@@asadviqar9946 تم لوگ دلیل والے نہیں ہو کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
@@ROGaddiction ان علینا جمعہ وقرآ نہ فاذا قاء ذا قر ا ناہ فا تبع قرآنہ۔ اللہ پاک نے نبی علیہ السلام کے وفات سے قبل قرآن مجید کو مکمل جمع کر دیا تھا تم لوگ قرآن مجید کو سمجھ کر نہیں پڑھتے راجہ جیسے نیم مولویوں کے بیانات سنتے رہے تو یہی ناقص ملی آپ کی
Question to Qaiser Raja. Books of Hadees were written 100 years after Prophet (Peace be upon him). How the people offer prayers when no Hadees books were available?
@@slaveatif اپنے شیخ کی تاریخ تو پڑھ لو کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
@@baberjaved8028 کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
پہلے یہ سوچیں کہ دین کیا ہے ؟ کیا حدیث دین کا حصہ ہے ؟ نماز پڑھنا دین ہے لیکن کیا رفع الیدین کرنا دین ہے؟ہم نے بہت سی چیزیں دین کا حصہ بنا کر لوگوں کی زندگی تنگ کر دی ہے، ہر کوئی دین کی اپنی تعریف کرتا ہے ۔
@@baberjaved8028 اور قرآن بھی تمکو ہضم نہیں ہوگا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں۔ کیونکہ قرآن میں ہی ہے وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىﭤ(3)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى
عامدیت اور سیکولرازم دونوں اسلام کے خلاف ہے ۔ عامدی صاحب کا داماد کسی عالم دین کا سامنا نہیں کر سکتا ۔ فیصل وڑائچ جیسے سیکولرز ان کو استعمال کر رہے ہیں 😢😢😢
رسول کی اتباع اور اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اللہ نے دو قسم کی وحی نازل کی، (و انزل اللہ علیک الکتاب والحکمہ) کتاب اور حکمت دونوں وحی ہیں دونوں محفوظ ہیں جس کا نام ہے قرآن اور سنت، یعنی وحی کتاب کی تعلیم و تربیت کی گئی وحی سنت سے جو آج ہمارے پاس موجود ہے احادیث کی شکل میں، جس میں تلاوت قرآن،تعلیم القرآن، تزکیہ نفس قیامت سے پہلے کے حالات و واقعات کی خبریں اور حلال و حرام کی تفصیل اور دوزخ و جنت کی تفصیل بیان کی گئی ہیں یہ سب وحی قرآن کے علاوہ وحی ہے۔ یہ دونوں وحی شریعت کے مآخذ دین ہیں ان میں سے ایک کا بھی انکار کفر ہے۔
حکمت کے معنی۔ ایمان و اخلاق ہیں دلیل۔ سورت بنی اسرائیل آیات۔ 22۔ 39 تک پڑھ لیں نہ کہ حدیث وسنت۔ حدیث قرآن مجید کی تفہیم وتپعین اور اسوۂ حسنہ کا بیان ہے یہ علم النبی ہے۔
حکمت کے معنی ایمان واخلاق ہے دلیل سورت بنی اسرائیل آیات۔ /22۔ 39/ پڑھ لیں نہ کہ حدیث وسنت۔ حدیث قرآن وسنت کی تفہیم وتپعین اور اسوۂ حسنہ کا بیان ہوتاہے حدیث یہ علم النبی ہے
@@mohammedtoufiq-lk7wtجاہل انسان تمام سلف مانتے ہیں حکمہ جو نازل شدہ ہے نبی پر اسی کو سنت کہتے ہیں تمام سنت احادیث لکھ دی گئ ہیں غامدی تو دجال ہے اس زمانے کا۔
حکمت جو بھی ہو پھر بھی میری بات ثابت ہوگئی قرآن نے کہا ہے کتاب اور حکمت دونوں نازل شدہ ہیں دونوں وحی ہیں دونوں کی تعلم اور تلاوت کی گئی یعلمھم الکتاب والحکمہ، دونوں مآخذ دین ہیں نام بدلنے سے حقیقت میں فرق پڑتا، قرآن کہو یا کتاب حکمہ کہو یا سنت و حدیث کسی ایک انکار کفر ہے، فتنہ غامدی کو تکلیف ہوتی ہے قرآن کے علاوہ وحی مانتے ہوئے اس لئے متواتر احادیث جن کی نبی نے وحی سے خبر دی قیامت تک کے واقعات و حالات انکا انکار کرنے والے کذابون و دجالون ہیں۔
جاوید غامدی کا عملی تواتر بھی قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے جو لکھا ہوا ہے جس کو احادیث کہا جاتا ہے۔ جب عملی نماز سیکھی جاتی ہے تو بتایا جاتا ہے نبی اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور نماز کے اندر کیا پڑھتے اور نیت کیسے کرتے تھے۔ مسلمانوں کا عملی تواتر قولی تواتر سے ثابت ہے۔ جس کو لوگوں نے زبانی یاد رکھا ہے اور لکھ بھی رکھا ہے جس کو علماء نے حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ منکرین حدیث کے پاس اپنے عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سنت کہتے کسی کا طریقہ۔۔مثال. کیا لوہار نے کوئی کتاب پڑھ کر یہ کام سیکھا۔ یا اپبے والد کو دیکھ لر۔۔۔۔اب ہم نے دین ان لوگوں سے سیکھنا جو اس کے وارث ہیں۔۔یعن عرب. ۔۔عجیب بات ہے۔۔ہمارے نبی علیہ السلام عربی ہیں۔قرآن عربی ہے۔ صحابہ عربی ہیں۔ دین ہم ایرانی عجمیوں سے سیکھتے ہیں۔
ہجرت الوداع کے موقع پر حضور اکرم نے لوگوں سے کہا کہ اللہ کا پیغام پہنچ گیا تو سب نے کہا پہنچ گیا پھر حدیث 100 سال بعد یا اس کے بھی بعد بیان ہو رہی ہے دو چار لوگوں کے ذریعے جسے ہم اس راوی سے لے رہے ہیں تو پہلے لوگوں کو کچھ پتہ نہیں اس بارے میں
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
Ijmah o tawatir must have foundations. It has to start from the prophet. Ghamidi sahab disagrees on some aspects of that ijmah that do not have a prophetic foundation.
@@baigsulenan1571 کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
Qaiser bhai main apki boht ezzat krta hon. Per main pori zemadari se arz kr rha hon k ap ko Fiker e Ghamidi ka pora ilm nhi hai. Behter hota k ap kisi pe tankeed krny se pehle oska moaqef sahi se sun len. Ijma ko le k jo ap ne baat ki hai wo Ghamidi sahab ka moqef hi nhi hai. Similarly ahadees k mutaliq jo kuch ap ne byan kea wo unka moaqef nhi hai. Ghamidi sahab k moaqef ko smjhny k leay (jis se ap ikhtalaf kr skty hain per at least osko byan tou sahi kren) ap Imam Shafi ki Risalah and Imam Shatibi ki Muwafqaat ka mutala kren. Misinformation na phelaen ye ap k statue and status k khelaf hai. You are a credible person sir.
Qaisar bhai jo sawalaat aap k zehan may hn, mujhy umeed ha agar aap khulay dil sy ghamdi sahib ka moqaf samjhain gy to aik din aap ko samajh aa jaey gee! Is k leay aap ko mzeed tahqeeq krni pady gee k ghamdi sahib ijmaa owr twaater kis ko kehty hn! Sunnat ka taluq amli rawayt sy ha na k aqeedy sy! Agar aap aqaayd ki baat krty hn to ghamdi sahib imaaniaat ki baat krty hn! Aisa ghamdi sahib nay kabhi nahi kaha k hadees ki ahmiat nahi ha! Aap ko yeh samajhny ki zaroorat ha k hadees may hota kya ha! Yeh sb aap ko tb pata chly ga jb khuly dil sy ghamdi sahib ki fikar py tahqeeq krain gy
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
بھائی صاحب، علم الحدیث کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، یہ ایک مکمل نظام ہے جس میں ایسے مسلمہ اصول ہیں جو حدیث کی حیثیت طے کرتے ہیں، آسماء الرجال کا پورا علم ساتھ ہے جو روایت کرنے والوں کی ثقاہت، کذب یا نسیان وغیرہ کی معلومات فراہم کرتا ہے۔
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا۔
جزاک اللّہ تعالیٰ خیرا کثیرا
حدیث کا مطلب کیا ہے ؟
Outstanding
ظہر کی نماز میں کتنی رکعتیں ہیں کون بتایگا ۔
اللّٰہ تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ھے کہ وہ اپنی رسالات لوگوں کی روایت سے پہنچائے !!
کسی بھی نبی یا رسول نے اپنی کوئی کتاب نہیں لکھی ۔
بہت عمدہ علماء نہیں سمجھیں گے
منکرین حدیث ایڑیاں رگڑنے لگا گئے۔ جو اصول قرآن مجید کو جمع کرنے میں قائم ہوئے تھے انہیں اصولوں کے تحت حدیث کو بھی پرکھاجاتا ہے۔
@@asadviqar9946
تم لوگ دلیل والے نہیں ہو
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
@@ROGaddiction ان علینا جمعہ وقرآ نہ فاذا قاء ذا قر ا ناہ فا تبع قرآنہ۔ اللہ پاک نے نبی علیہ السلام کے وفات سے قبل قرآن مجید کو مکمل جمع کر دیا تھا تم لوگ قرآن مجید کو سمجھ کر نہیں پڑھتے راجہ جیسے نیم مولویوں کے بیانات سنتے رہے تو یہی ناقص ملی آپ کی
اب تو انہونے دانشسرا قائم کیا ہے اور اس کا افتتاح بھی ہو گیا۔ آپ کی کیا رائے ہے
Ittiba e sunnat ke thatey marta huwa samunder ko rawee apne kuze mein kayese jama kar sakte.....????
No one can offer prayers by hadith. It is a challenge.
Question to Qaiser Raja. Books of Hadees were written 100 years after Prophet (Peace be upon him). How the people offer prayers when no Hadees books were available?
@@slaveatif
نہایت ہی جاہلانہ سوال ہے، سوال ہی تمہاری کج علمی کا ثبوت ہے۔
@@slaveatif
اپنے شیخ کی تاریخ تو پڑھ لو
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
قرآن ایک مکمل کتاب ہے مکمل وضاحت والی کتاب ہے
@@baberjaved8028
ذرا قرآن سے بھینس حلال ہونے کا ثبوت دے دیجئے ۔
@@baberjaved8028
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
پہلے یہ سوچیں کہ دین کیا ہے ؟ کیا حدیث دین کا حصہ ہے ؟ نماز پڑھنا دین ہے لیکن کیا رفع الیدین کرنا دین ہے؟ہم نے بہت سی چیزیں دین کا حصہ بنا کر لوگوں کی زندگی تنگ کر دی ہے، ہر کوئی دین کی اپنی تعریف کرتا ہے ۔
قرآن کے مقابلے میں نہ بخاری acceptable ہے نہ تواتر نہ اجماع only Qur'an is perfect
Were good. شاباش
ابے تو کیا کرائے کے بندے لایا ہے جو شاباش اور واہ واہ کررہاہے ۔ تجھ سے بڑا جاہل میں نے نہیں دیکھا۔
@@baberjaved8028 منکرین حدیث
@@baberjaved8028
اور قرآن بھی تمکو ہضم نہیں ہوگا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں۔ کیونکہ قرآن میں ہی ہے وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىﭤ(3)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى
کیو ں تیرا باپ کرایہ دیا
یہ بات ان کو رٹائ گئ ہے اور ان کا مقصد حدیث کی اہمیت کو گٹھانا ہے
دین کی فہم پر تو صحابہ میں بھی آپس میں اختلاف ہو گیا تھا تو کیا وہ اجماع سے خارج ہو گئے تھے؟
عامدیت اور سیکولرازم دونوں اسلام کے خلاف ہے ۔ عامدی صاحب کا داماد کسی عالم دین کا سامنا نہیں کر سکتا ۔ فیصل وڑائچ جیسے سیکولرز ان کو استعمال کر رہے ہیں 😢😢😢
رسول کی اتباع اور اطاعت کے بغیر اللہ کی اطاعت نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اللہ نے دو قسم کی وحی نازل کی، (و انزل اللہ علیک الکتاب والحکمہ) کتاب اور حکمت دونوں وحی ہیں دونوں محفوظ ہیں جس کا نام ہے قرآن اور سنت، یعنی وحی کتاب کی تعلیم و تربیت کی گئی وحی سنت سے جو آج ہمارے پاس موجود ہے احادیث کی شکل میں، جس میں تلاوت قرآن،تعلیم القرآن، تزکیہ نفس قیامت سے پہلے کے حالات و واقعات کی خبریں اور حلال و حرام کی تفصیل اور دوزخ و جنت کی تفصیل بیان کی گئی ہیں یہ سب وحی قرآن کے علاوہ وحی ہے۔
یہ دونوں وحی شریعت کے مآخذ دین ہیں ان میں سے ایک کا بھی انکار کفر ہے۔
حکمت کے معنی۔ ایمان و اخلاق ہیں دلیل۔ سورت بنی اسرائیل آیات۔ 22۔ 39 تک پڑھ لیں نہ کہ حدیث وسنت۔ حدیث قرآن مجید کی تفہیم وتپعین اور اسوۂ حسنہ کا بیان ہے یہ علم النبی ہے۔
حکمت کے معنی ایمان واخلاق ہے دلیل سورت بنی اسرائیل آیات۔ /22۔ 39/ پڑھ لیں نہ کہ حدیث وسنت۔ حدیث قرآن وسنت کی تفہیم وتپعین اور اسوۂ حسنہ کا بیان ہوتاہے حدیث یہ علم النبی ہے
@@mohammedtoufiq-lk7wtجاہل انسان تمام سلف مانتے ہیں حکمہ جو نازل شدہ ہے نبی پر اسی کو سنت کہتے ہیں تمام سنت احادیث لکھ دی گئ ہیں غامدی تو دجال ہے اس زمانے کا۔
حکمت جو بھی ہو پھر بھی میری بات ثابت ہوگئی قرآن نے کہا ہے کتاب اور حکمت دونوں نازل شدہ ہیں دونوں وحی ہیں دونوں کی تعلم اور تلاوت کی گئی یعلمھم الکتاب والحکمہ، دونوں مآخذ دین ہیں نام بدلنے سے حقیقت میں فرق پڑتا، قرآن کہو یا کتاب حکمہ کہو یا سنت و حدیث کسی ایک انکار کفر ہے، فتنہ غامدی کو تکلیف ہوتی ہے قرآن کے علاوہ وحی مانتے ہوئے اس لئے متواتر احادیث جن کی نبی نے وحی سے خبر دی قیامت تک کے واقعات و حالات انکا انکار کرنے والے کذابون و دجالون ہیں۔
قرآن کو پورا پڑھ غامدی کے رٹے رٹائے فقرے علم نہیں ہے
کتب حدیث سے نماز کا مکمل طریقہ بیان کریں
Nobody can offer prayers by hadith
جاوید غامدی کا عملی تواتر بھی قولی تواتر سے ثابت ہوتا ہے جو لکھا ہوا ہے جس کو احادیث کہا جاتا ہے۔ جب عملی نماز سیکھی جاتی ہے تو بتایا جاتا ہے نبی اس طرح نماز پڑھا کرتے تھے اور نماز کے اندر کیا پڑھتے اور نیت کیسے کرتے تھے۔ مسلمانوں کا عملی تواتر قولی تواتر سے ثابت ہے۔ جس کو لوگوں نے زبانی یاد رکھا ہے اور لکھ بھی رکھا ہے جس کو علماء نے حدیث کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔ منکرین حدیث کے پاس اپنے عمل کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
سنت پریکٹکل عمل لکھا نہیں جا تا امت کے ہر شخص کو پتہ ہے نسل در نسل منتقل ہورہاہے
@@mohammedtoufiq-lk7wtتمام پریکٹیکل علوم ثبوت کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ تمام دجال غامدی کی 26 سنتیں ذرا دکھاوں کہاں ہیں
سنت پریکٹکل عمل پچھلے انبیاء سے چلا آرہا ہے نسل در نسل یہ سب کو پتہ ہے اسکو لکھتے کی ضرورت نہیں
Akhbar e Ahaad 😂
سنت کہتے کسی کا طریقہ۔۔مثال. کیا لوہار نے کوئی کتاب پڑھ کر یہ کام سیکھا۔ یا اپبے والد کو دیکھ لر۔۔۔۔اب ہم نے دین ان لوگوں سے سیکھنا جو اس کے وارث ہیں۔۔یعن عرب. ۔۔عجیب بات ہے۔۔ہمارے نبی علیہ السلام عربی ہیں۔قرآن عربی ہے۔ صحابہ عربی ہیں۔
دین ہم ایرانی عجمیوں سے سیکھتے ہیں۔
ہجرت الوداع کے موقع پر حضور اکرم نے لوگوں سے کہا کہ اللہ کا پیغام پہنچ گیا تو سب نے کہا پہنچ گیا پھر حدیث 100 سال بعد یا اس کے بھی بعد بیان ہو رہی ہے دو چار لوگوں کے ذریعے جسے ہم اس راوی سے لے رہے ہیں تو پہلے لوگوں کو کچھ پتہ نہیں اس بارے میں
حضرت نے جو لوگوں سے کہا آپ نے کہاں سے سنا اس کا کہاں ثبوت ہے۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
@@breaksilence492 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لوگوں سے کہا اور جتنے لوگوں سے کہا وہ تو تاریخ میں ثبت ہے، کتابوں میں قول موجود ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہاں صرف روایت کے طور پر ایک دو بیان کر رہے ہیں، اتنی بڑی تعداد ہے جس کا جھوٹ نہیں بنا سکتی، یہ بات اتنی روشن ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں۔ اس میں ایک راوی دو راوی نہیں ہیں کہ میں نے ان سے سنا، انہوں نے ان سے سنا، دو چار راوی کا بیان اور رسول اللہ کا بیان جو کہ ایک بڑی تعداد بیان کر رہی ہو، فرق نہیں ہوتا۔ اب یہ نہیں کہنا کہ یہ کہاں سے سنا کہ قائد اعظم پاکستان کا بانی ہیں۔ اگر ابھی بھی کوئی الجھن ہے تو قرآن لکھنے میں سنانے میں بھی 'قال رسول اللہ' بول کر دیکھیں، پھر لوگ آپ کو بتا دیں گے فرق کیا ہے بہت سارے لوگوں کے بیان میں اور ایک دو چار کے بیان میں۔
Ijmah o tawatir must have foundations. It has to start from the prophet. Ghamidi sahab disagrees on some aspects of that ijmah that do not have a prophetic foundation.
معزرت کے ساتھ میرے بھائی آپ اپنا موقف واضح نہیں کر سکے یا پھر غامدی صاحب کی بات آپ صجح طور پر سمجھے بغیر تنقید کر رہے ہیں۔
بہت خوب
@@baigsulenan1571
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
@@mohammedtoufiq-lk7wt
ہاں بانٹ بھئی شاباشی بانٹ۔ کرائے کے ٹٹو
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
کیوں تیرا باپ کرایہ دیا مجھے
Qaiser bhai main apki boht ezzat krta hon. Per main pori zemadari se arz kr rha hon k ap ko Fiker e Ghamidi ka pora ilm nhi hai. Behter hota k ap kisi pe tankeed krny se pehle oska moaqef sahi se sun len. Ijma ko le k jo ap ne baat ki hai wo Ghamidi sahab ka moqef hi nhi hai. Similarly ahadees k mutaliq jo kuch ap ne byan kea wo unka moaqef nhi hai. Ghamidi sahab k moaqef ko smjhny k leay (jis se ap ikhtalaf kr skty hain per at least osko byan tou sahi kren) ap Imam Shafi ki Risalah and Imam Shatibi ki Muwafqaat ka mutala kren. Misinformation na phelaen ye ap k statue and status k khelaf hai. You are a credible person sir.
Qaisar bhai jo sawalaat aap k zehan may hn, mujhy umeed ha agar aap khulay dil sy ghamdi sahib ka moqaf samjhain gy to aik din aap ko samajh aa jaey gee! Is k leay aap ko mzeed tahqeeq krni pady gee k ghamdi sahib ijmaa owr twaater kis ko kehty hn!
Sunnat ka taluq amli rawayt sy ha na k aqeedy sy!
Agar aap aqaayd ki baat krty hn to ghamdi sahib imaaniaat ki baat krty hn!
Aisa ghamdi sahib nay kabhi nahi kaha k hadees ki ahmiat nahi ha!
Aap ko yeh samajhny ki zaroorat ha k hadees may hota kya ha!
Yeh sb aap ko tb pata chly ga jb khuly dil sy ghamdi sahib ki fikar py tahqeeq krain gy
بخاری جیسی کتابوں کا دین اسلام سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے
چل دفعہ ہو منکر حدیث ۔ کافر۔
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا
حدیث میں اگر 1 فیصد بھی شک ہے کہ وہ کسی نے اپنی طرف سے گھڑی ہوگی تو یہ اسلام کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن ایک مکمل ضابطہ اور ہدایت کی کتاب ہے۔
بیشک درست فرمایا آپ نے یہ ملا نہیں سمجھیں گے
Yah sabita hyat kya .....world politics ka liya bi koi guides deta ya waha ghamdi ka deen mar jata.....
بھائی صاحب، علم الحدیث کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے، یہ ایک مکمل نظام ہے جس میں ایسے مسلمہ اصول ہیں جو حدیث کی حیثیت طے کرتے ہیں، آسماء الرجال کا پورا علم ساتھ ہے جو روایت کرنے والوں کی ثقاہت، کذب یا نسیان وغیرہ کی معلومات فراہم کرتا ہے۔
یہ 1 فیصد شک والا اصول کن بنیادوں پر ہے۔
کاکوشاہ سے جاوید احمد غامدی تک کا سفر
پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کا کوشاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی کہلاتاتھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنانہ کرسکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکوشاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کررہا تھا، اس کی انگریزی تویوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طلاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پروہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جد وجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کرکے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا۔