سود کی وکالت کرنے والوں کے عقلی اڑنگے || تالیف وپیشکش || فضیلة الشیخ مولانا محمد منیر قمر حفظہ اللہ

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 10 окт 2024
  • Mehran islamic info
    مسلمان جنہیں قرآن و سنت کی تعلیمات کے پیش نظر سود کا سب سے بڑا دشمن ہونا چاہیے تھا، وہ اقوام مغرب کے گمراہ کن پروپیگینڈے سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ یورپ زدہ طبقہ اور مغرب کے ذہنی غلام کئی مسائل میں کتاب وسنت سے بدگمان ہو کر دوسروں کو بھی اسی غلط راستے پر ڈالنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی علی ظلم کے بتائے ہوئے کئی صریح امور میں عقلی اڑنگے لگاتے ہیں اور بجائے خود سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے اعتراضات و دلائل کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی پوزیشن ان پرستاران عقل کی سود کے بارے میں بھی ہے۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قدیم طرز کے بنیوں، مہاجنوں اور ساہوکاروں کا سودی کاروبار حرام ہو تو ہو ، موجودہ بینکنگ تو اس سے بالکل ایک مختلف چیز ہے، ان بینکوں کا کاروبار تو بالکل صاف ستھرا ہے اور پاکیزہ ہے جس سے ہر قسم کا تعلق رکھا جا سکتا ہے۔ اسی بناء پر اب سود کی شرعی تعریف بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ قرآن میں جس سود کو حرام کہا گیا ہے اس کی تعریف میں یہ سود سرے سے آتا ہی نہیں۔ سود کے فوائد و کرامات یا بد حواسی کا ایک پلندہ بیان کیا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں ترقیاتی منصوبوں اور بزنس کے لیے سود کے از بس ضروری ہونے کا ہوا کھڑا کر کے اس کی حرمت پر طرح طرح کے اعتراض قائم کیے جاتے ہیں اور اس کے جواز میں رنگارنگ دلائل دیئے جاتے ہیں۔
    قرآن و سنت سے تو ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ چیز حرام و ناپاک ہے، اس کا نام چاہے سود کی بجائے فائدہ یا منافع رکھ لیں یا کوئی اور نام تجویز کر لیں، اس سے اس کی حرمت زائل نہیں ہو سکتی،
    لیکن پرستاران عقل قرآن و سنت کو کہاں خاطر میں لاتے ہیں۔ ان کے لیے تو تمام اشیاء کے حسن و فتح کو پرکھنے کا معیار صرف عقل ہے۔ تو آئیے ان حضرات کی خاطر ذرا عقل کی روشنی میں ہی پرکھ کر دیکھیں کہ عقل کی نظر میں سود کی مقبولیت کہاں تک ہے۔ اس سلسلہ میں سود کا جواز ثابت کرنے کے لیے ان کی اہم دلیل یہ ہوتی ہے کہ جو شخص کسی کو قرض دیتا ہے وہ ایثار کرتے ہوئے اپنی ضرورت کو روک کر قرض دینے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ لہذا مقروض کو چاہیے کہ اس کے عوض میں وہ قرض دینے والے کو اس کے مال کا کرایہ ادا کرے جس طرح وہ مکان، فرنیچر یا سواری کا کرایہ ادا کرتا ہے۔ اور اگر قرض لینے والے نے یہ سرمایہ کسی نفع آور کام میں لگایا ہے تو قرض دینے والا اس نفع سے اپنے حق کا بالا ولی مستحق ہے، کیونکہ اس نے ذاتی یا کاروباری ضرورت میں فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ہے۔
    اس دلیل میں معلوم نہیں کہ وہ ایثار کرنے اور خطرہ مول لینے کی قیمت پانچ یا دس پر سنٹ وصول کرنے کا استحقاق کسی عقلی اصول یا اخلاقی ضابطہ سے طے کر لیتے ہیں۔ رہا اپنی ضرورت کو روکنے کا سوال تو یہ دعوی بدایتا ہی غلط ہے ؟ کیونکہ وہ اپنی ضرورت روک کر نہیں بلکہ اپنا فاضل مال قرض دیتا ہے جسے وہ استعمال بھی نہیں کر رہا تھا۔ لہذا یہاں کوئی حرج بھی واقع نہیں ہوا کہ سود کو حرجانہ قرار دیا جا سکے۔ رہی کرائے والی بات تو کرایہ ان اشیاء کا تو معقول ہے جنہیں مہیا کرنے اور درست رکھنے کے لیے مالک اپنا وقت ، محنت اور مال صرف کرتا ہے ، اور وہ اشیاء استعمال سے خراب ہوتی ، ٹوٹتی پھوٹتی اور اپنی قیمت کھوتی رہتی ہیں، جبکہ قرض دینے والے کا سارا معاملہ ہی اس کے بر عکس ہے۔ اور اگر یہ قرض ایک فاقہ کش آدمی نے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے لیا ہے تو کیا واقعی وہ فائدہ اٹھا رہا ہے ؟ ایسے لوگوں اور جان بلب مریضوں کو انوسٹمنٹ یا روپیہ لگانے کی جگہ قرار دینا اور ان سے سود لینا کس کاروباری اصول، معاشی علم اور عقل وانصاف کی رو سے جائز ہے ۔ اللہ تعالی عقل سے صحیح کام لینے کی توفیق بخشے ۔ (آمین)
    ( سود کی وکالت کرنے والوں کے عقلی اڑنگے اور ان کا رد )
    پہلے سود کے جواز میں کوشاں حضرات کے دلائل ذکر کیے گئے ہیں اور ان کی غیر معقولیت بھی ثابت کی گئی ہے۔ البتہ یہ بات رہ گئی تھی کہ کاروباری قرضے پر سود کی عقلی حیثیت کیا ہے ؟ تو اس سلسلہ میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ سرمایہ بذات خود کوئی منافع پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، بلکہ وہ منافع صرف اس صورت میں پیدا کرتا ہے جب انسانی محنت و ذہانت اس پر کام کرے، پھر یہ محنت و ذہانت ساتھ لگتے ہی وہ سرمایہ منافع پیدا کر نا شروع نہیں کر دیتا، بلکہ اس کے نفع آور ہونے میں ایک مدت درکار ہوتی ہے۔ مزید بر آں اس کا نفع آور ہونا یقینی نہیں ہے۔ اس میں نقصان اور دیوالیہ کا بھی امکان ہے۔ اور نفع آور ہونے کی صورت میں بھی یہ پیشگی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی وقت نفع پیدا کرے گی۔
    اب یہ بات کس طرح معقول ہو سکتی ہے کہ روپیہ دینے والے کا منافع اس وقت سے شروع ہو جائے جبکہ انسانی محنت و ذہانت نے اس روپے کو ابھی ہاتھ ہی لگایا ہو، اور منافع کی شرح اور مقدار بھی معین ہو۔ معقولیت کے ساتھ جو بات کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اپنا سرمایہ کسی نفع آور کاروبار میں لگانا چاہتا ہو اسے محنت کرنے والوں کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرنا چاہیے اور نفع و نقصان میں ایک طے شدہ تناسب کے مطابق حصہ دار بن جانا چاہیے ( جسے فقہ اسلامی میں مضاربت کہا جاتا ہے اور یہ جائز و حلال ہے ) ، ور نہ نفع کمانے کا یہ کون سا معقول طریقہ ہے کہ میں ایک شخص کو سو روپیہ قرض دوں تو کہوں کہ تو مجھے ایک روپیہ ماہوار منافع اُس وقت تک دیتارہ جب تک میرا یہ سو روپیہ تیرے پاس رہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تک اس سرمایہ کو استعمال کر کے اس کی محنت نے نفع پیدا کر نا شروع نہ کیا ہو اس وقت تک آخر وہ کون سا منافع موجود ہے جس میں سے حصہ مانگنے کا مجھے حق پہنچتا ہو۔ اگر وہ شخص کاروبار میں فائدے کی بجائے نقصان اٹھائے تو کس عقل وانصاف کی رو سے یہ ماہوار منافع اس سے وصول کرنے کا حق رکھتا ہوں ؟ اگر اس کا کل منافع ہی ایک روپیہ ہو تو کون سا انصاف یہ جائز رکھتا ہے کہ جس شخص نے مہینہ بھر اپنا وقتمحنت، قابلیت اور ذاتی سرمای) ۔۔۔۔

Комментарии • 1