سے رحمت بھی اور یہ ایسا کام ہے جو طے ہو چکا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے مثل قرار دیا ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَم (سورۃ آل عمران، آیت: ۵۹ (بلا شبہ عیسیٰ کی مثال اﷲ کے ہاں ایسے ہی ہے جیسے آدم کی) کہ جیسے آدم علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ایسے ہی عیسیٰ علیہ السلام کو ماں کے ذریعے بن باپ کے پیدا کیا۔ اﷲ کے آخری کلام قرآن مجید میں جا بجا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ابن مریم کہا گیا ہے کہ اگر آپ کے والد ہوتے تو بیٹے کو ہمیشہ باپ کی طرف منسوب کر کے پکارا جاتا ہے کیونکہ کسی کو پکارنے کے مسئلہ میں قانونِ الٰہی یہی ہے کہ أُدْعُوْھُمْ لِآبَائِہِم ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہ۔ سورۃ الاحزاب، آیت: ۵(ان کو ان کے باپ کے نام سے ہی پکارو یہ اﷲ کے ہاں زیادہ مبنی بر انصاف ہے) قرآن مجید میں اولاد کو ہر جگہ والد اور والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانَا (سورۃ بنی اسرائیل، آیت: ۲۳) کے الفاظ کے ساتھ ہو رہا ہے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بَرًّا بِوَالِدَتِی۔سورۃ مریم، آیت: ۳۲ (اپنی والدہ کا مطیع) سے حکم بھی اسی طرف مشیر ہی نہیں بلکہ بالکل واضح بات ہے کہ اگر والدہ کے ساتھ والد بھی ہوتے تو یہاں بھی والدین کا لفظ ہوتا۔ اسی وجہ سے امر واقعہ یہ ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں کوئی مسلمان مفسر نہیں جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدا ہونے کا انکار کیاہو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بن باپ پیدائش کا عقیدہ بدیہاتِ اسلام میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایک خصوصی مقام یہ عطا فرمایا کہ آپ کو جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھا لیا جس کی قرآن مجید کی آیت بَل رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزاً حَکِیْمَا۔ سورۃ النساء، آیت: ۱۵۸ (بل کہ اﷲ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اﷲ زبردست حکمت والا ہے) سمیت کئی آیات اور بیسیوں احادیثِ رسول علیہ السلام شہادت دے رہی ہیں کہ اب تک آپ آسمان پر ہی موجود ہیں اور معراج کی رات حضور علیہ السلام نے اسی جسم عنصری سے آپ سے ملاقات کی۔ جس کی تفصیل واقعہ معراج میں واضح طور پر موجود ہے۔ آپ قیامت سے پہلے زمین پر نزول فرمائیں گے اور تقریباً چالیس سال بحیثیت خلیفۂ رسول آخر صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں وقت گزاریں گے۔ نزول کے بعد جو اہم فرائض سرانجام دیں گے۔ ان میں سرفہرست یہ کہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور ان کے نزول کے بعد اس کرہ ارض پر سوائے دینِ اسلام کے کوئی دین کوئی ملت باقی نہیں رہے گی۔ آپ کے دور میں مال کی اتنی فراوانی ہو گی کہ دنیا میں موجود ہر ایک شخص غنی ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ زکوٰۃ و صدقات کے دینے والے، کسی مستحق شخص کو ڈھونڈتے پھریں گے مگر کوئی وصول کرنے والا نہ ہو گا۔ آپ کا دور ایسا پاکیزہ ہو گا کہ لوگوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ کینہ اور حسد کرنے سے پاک ہو جائیں گے۔ آپ حج اور عمرہ کریں گے اور دجّال کو قتل کریں گے۔ انتقال فرما جانے کے بعد روضۃ الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں مدفون ہوں گے۔
      part 1

  • @shafimalik8054
    @shafimalik8054 Год назад

    Chor devbandiChor

    • @Jeemjugar
      @Jeemjugar 6 месяцев назад +1

      دلائل سے عاجز لوگ😂

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  6 месяцев назад

      اللہ ان کو ہدایت عطا فرمائے آمین

  • @zeewar313
    @zeewar313 7 месяцев назад

    محترم جھوٹ بول رہے غلام رسول سعیدی صاحب نے صاف لکھا ہے کے یہ روایت درایتا صحیح نہیں

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  6 месяцев назад

      جب سنداً صحیح ہے تو اس پر اعتراض چہ معنیٰ دارد؟ اس کا جواب نہیں آتا کیا؟

    • @allamashahzadahmadqadri2405
      @allamashahzadahmadqadri2405 4 дня назад

      ​@@altasdeeqaatتم جیسے جاھل کو یہ بھی نہیں پتہ کہ سند کا صحیح ہونا متن کے صحیح ہونے کو لازم نہیں
      ورنہ روایت کے صحیح ہونے کے لیے شذوذ اور علت قادحہ سے پاک ہونے کی قید محدثین کرام نے کیوں لگائی 😅😅😅😅

  • @muhaq755
    @muhaq755 Год назад

    آپکے سوال کا دوٹوک جواب یہ ھے:
    دنیا کے مذاہب، عیسائی ھو یا یہودی، ان میں سے کوئی بھی اپنی بنیاد کے اعتبار سے جھوٹا مذھب نہیں ھے۔ یہ اپنے اپنے وقت کے سچے مذاہب تھے۔ان کی غلطی بالکل وھی ھے، جو غلطی آپ لوگ بھی کر رھے ھو۔وہ غلطی یہ ھے کہ آپ سمیت ان سب نے بھی اپنے نبی کی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ کے بھیجے ھوئے کو قبول نہیں کیا۔
    آپ کی، عیسائیوں کی اور یہودیوں کی وجوہات انکار بھی ایک جیسی ھیں۔
    آپ لوگوں میں اور ان مذاہب کے ماننے والوں میں روحانیت یعنی اللہ تعالٰی سے زندہ تعلق کم ھونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ھے کہ روحانی بیٹری ریچارج کرنے والے اللہ کے مرسل اور اللہ کے خلیفہ کو آپ نے باطل سمجھ کر رد کیا ھے۔
    حالانکہ عصر حاضر میں اسلام کی زندہ ترین حقیقت احمدی اسلام ھی ھے۔
    حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کا دعوٰی یہ ھے کہ میں وھی خلیفتہ اللہ المھدی ھوں اور موعود عیسٰی بن مریم کا مصداق بھی ھوں جن کے آنے کی پیشگوئی میرے رسول مقتدا،خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔
    اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا میری تائید اور نصرت اور حفاظت کے لئے میری پشت پر کھڑا ھے۔
    اللہ تعالٰی نے بذریعہ الہام مجھے یہ خوشخبری دی ھے کہ لیظھرہ علی الدین کلہ
    یعنی دیگر ادیان پر اسلام کا عالمگیر غلبہ اسی خلافت علی منہاج النبوت کے ذریعہ ھوگا جو میرے ذریعہ اللہ تعالٰی نے قائم کی ھے۔
    اسلام باقی ادیان پر بلا شک و شبہ فتح پائے گا
    اور دنیا اسے عزت کے بلند ترین مقام پر دیکھے گی۔
    جسے ایمان لانا اور قبول کرنا ھے کرے۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      Jisy janab log khalifa nabi aur na jane kia kia banay bethay hen kia wo ek Sharif insan bhi hai? Aur hamara dosre ahle kitab se taqabul nahi ho sakta kun ke unhon ne Allah ke sachey nabyiun ki mukhalifat ki the jab ke Mirza ek ghaleez kirdar ka Hamil shakhs hai. Agar himat hai to mirza ko shareef insane sabit Karo. Dosre bat ke mirza ke Bad aur pehle bhi boht se logon ne dawa e nubowat aur mahde hone ke dawa jat kiye to tumhare nazdeek wo sahi hen Kia? Agar sahi nahen to kun nahen? Tumhara mirza sahi aur wo ghalat kun? Aur Agar wo sahi hen apne dawa Men to kon se mirzai ne us par iman la kar uski taeed o nusrat ki?

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      ​@@altasdeeqaatابوجہل اور ابولہب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیا کرتے تھے۔ ابوجہل اور ابولہب کی گستاخیوں سے حضور کی شان کو کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔آپ لوگوں کی طرح ابوجہل اور ابولہب کو بھی نعوذباللہ نہ تو شرافت دکھائی دیتی تھی اور نہ ھی اللہ کا نور دکھائی دیتا تھا۔ آپ بھی ابوجہل اور ابولہب جیسی باتیں کر رھے ھو۔ اگر آپ کو شرافت دکھائی نہیں دے رھی تو آپ اپنی آنکھوں کا علاج کروائو۔اگر آنکھوں کا علاج نہیں کروانا تو پھر ابوجہل اور ابولہب والے اپنے انجام کا انتظار کرو۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      @muhaq755 nazar na ana aur mojod na hona is men boht farq hai. Mirza men sharafat ki khobi mojod he nahe to nazar kia ay g?. Mere sawalon ka jawab nahe dia

    • @muhaq755
      @muhaq755 Год назад

      @@altasdeeqaat اللہ کا نور موجود تو یقینا ھوتا ھے لیکن ابوجہل اور ابولہب کو نظر نہیں آتا۔

    • @altasdeeqaat
      @altasdeeqaat  Год назад

      @muhaq755 aur tumhare jesy to abraha men bhi noor ka dawa kar den ge. Sawal mere apni jaga par qaim hen janab us taraf to a nahe rahe

  • @muhammadzaid6308
    @muhammadzaid6308 5 месяцев назад +1

    ماشاءاللہ