ماشاءاللہ! میں نےصبیح بھاءی کے بھت انٹرویو دیکھے اور بھت پسند کیے اور پھر بھی تشنگی باقی رھتی تھی اپ نے پھلی بار بتایا کہ اپ کی بیگم بھی نعت کی محافل کرتی ھیں ان کو ھم کس چینل پر تلاش کریں ؟رہنمای فرمائیں!🎉🎉🎉🎉🎉🎉🎉🎉 بھت اچھے سوالات کیے اور جوابات بھی بھت عمدہ،حکیمانہ ملے،،بھت مالومات میں اضافہ ھو تا ھے ❤❤ اللہ تعالیٰ اپ کی خدمات کو قبول فرمائے آمین ۔❤🎉❤🎉❤
پروگرام کا عنوان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے ۔ناضرین پروگرامز سے قبل اس ضمن میں چلنے والی جھلکیوں سے پروگرامز کی نوعیت اور اہمیت سے آگاہ ہو جاتے ہیں ۔زی نائن کا یہ پروگرام گو اچھا ہے لیکن عنوان مزید بہتر ہو سکتا تھا ۔ اس پروگرام کا نام A learned life journey by Syed Sabihuddin Rehmani کی بجائے اگر Life experience of Syed Sabihuddin Rehmani. یا Life journey of Syed Sabihuddin Rehmani ایسے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا ۔ اب آتے ہیں گفتگو کی طرف کہ مذہبی طبقہ چاہیے وہ کسی بھی پیمانے پر کام کرے ان کو معاشی طور پر مضبوط ہونا چاہیے ۔معاشی مضوطی انسان کی شخصیت کو پراعتماد بنانے میں معاون کردار ادا کرتی ہے۔معاشی ضروریات کو ہورا کرنے کے لیے کام کرنا باعث اجر و برکت اور درست طرزِ عمل ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں لوگ مسجد و مدرسہ خانقاہ کی تعمیر تو زور و شور سے کرتے ہیں لیکن اس کے انتظام و انصرام کے حوالے سے آج بھی روایتی طریقے جیسے چندہ ،صدقات و خیرات کو ہی اپناتے ہیں جو اسلام کی رو سے مناسب نہیں ہے ۔اس گفتگو میں بھی ان ہی روایتی طریقوں سے پر بات کی گئی ہے جن میں امام مسجد اور عالم کی تنخواہ کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور ان کی تنخواہ کو روایتی طریقہ پر بڑھانے کہ ترغیب دی جو قطعاً مناسب نہیں ہے۔یار رہے کہ اسلام کی ابتدا میں ہی مساجد میں تمام علوم و فنون اور حرب کے طریقے سیکھائے جاتے تھے کوئی الگ سے مدرسہ یا خانقاہی نظام نہیں تھا ۔انتظامی امور چلانے کے لیے مساجد کے لیے کوئی املاک جاگیر وقف کی جاتی تھی۔ جس سے معاشی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا ،آج بھی ایسا کیا جا سکتا ہے اگر کوئی مسجد ،مدرسہ یا خانقاہ تعمیر کیا جائے تو جگہ زیادہ خرید کر اس کے ساتھ چند مکانات اور دوکانوں کی تعمیر کی جا سکتی ہے یا زمین کا ٹکڑا کاشت کے لیے لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو دنیاوی تعلیم اور ہنر سکھانے کا بھی بندو بست کیا جایا تاکہ باعزت طور پر دین سے وابستہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں اور وہ اپنے فارغ اوقات میں مزید کچھ کما سکیں ۔ ہمارے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔یہاں ہر شخص مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ کو حصولِ ثواب کے لیے تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے انتظامی امور سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے اس لیے امام مسجد ہو یا مدرسے کے لیے علماء سب کو تنخواہ پر تعینات کیا جاتا ہے ۔گورنمنٹ کی سطح پر تو یہ تعیناتی اور تنخواہیں مقرر ہونا تو درست ہے کہ یہ سرکاری ملازمت کے دائرہ کار میں آتا ہے لیکن ہر گلی ،محلے،بازار اور ٹاون میں بننے والی مساجد ، درس گاہیں اور خانقاہیں تو مخیر حضرات یا عوام کے تعاون کے بغیر نہیں چلتی ان کے لیے روایتی خیرات سے کام چلایا جاتا ہے جو اسلام کے منافی ہے ۔ سورہ البقرہ آیت نمبر 271 میں اللہ فرماتا ہے ! اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۖ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَـفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرٌ (271) اگر تم خیرات ظاہر کرکے دو تو بھی اچھی بات ہے، اور اگر اسے چھپا کر دو اور فقیروں کو پہنچا دو تو تمہارے حق میں وہ بہتر ہے، اور اللہ تمہارے کچھ گناہ دور کر دے گا، اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبر رکھنے والا ہے۔یہاں خیرات کے لیے فقراء(ضرروت مند) لوگوں کا تزکرہ کیا گیا ہے نہ کہ کسی مذہبی ادارے کو خیرات دینے کا حکم دیا ہے ۔ اس طریقے کے بہت سے منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں، مثلاً ۔۔۔۔ اوّل تو آپ کے ارد گرد ضروت مند سفید پوش طبقہ محروم رہتا ہے۔ دوئم رقم جمع کرنے والے محلہ کمیٹی اور این جی اوز کے ارکان خود بد عنوانیاں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے این جی اوز اور کمیٹاں تو پھل پھولتی ہیں لیکن امام مسجد اور مدرس بدحال دیکھائی دیتے ہیں ۔ سوئم مذہبی طبقہ مذید سست اور کاہل ہوتا جا رہا ہے۔ آپ وطنِ عزیز کے علاوہ بیرون ملک میں بھی دیکھیں کہ ان کا انتظام اصلاحی کمیٹیاں ہی کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ سست اور کاہل ہیں۔ بڑی خرابی ان لوگوں کا معاش کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا ہے ۔ہمارے مدرسے چند ایک کے علاوہ اپنی درس گاہوں میں دنیاوی تعلیم یا ہنر سیکھنے کا مناسب بندو بست نہیں کرتے جس کی وجہ سے مدرسے سے فارغ ہونے والا ہر عالم دین معمولی تنخواہ امام مسجد اور مدرس بننے پر مجبور ہے۔ حالانکہ اسلام ہاتھ سے کمانے کی فیضیلت پر زور دیتا ہے۔پھر چاہے وہ امام مسجد ہو یا مدرس ،نعت گو ہو یا نعت خواں، عالم ہو یا حاکم سب کو حصولِ رزق کے لیے دنیاوی تعلیم و ہنر سیکھ کرروزگار کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔ معاشی طرز عمل کے لیے اسلام کی اصل خوبصورتی اس فرمانِ عالیشان میں پوشیدہ ہے۔ " الکاسب حبیب اللہ " مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے بیشتر ملاء اپنی ہر تقریر میں صدقات و خیرات کی فیضیلت بیان کرکے لوگوں کو جنت کے حصول اور جہنم سے آزادی کا درس دیتے ہوئے اس فرمان کو اپنے لیے بھول جاتے ہیں ۔ ان سے عرض ہے کہ اب وقت بدل رہا ہے صدقات و خیرات سے ادراے ،مساجد ، مدارس اور خانقاہیں اب زیادہ دیر نہیں چلیں گی آپ لوگوں کو منگتا نہ بنائیں بلکہ ہنر مند بنائیں ۔امام مسجد ہو یا مدرس اپنے فارغ اوقات میں کام کریں تاکہ معزز طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ بقول ابوالکلام " مدرسے کے بچوں کو کوئی ہنر ضرور سیکھانا چاہیے اگر ہنر نہ ہوا تو تو وہ دین بیچیں گے " آج یہی صورتِ حال ہے اللہ سب کو برکت والا رزقِ حلال دے اور روزگار ہاتھ سے کمانے کی توفیق دے ،آمین
MashAllah great speech May Allah bless you mayAllah bless you with long life ❤️🤲🏻
ماشاءاللہ
Great work!
ماشاءاللہ! میں نےصبیح بھاءی کے بھت انٹرویو دیکھے اور بھت پسند کیے اور پھر بھی تشنگی باقی رھتی تھی اپ نے پھلی بار بتایا کہ اپ کی بیگم بھی نعت کی محافل کرتی ھیں ان کو ھم کس چینل پر تلاش کریں ؟رہنمای فرمائیں!🎉🎉🎉🎉🎉🎉🎉🎉
بھت اچھے سوالات کیے اور جوابات بھی بھت عمدہ،حکیمانہ ملے،،بھت مالومات میں اضافہ ھو تا ھے ❤❤
اللہ تعالیٰ اپ کی خدمات کو قبول فرمائے آمین ۔❤🎉❤🎉❤
MashAllah bahoot khub
Masha Allah Syed sb❤❤❤
Masha-Allah
Maashaallah
پروگرام کا عنوان کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہوتی ہے ۔ناضرین پروگرامز سے قبل اس ضمن میں چلنے والی جھلکیوں سے پروگرامز کی نوعیت اور اہمیت سے آگاہ ہو جاتے ہیں ۔زی نائن کا یہ پروگرام گو اچھا ہے لیکن عنوان مزید بہتر ہو سکتا تھا ۔
اس پروگرام کا نام
A learned life journey by Syed Sabihuddin Rehmani
کی بجائے اگر
Life experience of Syed Sabihuddin Rehmani.
یا
Life journey of Syed Sabihuddin Rehmani
ایسے ہوتا تو زیادہ بہتر تھا ۔
اب آتے ہیں گفتگو کی طرف کہ مذہبی طبقہ چاہیے وہ کسی بھی پیمانے پر کام کرے ان کو معاشی طور پر مضبوط ہونا چاہیے ۔معاشی مضوطی انسان کی شخصیت کو پراعتماد بنانے میں معاون کردار ادا کرتی ہے۔معاشی ضروریات کو ہورا کرنے کے لیے کام کرنا باعث اجر و برکت اور درست طرزِ عمل ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے یہاں لوگ مسجد و مدرسہ
خانقاہ کی تعمیر تو زور و شور سے کرتے ہیں لیکن اس کے انتظام و انصرام کے حوالے سے آج بھی روایتی طریقے جیسے چندہ ،صدقات و خیرات کو ہی اپناتے ہیں جو اسلام کی رو سے مناسب نہیں ہے ۔اس گفتگو میں بھی ان ہی روایتی طریقوں سے پر بات کی گئی ہے جن میں امام مسجد اور عالم کی تنخواہ کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور ان کی تنخواہ کو روایتی طریقہ پر بڑھانے کہ ترغیب دی جو قطعاً مناسب نہیں ہے۔یار رہے کہ اسلام کی ابتدا میں ہی مساجد میں تمام علوم و فنون اور حرب کے طریقے سیکھائے جاتے تھے کوئی الگ سے مدرسہ یا خانقاہی نظام نہیں تھا ۔انتظامی امور چلانے کے لیے مساجد کے لیے کوئی املاک جاگیر وقف کی جاتی تھی۔ جس سے معاشی ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا ،آج بھی ایسا کیا جا سکتا ہے اگر کوئی مسجد ،مدرسہ یا خانقاہ تعمیر کیا جائے تو جگہ زیادہ خرید کر اس کے ساتھ چند مکانات اور دوکانوں کی تعمیر کی جا سکتی ہے یا زمین کا ٹکڑا کاشت کے لیے لیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو دنیاوی تعلیم اور ہنر سکھانے کا بھی بندو بست کیا جایا تاکہ باعزت طور پر دین سے وابستہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں اور وہ اپنے فارغ اوقات میں مزید کچھ کما سکیں ۔
ہمارے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔یہاں ہر شخص مسجد ،مدرسہ اور خانقاہ کو حصولِ ثواب کے لیے تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے انتظامی امور سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے اس لیے امام مسجد ہو یا مدرسے کے لیے علماء سب کو تنخواہ پر تعینات کیا جاتا ہے ۔گورنمنٹ کی سطح پر تو یہ تعیناتی اور تنخواہیں مقرر ہونا تو درست ہے کہ یہ سرکاری ملازمت کے دائرہ کار میں آتا ہے لیکن ہر گلی ،محلے،بازار اور ٹاون میں بننے والی مساجد ، درس گاہیں اور خانقاہیں تو مخیر حضرات یا عوام کے تعاون کے بغیر نہیں چلتی ان کے لیے روایتی خیرات سے کام چلایا جاتا ہے جو اسلام کے منافی ہے ۔
سورہ البقرہ آیت نمبر 271 میں اللہ فرماتا ہے !
اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِىَ ۖ وَاِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوْهَا الْفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيْـرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَـفِّرُ عَنْكُمْ مِّنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرٌ (271)
اگر تم خیرات ظاہر کرکے دو تو بھی اچھی بات ہے، اور اگر اسے چھپا کر دو اور فقیروں کو پہنچا دو تو تمہارے حق میں وہ بہتر ہے، اور اللہ تمہارے کچھ گناہ دور کر دے گا، اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبر رکھنے والا ہے۔یہاں خیرات کے لیے فقراء(ضرروت مند) لوگوں کا تزکرہ کیا گیا ہے نہ کہ کسی مذہبی ادارے کو خیرات دینے کا حکم دیا ہے ۔
اس طریقے کے بہت سے منفی پہلو بھی سامنے آتے ہیں، مثلاً ۔۔۔۔
اوّل تو آپ کے ارد گرد ضروت مند سفید پوش طبقہ محروم رہتا ہے۔
دوئم رقم جمع کرنے والے محلہ کمیٹی اور این جی اوز کے ارکان خود بد عنوانیاں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے این جی اوز اور کمیٹاں تو پھل پھولتی ہیں لیکن امام مسجد اور مدرس بدحال دیکھائی دیتے ہیں ۔
سوئم مذہبی طبقہ مذید سست اور کاہل ہوتا جا رہا ہے۔
آپ وطنِ عزیز کے علاوہ بیرون ملک میں بھی دیکھیں کہ ان کا انتظام اصلاحی کمیٹیاں ہی کرتی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ سست اور کاہل ہیں۔ بڑی خرابی ان لوگوں کا معاش کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا ہے ۔ہمارے مدرسے چند ایک کے علاوہ اپنی درس گاہوں میں دنیاوی تعلیم یا ہنر سیکھنے کا مناسب بندو بست نہیں کرتے جس کی وجہ سے مدرسے سے فارغ ہونے والا ہر عالم دین معمولی تنخواہ امام مسجد اور مدرس بننے پر مجبور ہے۔
حالانکہ اسلام ہاتھ سے کمانے کی فیضیلت پر زور دیتا ہے۔پھر چاہے وہ امام مسجد ہو یا مدرس ،نعت گو ہو یا نعت خواں، عالم ہو یا حاکم سب کو حصولِ رزق کے لیے دنیاوی تعلیم و ہنر سیکھ کرروزگار کے لیے کوشش کرنی چاہیے ۔
معاشی طرز عمل کے لیے اسلام کی اصل خوبصورتی اس فرمانِ عالیشان میں پوشیدہ ہے۔
" الکاسب حبیب اللہ "
مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے بیشتر ملاء اپنی ہر تقریر میں صدقات و خیرات کی فیضیلت بیان کرکے لوگوں کو جنت کے حصول اور جہنم سے آزادی کا درس دیتے ہوئے اس فرمان کو اپنے لیے بھول جاتے ہیں ۔
ان سے عرض ہے کہ اب وقت بدل رہا ہے صدقات و خیرات سے ادراے ،مساجد ، مدارس اور خانقاہیں اب زیادہ دیر نہیں چلیں گی آپ لوگوں کو منگتا نہ بنائیں بلکہ ہنر مند بنائیں ۔امام مسجد ہو یا مدرس اپنے فارغ اوقات میں کام کریں تاکہ معزز طریقے سے اپنی ضروریات کو پورا کر سکیں۔
بقول ابوالکلام " مدرسے کے بچوں کو کوئی ہنر ضرور سیکھانا چاہیے اگر ہنر نہ ہوا تو تو وہ دین بیچیں گے "
آج یہی صورتِ حال ہے اللہ سب کو برکت والا رزقِ حلال دے اور روزگار ہاتھ سے کمانے کی توفیق دے ،آمین