Tarannum Mein Taqreer Karna Kaisa ? | Gaa Gaa Kar Taqreer Karna | Shaikh Inayatullah Madani

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 8 янв 2025

Комментарии • 16

  • @ReadingForLearning
    @ReadingForLearning 13 часов назад +1

    Bilkul sahi baat hai, main muttafiq hoon shaykh ke baat se, MAGAR ye baat ba'eed hai ki hamare ahle hadees bhai jab tarannum wale taqreer sunte hai toh halal haram se, jayaz na jayaz se, sahi galat se koi matlab nahi rehta.
    Ye baat gair ahle hadeeso me payi jati hogi lekin ahle hadeeso me nahi, Alhamdulillah.
    Waise bhi jo muqallid hai woh tarannum wale sune ya gair tarannum wale, gumrahi dono tarah ke taqaareer me hoti hai.

  • @tamiznazar8099
    @tamiznazar8099 День назад +1

    Mashallah ❤

  • @kamalshaikh1613
    @kamalshaikh1613 2 дня назад +1

    Jazakallah khair

  • @DrRahmanAazmi
    @DrRahmanAazmi День назад +1

    Sahi bat hai

  • @fazalshaikh7686
    @fazalshaikh7686 2 дня назад +1

    Bahot hi sahi baat batayen

  • @fazalshaikh7686
    @fazalshaikh7686 2 дня назад +1

    Maasha allah

  • @JavedAli-u4v
    @JavedAli-u4v День назад

    Ji jaise jarjis ansari karte

  • @mohdazhansiddiqui
    @mohdazhansiddiqui День назад +1

    Jisse fayda pahunche

  • @muslimyouthofficial
    @muslimyouthofficial 2 дня назад

  • @AslamShaikh-ve8oh
    @AslamShaikh-ve8oh Час назад

    RUclips admin se gujarish hai ke aap pahle tusre ulema se bhi tahqeeq kar ley feer video share kare Aise hi kisi chiz par bidad ka huqm nahi dena chahiye

    • @AslamShaikh-ve8oh
      @AslamShaikh-ve8oh Час назад

      کیا ترنم سے تقریر کرنا بدعت ہے؟
      سرفراز فیضی (ممبئی)
      شیخ عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کی صاحب علم شخصیت اور معروف خطیب ہیں، پر وہ کسی عمل پر بدعت کا حکم لگانے میں بہت جلدبازی سے کام لیتے ہیں ، اس سے پہلے شیخ محترم نے مساجد میں خواتین کے دروس کو بدعت قرار دے دیا تھا ، اب ترنم والی خطابت پر بدعت ہونے کا فرمان جاری فرما دیا ہے۔
      پہلا سوال تو اس سلسلے شیخ سے یہ ہونا چاہیے کہ کیا اسلوب خطابت توقیفی ہیں؟ یا اس کا تعلق مصالح مرسلہ کے باب سے ہے؟
      یعنی بلاشبہ اسلوب خطابت میں نبی ﷺ کی اتباع میں ثواب ہے ، لیکن کیا شریعت میں اس اسلوب سے ہٹ کر خطاب کرنا ممنوع ہے؟
      ہمارے علم کی حد تک تو اسلوب خطابت کا تعلق وسائط سے ہے ،یعنی یہ اسلوب واسطہ ہیں اور واسطوں پر غایات یعنی مقاصد کا حکم لگتا ہے۔
      جیسے جدید دور میں دعوت کے بہت سارے ایسے وسائل اختیار کیے گئے ہیں جو نبی ﷺ نے اختیار نہیں کیے، کتابیں چھاپنا ، سالانہ جلسوں اور ماہانہ دروس کا انعقاد کرنا ، دعوت کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا یہ سب دعوت وسائل عادیہ ہیں اور اس قسم کے وسائل توقیفی نہیں اجتہادی ہیں، اور ان پر بدعت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ، ایسے ہی اسلوب خطابت بھی ایک غیر توقیفی اور اجتہادی شیئی ہے اور خطیب زمان ومکان کی رعایت کرتے ہوئے جو اسلوب چاہیے اختیار کرسکتا ہے۔
      امت میں کبھی بھی خطابت کے لہجے کو توقیفی نہیں سمجھا گیا اس لیے امت ہزاروں قسم کے اسالیب خطابت پائے جاتے ہیں، بلکہ ہر خطیب کا اپنا ایک الگ اسلوب ہوتا ہے۔ اگر اسلوب خطابت پر توقیفی ہونے کا حکم لگایا دیا جائے تو بیشتر خطیبوں کی خطابت "بدعت " کے دائرے میں آ جائے گی۔
      دوسرا سوال یہ ہے اگر اسلوب خطابت توقیفی ہے تو صرف ترنم والی خطابت ہی بدعت ہے زمرے کیوں آتی ہے، بہت سارے خطباء دھیمے لہجے میں درس کے انداز میں خطاب کرتے ہیں، جیسے کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، کیا ایسے خطباء ہی خطابت پر بھی بدعت کا حکم لگے گا۔
      بہت سارے خطبہ ڈائس پر کود کود کر تقریریں کرتے ہیں ، تو کیا اس اچھل کود والی تقریر پر "بدعت" کا حکم لگے گا ؟
      اور پھر نبی ﷺ کے خطاب کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کی گفتگو آسان اور عام فہم ہوتی تھی ۔
      ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا ہر لفظ الگ الگ اور واضح ہوتا تھا، جو بھی اسے سنتا سمجھ لیتا۔
      كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا فَصْلًا يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ سَمِعَهُ ( نسائی: قال الالبانی : حسن)
      جبکہ ہمارے بہت سارے خطیب علمی خطاب کے نام پر عربی زدہ اردو میں اتنی مشکل اور پیچیدہ گفتگو کرتے ہیں کہ بیشتر باتیں عوام کے سر کے اوپر سے چلی جاتی ہیں
      تو کیا اس پیچیدہ اسلوب خطابت پر بھی" سنت کی مخالفت" اور "بدعت" کا حکم لگےگا۔
      شیخ ترنم سے خطاب کرنے والوں کے خلاف دلیل دے رہے ہیں کہ نبی ﷺ کی آواز بلند اور نگاہیں سرخ ہوجاتی تھیں ۔
      ترنم سے خطاب کرنے والے خطباء از اول تا آخر ترنم ہی سے گفتگو نہیں کرتے ، ان کے لہجے میں اتار چڑھاو بھی آتا ہے اور دوران خطاب ان کا آہنگ بھی پست و بلند ہوتا ہے۔ تو ان پر سنت رسول ﷺ کی مخالفت کا الزام لگانا کیا صحیح ہے؟
      آواز کی بلندی اور آنکھوں کی سرخی کے بغیر اگر خطابت بدعت ہے تو خود صوبائی جمعیت ممبئی کے اسٹیج سے ایسے بہت سارے خطباء خطاب کرتے ہیں جن کی نہ آواز بلند ہوتی ہے نہ چہر سرخ ہوتا ہے، وہ دھیمے دھیمے لہجے شگفتگی کے ساتھ خطاب کرتے ہیں ، آپ نے جو معیار قائم کیا اس حساب سے تو یہ سارے خطیب بھی بدعتی قرار پائیں گے۔
      آپ نے اتنا بڑا دعویٰ کردیا کہ ایسے خطیبوں کو سننے والوں کو اس سے کوئی مطلب کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ جو بات کہی جارہی ہے وہ صحیح یا غلط، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ترنم سے خطاب کرنے والے خطباء کے مواد سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے، ایسی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ انہیں ترنم والے خطباء کو سن کر لوگوں نے شرک اور قبرپرستی سے توبہ کی ہے، ایک خاص طبقے کی عوام کو آپ کی گاڑھی عربی زدہ اردو اور پیچیدہ اصطلاحات سے پر خطابت کے بجائے انہیں ترنم سے خطاب کرنے والے خطباء کی سادہ زبان زیادہ سمجھ آتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ایک سروے کراکر دیکھ لیں۔
      آپ نے دعویٰ کردیا کہ ان خطیبوں سے لوگ ایک حرف بھی نہیں سیکھتے ، اس دعوے کے پیچھے کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس ؟ اجلاس میں شریک ہونے والوں کو تو جانے دیں ، یہ سوشل میڈیا پر جو ایسے خطیبوں کے کلپس وائرل ہوتے ہیں وہ کیا سب کے سب فضول اور علم سے خالی ہوتے ہیں؟ ان میں قرآن کی آیتیں نہیں ہوتیں ؟ نبی ﷺ کی حدیثیں نہیں ہوتیں؟ یہ کلپس محض تفریح کے لیے سنے اور فارورڈ کیے جارہے ہیں ؟
      دو چار ایسے خطیبوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن تمام ترنم سے خطابت کرنے والے خطیبوں پر یکساں حکم لگا دینا صریح زیادتی ہے۔
      ترنم سے تقریر کرنے والے کئی اچھے خطیبوں کی مثالیں میں پیش کرسکتا ہوں ، فی الحال دو پر اکتفاء کرتا ہوں۔
      بیرون ملک سے شیخ عبدالمنان راسخ اور ہندوستان سے شیخ عبدالغفار سلفی
      ان دونوں خطیبوں کے خطبات ، قرآنی آیات ، احادیث ، اقوال سلف اور علمی نکات سے پر ہوتے ہیں جس سے عوام ہی نہیں طلبہ علم بھی استفادہ کرتے ہیں۔
      یہی وجہ ہے شیخ عبدالغفار سلفی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے اسٹیج سے خطاب فرماتے رہے ہیں جس اسٹیج کو آپ بھی ایک سنجیدہ علمی اسٹیج تسلیم کریں گے۔
      اگر یہ اسلوب ترنم بدعت ہے تو آپ نے انہیں اب تک روک کر انکار منکر کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیا ؟ آپ کی آنکھوں کے سامنے جمعیت کے اسٹیج پر بدعت انجام دی جاتی رہی اور آپ خاموش رہے؟
      صوفیہ کے یہاں یہ طریقہ رائج رہا ہے یہ اس اسلوب کے بدعت ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیا صوفیہ کوئی مباح کام کردیں تو وہ حرام ہو جائے گا ؟
      رہی بات استدراک اور دکتور عبد الباری مدنی حفظہ اللہ کے فتوے کی تو استدراک اور شیخ عبد الباری فتح اللہ مدنی کا فتوی تو بھینس کی قربانی کے عدم جواز کا بھی ہے۔ بلکہ دکتور عبد الباری حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ بھینس کی قربانی کے جواز کا فتویٰ دینے والا" بیل "ہے۔
      تو کیا دکتور کا یہ فتویٰ بھی آپ کو قبول ہے ؟
      آخری بات یہ کہ :
      ممکن ہے کہ ذاتی طور پر آپ کو ترنم والے خطابات پسند نہ ہوں، لیکن اپنی پسند نا پسند کو دین کا حصہ نہ بنائیں! ہر پسند نہ آنے والے عمل پر "بدعت" اور پسند نہ آنے والی شخصیت پر "غیر منہجی" کا فتوی لگا دینا مناسب رویہ نہیں ۔
      اس سے حقیقی "بدعت" اور اصلی "غیر منہجیوں" کے خلاف ہمارا مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے،لوگ" بدعت" اور" غیر منہجیت "کے فتووں کو سیریس لینا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ عظیم دینی اصطلاحات مذاق کا موضوع بن جاتی ہیں۔
      ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

  • @azizurrahmanbukharichanela1961
    @azizurrahmanbukharichanela1961 3 часа назад

    Kiya Shaikh Abdul Gaffar Salafi bidati hain?????
    Qazi ismail faizi bidati hain????
    Jarjees chaturvedi bidati hain???
    Is tareh dheron Salafi molvi agar aap ke nazdik bidati hain to in jaise bidati molviyon ko aap log apni mahfil mein kiyon bulate hain???????
    Please jawab den

  • @faaniinsaan2528
    @faaniinsaan2528 2 дня назад

    Ho gayi phir ladai ahle hadeeso me...
    Abhi bawal hoga aur jo log gaa ke taqreer krte hain wo reply krenge

  • @MOHAMMEDSHAHJAHAN-ft8ri
    @MOHAMMEDSHAHJAHAN-ft8ri 13 часов назад

    کیا ترنم سے تقریر کرنا بدعت ہے؟
    سرفراز فیضی (ممبئی)
    شیخ عنایت اللہ مدنی حفظہ اللہ جماعت اہل حدیث کی صاحب علم شخصیت اور معروف خطیب ہیں، پر وہ کسی عمل پر بدعت کا حکم لگانے میں بہت جلدبازی سے کام لیتے ہیں ، اس سے پہلے شیخ محترم نے مساجد میں خواتین کے دروس کو بدعت قرار دے دیا تھا ، اب ترنم والی خطابت پر بدعت ہونے کا فرمان جاری فرما دیا ہے۔
    پہلا سوال تو اس سلسلے شیخ سے یہ ہونا چاہیے کہ کیا اسلوب خطابت توقیفی ہیں؟ یا اس کا تعلق مصالح مرسلہ کے باب سے ہے؟
    یعنی بلاشبہ اسلوب خطابت میں نبی ﷺ کی اتباع میں ثواب ہے ، لیکن کیا شریعت میں اس اسلوب سے ہٹ کر خطاب کرنا ممنوع ہے؟
    ہمارے علم کی حد تک تو اسلوب خطابت کا تعلق وسائط سے ہے ،یعنی یہ اسلوب واسطہ ہیں اور واسطوں پر غایات یعنی مقاصد کا حکم لگتا ہے۔
    جیسے جدید دور میں دعوت کے بہت سارے ایسے وسائل اختیار کیے گئے ہیں جو نبی ﷺ نے اختیار نہیں کیے، کتابیں چھاپنا ، سالانہ جلسوں اور ماہانہ دروس کا انعقاد کرنا ، دعوت کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا استعمال کرنا یہ سب دعوت وسائل عادیہ ہیں اور اس قسم کے وسائل توقیفی نہیں اجتہادی ہیں، اور ان پر بدعت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا ، ایسے ہی اسلوب خطابت بھی ایک غیر توقیفی اور اجتہادی شیئی ہے اور خطیب زمان ومکان کی رعایت کرتے ہوئے جو اسلوب چاہیے اختیار کرسکتا ہے۔
    امت میں کبھی بھی خطابت کے لہجے کو توقیفی نہیں سمجھا گیا اس لیے امت ہزاروں قسم کے اسالیب خطابت پائے جاتے ہیں، بلکہ ہر خطیب کا اپنا ایک الگ اسلوب ہوتا ہے۔ اگر اسلوب خطابت پر توقیفی ہونے کا حکم لگایا دیا جائے تو بیشتر خطیبوں کی خطابت "بدعت " کے دائرے میں آ جائے گی۔
    دوسرا سوال یہ ہے اگر اسلوب خطابت توقیفی ہے تو صرف ترنم والی خطابت ہی بدعت ہے زمرے کیوں آتی ہے، بہت سارے خطباء دھیمے لہجے میں درس کے انداز میں خطاب کرتے ہیں، جیسے کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، کیا ایسے خطباء ہی خطابت پر بھی بدعت کا حکم لگے گا۔
    بہت سارے خطبہ ڈائس پر کود کود کر تقریریں کرتے ہیں ، تو کیا اس اچھل کود والی تقریر پر "بدعت" کا حکم لگے گا ؟
    اور پھر نبی ﷺ کے خطاب کی ایک سنت یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کی گفتگو آسان اور عام فہم ہوتی تھی ۔
    ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا ہر لفظ الگ الگ اور واضح ہوتا تھا، جو بھی اسے سنتا سمجھ لیتا۔
    كَانَ كَلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلَامًا فَصْلًا يَفْهَمُهُ كُلُّ مَنْ سَمِعَهُ ( نسائی: قال الالبانی : حسن)
    جبکہ ہمارے بہت سارے خطیب علمی خطاب کے نام پر عربی زدہ اردو میں اتنی مشکل اور پیچیدہ گفتگو کرتے ہیں کہ بیشتر باتیں عوام کے سر کے اوپر سے چلی جاتی ہیں
    تو کیا اس پیچیدہ اسلوب خطابت پر بھی" سنت کی مخالفت" اور "بدعت" کا حکم لگےگا۔
    شیخ ترنم سے خطاب کرنے والوں کے خلاف دلیل دے رہے ہیں کہ نبی ﷺ کی آواز بلند اور نگاہیں سرخ ہوجاتی تھیں ۔
    ترنم سے خطاب کرنے والے خطباء از اول تا آخر ترنم ہی سے گفتگو نہیں کرتے ، ان کے لہجے میں اتار چڑھاو بھی آتا ہے اور دوران خطاب ان کا آہنگ بھی پست و بلند ہوتا ہے۔ تو ان پر سنت رسول ﷺ کی مخالفت کا الزام لگانا کیا صحیح ہے؟
    آواز کی بلندی اور آنکھوں کی سرخی کے بغیر اگر خطابت بدعت ہے تو خود صوبائی جمعیت ممبئی کے اسٹیج سے ایسے بہت سارے خطباء خطاب کرتے ہیں جن کی نہ آواز بلند ہوتی ہے نہ چہر سرخ ہوتا ہے، وہ دھیمے دھیمے لہجے شگفتگی کے ساتھ خطاب کرتے ہیں ، آپ نے جو معیار قائم کیا اس حساب سے تو یہ سارے خطیب بھی بدعتی قرار پائیں گے۔
    آپ نے اتنا بڑا دعویٰ کردیا کہ ایسے خطیبوں کو سننے والوں کو اس سے کوئی مطلب کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ جو بات کہی جارہی ہے وہ صحیح یا غلط، اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ترنم سے خطاب کرنے والے خطباء کے مواد سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے، ایسی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ انہیں ترنم والے خطباء کو سن کر لوگوں نے شرک اور قبرپرستی سے توبہ کی ہے، ایک خاص طبقے کی عوام کو آپ کی گاڑھی عربی زدہ اردو اور پیچیدہ اصطلاحات سے پر خطابت کے بجائے انہیں ترنم سے خطاب کرنے والے خطباء کی سادہ زبان زیادہ سمجھ آتی ہے۔ یقین نہ آئے تو ایک سروے کراکر دیکھ لیں۔
    آپ نے دعویٰ کردیا کہ ان خطیبوں سے لوگ ایک حرف بھی نہیں سیکھتے ، اس دعوے کے پیچھے کوئی ثبوت ہے آپ کے پاس ؟ اجلاس میں شریک ہونے والوں کو تو جانے دیں ، یہ سوشل میڈیا پر جو ایسے خطیبوں کے کلپس وائرل ہوتے ہیں وہ کیا سب کے سب فضول اور علم سے خالی ہوتے ہیں؟ ان میں قرآن کی آیتیں نہیں ہوتیں ؟ نبی ﷺ کی حدیثیں نہیں ہوتیں؟ یہ کلپس محض تفریح کے لیے سنے اور فارورڈ کیے جارہے ہیں ؟
    دو چار ایسے خطیبوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن تمام ترنم سے خطابت کرنے والے خطیبوں پر یکساں حکم لگا دینا صریح زیادتی ہے۔
    ترنم سے تقریر کرنے والے کئی اچھے خطیبوں کی مثالیں میں پیش کرسکتا ہوں ، فی الحال دو پر اکتفاء کرتا ہوں۔
    بیرون ملک سے شیخ عبدالمنان راسخ اور ہندوستان سے شیخ عبدالغفار سلفی
    ان دونوں خطیبوں کے خطبات ، قرآنی آیات ، احادیث ، اقوال سلف اور علمی نکات سے پر ہوتے ہیں جس سے عوام ہی نہیں طلبہ علم بھی استفادہ کرتے ہیں۔
    یہی وجہ ہے شیخ عبدالغفار سلفی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے اسٹیج سے خطاب فرماتے رہے ہیں جس اسٹیج کو آپ بھی ایک سنجیدہ علمی اسٹیج تسلیم کریں گے۔
    اگر یہ اسلوب ترنم بدعت ہے تو آپ نے انہیں اب تک روک کر انکار منکر کا فریضہ انجام کیوں نہیں دیا ؟ آپ کی آنکھوں کے سامنے جمعیت کے اسٹیج پر بدعت انجام دی جاتی رہی اور آپ خاموش رہے؟
    صوفیہ کے یہاں یہ طریقہ رائج رہا ہے یہ اس اسلوب کے بدعت ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی ، کیا صوفیہ کوئی مباح کام کردیں تو وہ حرام ہو جائے گا ؟
    رہی بات استدراک اور دکتور عبد الباری مدنی حفظہ اللہ کے فتوے کی تو استدراک اور شیخ عبد الباری فتح اللہ مدنی کا فتوی تو بھینس کی قربانی کے عدم جواز کا بھی ہے۔ بلکہ دکتور عبد الباری حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ بھینس کی قربانی کے جواز کا فتویٰ دینے والا" بیل "ہے۔
    تو کیا دکتور کا یہ فتویٰ بھی آپ کو قبول ہے ؟
    آخری بات یہ کہ :
    ممکن ہے کہ ذاتی طور پر آپ کو ترنم والے خطابات پسند نہ ہوں، لیکن اپنی پسند نا پسند کو دین کا حصہ نہ بنائیں! ہر پسند نہ آنے والے عمل پر "بدعت" اور پسند نہ آنے والی شخصیت پر "غیر منہجی" کا فتوی لگا دینا مناسب رویہ نہیں ۔
    اس سے حقیقی "بدعت" اور اصلی "غیر منہجیوں" کے خلاف ہمارا مقدمہ کمزور ہوجاتا ہے،لوگ" بدعت" اور" غیر منہجیت "کے فتووں کو سیریس لینا چھوڑ دیتے ہیں اور یہ عظیم دینی اصطلاحات مذاق کا موضوع بن جاتی ہیں۔
    ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب