Javed ghamadi is just love it allah aap ko sehat aur tandrusti day all time great for me I don't think any other better prayer than this prayer allah qabool farmaey aameen aurangzeb butt from Switzerland daska sialkot siranwali ❤
You probably dont care at all but does someone know of a method to log back into an Instagram account?? I was dumb forgot my account password. I would appreciate any tricks you can offer me!
اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمبین میں رکھا (سورة یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”امام ِمبین زاتِ علی ہے‟ یعنی دَرخشاں اِمام- ”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالت رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نزول مولا علی کے اٌنگشتری حالت رکوع میں فقیر کو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ استمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور زاتٍ علی ہے اور اِن مومنین میں ولایت کا سلسلہ چلا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اور رسول- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو توشامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- ”کیا تم ابلیس اوراٌس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالانکہ میں نے اًن کو نہ توآسمانوں اورزمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اًن کی پیدایش پراوراللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو- قران اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور وارث أُولِي الْأَمْر- ” اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلامِ اللهُ ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ کے درمیان دینِ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ ابراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- اِسی لے اِمام ظلمِ اکبراورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم، کیونکہ شیطان کو معصوم ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں (سورة سجدہ آیت-24)- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدرآیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ آن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اٍس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہورہوگا تو زمین سے خضراور اِلیاس اورآسمان سے اِدریس اورعیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (وارثِ انجیل) نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی (وارثٍ قرُان) کے پیچھے‟ (صحاح ستہ) مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطفےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ علیہ سَلام پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آئمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- حضور نے فرمایا، ”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرُان اور دوسری میری عِطرت (اہلِ بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ قیامت میں حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں، جوشخص اِن دونوں سے تمسّک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہ یقیناً ہلاک ہو جاے گا، جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے‟ (صحاح ستّہ)- ”اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو‟ (سورة توبہ آیت-119
اِمامت بہ نفسِ قرُان ”اللہ جسے چاہتا ہے خلق کرتا اور دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اِختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورةالقَصَص آیت-68)- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسَانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلِم اکبر اورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87)، یعنی ہر نبی یا رسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پر اِختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں‟ (سورة سَجدہ آیت-24)- یعنی بے صبرا اورشک کرنے والا اِمام نہ ہو گا- نیز اللہ جھوٹے اِمام کی مدد نہیں کرتا (سورة القَصَص آیت-41)- ”اور ہم نے ارادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو امام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورةالقَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو آنے والے وفت میں زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة َّالصَّافات آیت-107)- کربلا میں آلہِ مُحَمَّد کی قربانی زبحِ عظیم تھی جو کہ دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی خاندانِ رسالت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمامُ اُلناس، ہادیِ کل اور اِمام اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامُ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمامُ اُلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا نبوّت، رسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیۓ گے- ”( مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- اِسی طرح مولا علی کی زات گواہ ہے حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کی نبوّت پر- ارشاد ہوا، ”کیا کوئ اِس (مُحَمَّد) کی مانند ہو سکتا ہے جو اپنے ساتھ دو گواہ لے کر آیا، ایک قرُان اور دوسرا وہ جو اِس کی پیروی کرتا ہے، جس کا ذکر کتابِ موسیٰ تورات میں ہے کہ وہ (مُحَمَّد) اِمام بھی ہوگا اور رحمت بھی؟ ۔ ۔ ۔‟ (سورة ھود آیت-17)- ”جو (مُحَمَّد) صدق لے کرآیا اور جِس نے اُس کی تصدیق کی وہ دونوں متّقی ہیں‟ (سورة زمر آیت-33)- اِس آیت کے زیل میں حضورنے فرمایا،”یہ دوسرا شخص علی ابن ابی طالب ہے‟- اِسی لے مولا علی کو اِمام المتقین بھی کہا جاتا ہے خلافِ عدل ہوگا اگر اِمام اپنے دور کا عالم ترین انسان نہ ہو- ”کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اُن سے کہہ دیں کہ میرے لیے ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے‟ (سورة الرّعد آیت-43) اور حضور نے فرمایا، ”دوسرا شخص زاتِ علی ہے‟- اِس آیت کے زیل میں مولا علی نے فرمایا، ”میری سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ لا شریک نے مجھے نبوّت کی گواہی میں شریک بنایا‟- قرّان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سلام) کا مقام سب سے بلند ہے، کیونکہ حضور نے فرمایا، ”میں عِلم کا شہر ہوں اورعلی اس کا دروازہ‟- ”قرُان کی مَعنویت تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر‟ (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مفام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی، امام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجا ست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزَاب آیت-33)- ”اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمُبین میں رکھا‟ (سورة یٰسین آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمام ِمبُین زاتِ علی ہے‟ یعنی درخشاں اِمام! قرُان پڑھنا اور حفظ کرنا باعثِ ثواب ہے لیکن، ”۔ ۔ ۔ قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں‟ (سورة انکبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة مجادلہ آیت-11)- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیۓ جاتے یا مٌردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- یعنی جس کے سینے میں قرُان ہوگا اُس کی طاقت قرُان کے برابر ہوگی- اللہ کے بناے آئمہ میں اختلاف نہیں ہوتا- راسخ کے لے لازم ہے اُس کی حالت میں تغٌّیر نہ ہو یعنی جیسا بچپن ویسی جوانی اور بڑھاپا- جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) عَلیم ہستی تھے (سورة آلِ عِمرَان آیت-46) اِسی طرح اِمام کی زات میں عِلم ہوتا ہے Continue on next comment
وارثانِ قران بہ نفسِ قرُان قرُان میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطرآیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اَگر وارث پرمصیبت آجاۓ تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (یعنی جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَلِعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61) وہاں وارثانٍ قرُان عِلم کا شہر بابُل عِلم اور رَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)- ”۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو‟ (سورة النّحل آیت-43)- قرُان ذکر ہے (سورة الحِجر آیت-9) اور وارث اہلِ ذکر- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیے جاتے یا مًردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں عِلم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں (سورة انکبوت آیت-49)، یعنی أُوتُوا الْعِلْمَ کی طاقت قرُان کے برابر ہے- ”أُوتُوا الْعِلْمَ کےدرجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے‟ (سورة مُجادلہ آیت-11)- قرُان واضع نور ہدایت ہے (سورة النِّسَاء آیت-174) اور وارث مجسمِ نورِ ہدایت- قرُان مُهَيۡمن (اَمین، غالب، حّاکم، محّافظ،، نگہبان) ہے (سورة المَائدة آیت-48) اور وارث اَمین، کائنات کے حّاکم، محّافظ، نگہبان اور اّلا کُل ِغالب ہیں- قرُان بے عیب ہے یعنی اِس ہیں کوئ کجی نہیں (سورة الزُّمَر آیت-28) اور وارث ہرعیب سے پاک- قرُان معصوم ہے یعنی باطل کا اِس کے پاس گزر نا ممکن ہے (سورة فصِلَت آیت-42) اور وارث بھی معصوم ہستیاں ہیں- بہ کتاب بصیرت، حُجت، عقل اور فکر ہے (سورة الأعرَاف آیت-52) اور وارث صاحبِ بصیرت اور حُجّت اللہ ہیں- قرُان وَاضح بیان اورمُسلمانوں کیلے ہدایت، خوشخبری اور رحمت ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث رحمت العَالمین اور ہادیِ کُل- قرُان حکمت سے سرشار ہے (سورة یٰس آیت-2) اور وارث حِکمت کی معراج- یہ کتاب برحق بے یعنی اِس ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں (سورة فَاطِرآیت-31) اور وارث اہلٍ حق کیونکہ جب نجران کےعیسَایوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کا معاملہ طے نہ ہوسکا تو اللہ کے اِس حکم پر حضور سے مباہلا ہوا، ”۔ ۔ ۔ تم اپنے بیٹوں کو لاو اور ہم اپنے بیٹوں کو لایں، تم اپنی عورتوں کو لاو اور ہم اپنی عورتوں کو لایں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لایں اور پھراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)، اور اِس جنگِ صداقت میں حضور نے صرف صدیق ہستیوں کو ساتھ لیا اور مولا علی، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لے کر مباہلے کے لے تشریف لاے جب آپ کے 9 حرم تھے اور بیٹے ابرھیم زندہ تھے- اٍس موقعہ پرعیسَایوں کے بڑے پادری عبدُل مسیح نے مباہلہ کرنے سے انکارکر دیا اور جزیہ دینا قبوُل کیا- اِس واقعہِ مباہلے کو اللہ نے قصہِ حق کہا (سورة آلِ عِمرَان آیت-62)- قرُان عظیم بے یعنی بلند رتبے والا (سورة الحِجرآیت-87) اور وارث نباءعظیم {عظیم خبر: غدیر خم میں اعلانِ ولایت مولا علی (علیہ سَلام)}- قرُان مبین بے یعنی درخشاں اورمبالغےسے پاک کلام (سورة یٰس آیت-69) اور وارث اِمام ِمبین (سورة یٰس آیت-12)- یہ کتاب بے مثل بے یعنی تمام جن واِنس مل کرقرانی سورتوں کی مثل ایک سوره بهی نہیں لا سکتے (سورة یُونس آیت-38) اور وارث بے مثلِ- قرُان مجید ہے یعنی جلیل اُلقدر (سورة ق آیت-1) اور وارث پیکرٍ اقدارٍآعلیٰ- قرُانَ تبیان ہے یعنی اپنی بات منواتا ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث ہر محاز پرغالب رہنے والے- قرُان فرقان بے یعنی حق اور باطل میں فیصلا کرنے والا (سورة الفُرقان آیت-1) اور وارث حق اور باطل کو عیاں کرنے والے- وقعہ کربلا کے بعد سرِ مبارک اِمام حسین (علیہ سَلام) کا نوکٍ نیزہ پر قرُان کی تلاوت کرنا اِس اَمر کی روشن دلیل ہے- قرُان کریم ہے یعنی بڑے رتبے والا (سورة الواقِعَة آیت-77) اور وارث مرتبے کی معراج- قرُانَ اہِلِ اِیمان کے لئے شّفا (پیاس بجهانا یعنی حاجت روا) ہے (سورة فُصِلَت آیت-44) اور وارث مالکِ شّفا- قرُان کا مکمل سمھجنا مشکل ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-7) اور وارث مشکل کشا ہیں- قرُان طاہر ہے نیز اِس کی معنویت کی گہرائ تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة واقعہ آیت-79) اور طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے، کیونکہ مولا علی، اِمام حسن اور حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضور کے ساتھ چادر کے اندر موجود تھے جب ارشاد ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33 Continue on next comment
شیعہ اور سنی فرقے حضور کی وفات کے بعد وجود میں آے- شیعہ حضور کی سنت اہل بیت سے لیتے ہیں جن کی سچائ کی گارننٹی اللہ نے لی اور اس کا اتباع کرتے ہیں نیز نبوت کے بعد ولایت کو مانتے ہیں اور ان آیمہ کو تسلیم کرتے ہیں جن کو حضور نے خلیفہ نامزد کیا اور اس کی دلیل میں قران کی یہ آیات پیش کرتے ہیں "۔(1) - صوف اورصرف تمہارے ولی (حاکم) اللہ‘ رسول اور وہ مومنین ہی ہیں جو نماز پڑھتے اوردیتے ہیں زکوٰة حالتِ رکوع میں"(سورةالمَائدة: 55)- حالتِ رکوع میں زکات مولا علی نے دی- "جس نے ولی مانا اللہ اس کے رسول اوران مومنین کوتو شامل ھوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں"(سورة المَائدة: 56)- شیعہ مومنین کا گروہ جس کا مہور زات علی ہے امام مانتے ہیں ۔(2)- حج سے واپسی پر جب حکم ھوا کہ " پہنچا دواس پیغام وہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوی کام نہ کیا"(سورةالمَائدة: 67)- حضور نےغدیرخم میں لاکھوں حاجیوں کے مجمعے میں اعلان کیا کہ‘"جس جس کا میں مولا(حاکم) اُس اُس کا علی مولا "- شیعہ مولا علی (علیہ السلام) کو حضور کے بعد امام مانتے ہیں اور ان ہی کا اتبع کرتے ہیں ۔(3)- زوجہ رسول اُمِ سلمیٰ (رضی اللہ علیہا) کے گھر جب سورہِ احزاب کی آیت-33 کے اِس حصے کا نزول ہوا ”صرف اور صرف اللہ نے ارادہ کر لیا اے اہل بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اِس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے (إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذۡهِبَ عَنڪُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيرَ)‟ تو حضور کے ساتھ امام علی (علیہ سلام)‘ بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا)‘ امام حسن اور حسین (علیہ سلام) چادر کے اندر موجود تھے (صحاح ستہ)- شیعہ ان پاک ہستیوں کا اتبع کرتے ہیں ۔(4)- حضور نے جابربن عبدللہ کو اپنے 12 خلافہ کے نام بتلاے (علی بن ابو طالب‘ حسن بن علی‘ حسین بن علی‘ لی بن حسین‘ محمد بن علی‘ جعفر بن محمد‘ موسی بن جعفر‘ علی بن موسی‘ محمد بن علی‘ علی بن محمد‘ حسن بن علیاور محمد بن حسن) نیز فرمایا کہ‘ "میرا سلام پہنچانا میرے پانچویں نایب محمد باقر کو جو انہوں نے پہنچایا- "شیطان نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا یعنی سب کو بہکایا سواے مومنین کے چھوٹے گروہ کے" (سورة سَبَإ: 20) - یعنی مومنین کا ایک چھوٹا گروہ معصوم کی منزلت پر ہے- ”جن کو ہم امام بناتے ہیں وہ ہمارے امرسے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متقی ہیں‟ (سورة سجدہ آیت-24)- اسی لیے شیعہ ان 12 آیمہ کو معصوم مانتے ہیں- "۔(5)- اور ہم نے قران کے وارث بناے مصطفےٰ ( چنے ھوے) بندے [سورة فَاطِر: 32]- اللہ مصطفے بندوں پر سلام بھیجتا ہے (سورة مل:59)- یعنی وارثِ قران مرتب علیہ سلام پرہیں- اسی لیے مسجد نبوی میں ان 12 آیمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام کندہ ہے ۔(6) قیامت کے دن ہربندے کو اس کےامام کےساتھ بلایں گے (سورة بنیۤ اسرآییل: 71)- یعنی جبتک ایک بھی بندہ اس دنیا میں موجود ہےامام کا وجود ھونا ضروری ہے- شب قدر میں ملایکہ کا نزول ھوتا ھے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا امر (سورة القَدر: 4)- جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ امر کے ہونے کی جن کے پاس امرآتا ہے- شیعہ اس ہستی کو جن کے پاس امرآتا ہے امام محمد مھدی (علیہ السلام) مانتے ہیں جو کہ حالت غیب میں ہیں جس طرح حضرت ادریس' خضر' الیاس اور عیسیٰ (علیہ السلام) - "کیا وہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ‘ (پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں (سورة الأنعَام: 158)- اس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا کہ‘ "میرے 12 ویں خلیفہ کا جب ظہور ھوگا تو زمین سےحضرت خضر اورالیاس (ع س) اورآسمان سے حضرت ادریس (ع س) (سورة مَریَم: 56 ،57)‘ اور عیسیٰ (ع س) [سورة آل عِمرَان: 55] آیں گے امام مھدی (ع س) کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (ع س) نماز پڑھیں گےامام مھدی (ع س) کے پیچھے" "۔(7)- مومنو اطاعت کرو اللہ‘ رسول اور اوللعمر کی" (سورة النِّسَاء: 59) - یعنی اوللعمر کی اطاعت اسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ اور رسول کی- شیعہ ان 12 آیمہ کو وللعمر مانتے ہیں اور دین اسلام کے احکامات میں ان کی اطاعت کرتے ہیں ۔(8)- شیعہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی نظر میں انسانی رشتوں کو نہیں بلکہ کردار کو فضیلت حاصل ہے‘ جس طرح اللہ نے زوجہ فرعون آسیہ کو مومنوں کے لیے نشانی فرار دیا (سورہ تحریم آیت-11) اور دو نبیوں حضرت نوح اور لوت (علیہ سلام) کی بیویوں کو کافروں کے لے نشانی (سورہ تحریم آیت-10) - شیعہ اسی نظر سے صحابہ کا احترام کرتے ہیں- ۔ جبکہ سنی فرقہ حضور کی سنت صحابہ سے لیتا ہے لیکن ان میں سنت پر اختلافات پاے جاتے ہں - مثال کے طور پر یہ ہاتھ کھول اورباتدھ کر نماز پڑھتے ہیں-
Allah ki ibadat aise karo jaise ki tum use dekh rahe ho agar tum use nahi dekh sakte to allah ki ibadat aise karo ki vo tuje dekh raha hai isse saabit hota hai ki duniya main allah kaa didar jaaiz hai aur mumkin bhi hai yahi sufiya e ahle sunnat Val jamat kaa aqida hai
”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حَاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نذول مولا علی (علیہ سَلام) کے اُنگشتری حالتِ رکوع میں فقیرکو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ اِستعمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور مولا علی (علیہ سَلام) کی زات ہے جہاں سے وَلایت کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اورحضرت مُحَمَّد (ﷺ)- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56 10ِ ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا کہ ”پہنچا دواُس پیغام ِوہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئ کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورةالمَائدة آیت-67)- لِہٰـزا غدیرِ خم میں حضور نے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا کہ ”جِس جِس کا میں مولا (حَاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اعلانِ غدیر پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3 قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور اِس کے وارث أُولِي الْأَمْرِ- ”اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اورأُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خٌلّافہ کے نام بتلاے جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ اُنہوں نے پہنچایا- قرُان میراث ہے اور اللہ نے اٍس کا وارث مصطفٰےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطقےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ ’علیہ سَلامʽ پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آیمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلام اُلله ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ میں دینٍ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)- جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اُس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اورالیاس اورآسمان سے ادریس اورعیسَیٰ آیں گے میرے بارویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پراور عیسَیٰ نماز پڑھیں گے اُن کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ابلیس نے اللہ کو مان کراٌس کے خلیفہ کا انکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گا؟
”۔ ۔ ۔ ہم نے تمھاری طرف بھیجا ذکر۔ ۔ ۔ اور وہ ہے میرا رسول ۔ ۔ ۔‟ (سورة الطّلاَق آیت-10، 11)- ”ہم نے زبور میں لکھ دیا کہ ذکر (رسول) کے بعد اِس زمین کے وارث میرے صالح بندے ہونگے‟ (سورة الأنبیَاء آیت-105)- اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو (سورة النّحل آیت-43)- ذکر معنی رسول اور اہل معنی: اولاد (سورة هُود آیت-45)، بھائ (سورة طـٰه آیت-29، 30)، سَوَار (سورة الکهف آیت-71) اور مثل (سورة الفَتْح آیت-29)- اولاد کے زُمرے میں حسنین شامل کیونکہ حضور جدّالحسن وحسین ہیں، بھائ کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) شامل کیونکہ رسول نے دو موقوں پر مولا علی کو اپنا بھائ بنایا، سَوَار کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اور حسنین شامل کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام) نے دوشِ رسول پر چڑھ کر کعبہ میں بتوں کو توڑا اورعید کے دن حضور حسنین کے لیے سواری بنے، مثل کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اورآپکی وہ اولاد شامل جس میں اِمامت قایم ہوئ اور اِن ہی صدیق ہستیوں کو بیٹوں اور نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کر گے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61 ”صرف اورصرف تمہارے ولی (حاکم) اللہ، رسول اور وہ مومنین ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورةالمَائدة آیت-55)- حالتِ رکوع میں زکات مولا علی نے دی- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- حج سے واپسی پر جب حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغام ِ وہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوی کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-67) تو حضور نےغدیرِخم میں لاکھوں حاجیوں کے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- حضور کی زات تمام عالمین کے لے رحمت ہے، یعنی تمام عالمین پر مہیت ہے (سورة الأنبیَاء آیت-107)- لہٰزہ مولا علی کی اِمامت بھی تمام عالمین پر مہیت ہے! اعلانِ ولایت پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3)- مولا علی کی ولایت اللہ کی نعمت ہے- اِسی لے فرمایا، ”تم سے ضرور پوچھوں گا نعمتوں کے بارے میں‟ (سورة التّکاثُر آیت-8)- ”۔ ۔ ۔ کسی کو جائز نہیں چاہے مدینے یا باہر کا رہنے والا ہو کہ رسول اور آپکے نفس کی مخالفت کرے‟ (سورة التّوبَة آیت-120)- مولا علی (علیہ سَلام) نفسِ رسول ہیں کیونکہ اِن ہی کو نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کرگۓ- ”کیا تم ابلیس اور اُس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالنکہ میں نے اُن کو نہ تو آسمانوں اور زمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اُن کی پیدایش پر اور اللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو حضور نے جابربن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو 12 اِماموں کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسَىٰ بن جعفر، علی بن موسَىٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد بن حسن اور فرمایا، ”میرا سلام پہنچانا میرے پانچویں خلیفہ مُحَمَّد باقر کو‟ جو انہوں نے پہنچایا- ”اِبلیس نے اپنا وَعدہ سچ کر دکھایا یعنی سب کو بہکایا سواے مومنین کے چھوٹے گروہ کے‟ (سورة سَبَإ آیت-20)- یعنی مومنین کا ایک چھوٹا گروہ معصوم کی منزلت پر ہے- ”۔ ۔ ۔ پھر ہم نے قرُان کے وارث بناے مصطفےٰ (چُننے ہوے) بندے ۔ ۔ ۔‟ (سورة فَاطِر آیت-32)- اللہ مصطفےٰ بندوں پر سَلام بھیجتا ہے (سورة النَّمل آیت-59)- یعنی وارثِ قرُان مرتبِ علیہ سَلام پر ہیں اور صَالحہ ہستیوں پر نماز میں سلام پڑھا جاتا ہے- ”اُس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خَلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اور عیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟- ”اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْر (صاحبانِ اَمر) کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59) - یعنی أُولِي الْأَمْر ہستیوں کی اِطاعت اِسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ اور رسول کی- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جنکو نامزد کیا رسول نے- شیطان نے اللہ کو مان کر اٌس کے خَلِیفہ کا اِنکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گا
When you have no Knowledge which is a blessing of ALLAH SWT, you start using Iqwal e zarrian (beautiful and difficult words) to Impress people, This usually happens when you have no Knowledge and only information gathered from saying of people, May ALLAH SWT give more Hadiath to believers.
دینِ اسلام بہ نفسِ قرُان دِین کے معنی ہیں آئین اور قانون- اللہ کے نزدیک اگر کوئ دِین ہے تو وہ اسلام ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-19)- اِسلام کے معنی ہیں اللہ کی حَاکمیت کو تسلیم کرنا اور اُس کے بناے آئین اور قوانین پر عمل کرنا- دِینِ اِسلام منجانب اللہ ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-83)- یہ دِینِ حنیف ہے (سورة البينة آیت-5)، یعنی سیدھا دِین- یہ دِینِ قَيِّمُ ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی معیاری دِین- یہ دِینِ وَاصب ہے (سورة النہل آیت-52)، یعنی ہمیشہ رہنے والا- یہ دِینِ حق ہے (سورة التوبة آیت-33)، یعنی سچٌا دِین- یہ دِینِ فطرت ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی اللہ کے بناے سانچے میں ڈھلا ہوا- یہ دِینِ مصطفےٰ ہے (سورة البَقَرَة آیت-132)، یعنی چُنّا ہوا دِین- یہ دِینِ خالص ہے (سورة الزُمر آیت-3)، یعنی کَھرا دِین- یہ مرتَضَىٰ دِین ہے (سورة النور آیت-55)، یعنی افضل ترین چُنّا ہوا- مصطفےٰ، مجتبےٰ اور مرتَضَىٰ اِن تمام الفاظ کا مطلب ہے چُنّا ہوا، لیکن درجہ بندی میں مصطفےٰ سے مجتبےٰ اَفضل اور مجتبےٰ سے مرتَضَىٰ اَفضل- ”اللہ جسے چاہتا ہے دِین کے لے چُنتا ہے (نبی، رَسول یا اِمام)، بَندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- نبّوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیے گۓ- ”اور (مُحَمَّد) اُس وقت کو یاد کرو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آل عِمرَان آیت-81)- ”بے شک ہم نے نوح اور اِبراھیم کو بھیجا اور اُنکی اولاد میں نبّوت اور کتاب کو رکھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة الحدید آیت-26)- حضرت ھود، لُوطً اور اِبراھییم (علیہ سَلام) اولادِ حضرت نوح (علیہ سَلام) میں سے تھے، نیز حضرت إِسْمَاعِيلَ، اسحاق، یعقوب، یوسف، داؤد، سلیمان، ایوب، زَكَرِيَا، يَحْيَىَٰ، إِلْيَاسَ، الْيَسَعَ، يُونُسَ، موسیٰ، ہارون اور عِيسَىٰ (علیہ سَلام) یہ سب اَنبياء اولادِ اِبراھیم میں سے تھے (سورة الأنعام آیت-84 تا 87)- حضرت نوح، اِبراھیم، موسیٰ اور عیسَیٰ (علیہ سَلام) سب دینِ اسلام کے پیروکار تھے (سورة الشورا آیت-13)- ”یہی ورثہ اِبرھیم نے اپنے بیٹوں کو چھوڑا اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ، اللہ نے تمھارے لیے دینِ اسلام کو چُن لیا اور تم مسلمان رہ کر ہی مرنا‟ (سورة البَقرة آیت-132)- پس اللہ نے دین کی تبلیغ کے لے اَنبیاء کو چُنَا اور اُن کی اولاد در اولاد میں اِس سلسلے کو قایم رکھا اُمت در اُمت نہیں! اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبّوت و رِسالت پر فائز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقَرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلمِ اکبر اور ظلمِ اَصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اوراَپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبّب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87، 88)، یعنی ہر نبی یا رَسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”بیشک اللہ نے چُن لیا آدم، نوح، آلِ اِبراھیم اور آلِ عِمرَان کو سب جہان والوں میں سے‟ (سورة آل عِمرَان آیت-33)- بہ نفسِ قران اِسم عِمرَان جس کا ذِکر اِس آیتِ مبارکہ میں آیا اُس کو تین ممکنہ ہستیوں سے منصوب کیا جا سکتا ہے: حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) کے والد، حضرت مَریَم (سلام اللہ علیہا) کے والد اور مولا علی (علیہ سَلام) کے والد حضرت ابو طالب (علیہ سَلام) جن کا نام عِمرَان ہے- حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) سے اولاد نہیں ہوئ اور حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) نے شادی نہیں کی، اِس لے لفظ آل اِن ہستیوں سے منصوب نہیں کیا جاسکتا- لِہٰـزا ہمیشہ رہنے والی اِمامت کا سلسلہ جس کا وعدہ اللہ نے اولادِ اِبراھیم میں رکھنے کا کیا وہ آلِ عِمرَان (آلِ ابو طالب) ہیں- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے مُتّقی ہیں‟ (سورة السجدة آیت-24)- ”اور ہم نے اِرادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو اِمام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورة القَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة الصَّافات آیت-107)- کربلا میں قربانی زبحِ ِعظیم تھی جو کہ روشن دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی اہلِ بیت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کٌل اور اِمام اٌلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامِ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِماُم اٌلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے آپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- حضرت مُحَمَّد (ﷺ) آخری نبی ہیں (سورة الأحزاب آیت-40)- نبّوت اور اِمامت کا سلسلہ {حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اور اِمام مھدی (علیہ سَلام)}، حضرت ابراھیم و إِسْمَاعِيلَ (علیہ سَلام) سے جڑا ہے Continue on next comment
”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (دین) کو بجھا دیں، لیکن میں اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہوں گا اگرچہ کفٌار کتنا نا پسند کریں‟ (سورة التوبة آیت-32)- 10 ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغامِ وہی کو جو آپ کے رَب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا میری رِسالت کا کوی کام نہ کیا اور ﷲ تمھیں انسانوں کے شرسے بچاے گا، بیشک اﷲ کَافروں کو ہدایت نہیں کرتا‟ (سورة المَائدة آیت-67)- لِہٰـزا حضور نے غدیرِ خُم میں ممبر پر مولا علی (علیہ سَلام) کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اِعلانِ ولایتِ علی کے فوراً بعد یہ وہی نازل ہوئ، ”۔ ۔ ۔ اج کے دن اللہ نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین ِاسلام مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-3 دینِ اِسلام کی بنیاد قرُان ہے اور قرُان میراث ہے، نیز اللہ نے اِس کا وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اگر وَارث بیمار ہو جاے تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلُیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5)، وہاں وارثانٍ قرُان أُولِي الْأَمْر ہیں- ”اے اِیمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اٍن 12 آئمہ میں دینٍ اسلام میں اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ اِمامتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اٌن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے اِیمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اِن سے) کہہ دو تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہور ہو گا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اورعیسَیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسَیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ”دین میں جبر نہیں ۔ ۔ ۔‟ (سورة البَقرَة آیت-256)- ”تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-103)- ”جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ بن گئے یقیناً اُن سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، اُن کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ اّنہوں نے کیا کچھ کیا ہے‟ (سورة الأنعَام آیت-159)-- ”جِس نے اِسلام کے لے اپنے سینے کو کھُولا وہ اپنے پروردگار کے نور (دین) پر ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الزمرآیت-22)، نیز ”جِس نے بھی اِسلام کے سوا کوئ اور دین چاہا اٌسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“ (سورة آلِ عِمرَان آیت-85)- جنہوں نے اللہ کی حُجّت کو مان کر اپنی حُجّت بنائ اُن پر اللہ کا غضب اور عذاب 3ہے (سورة الشورہ آیت-16
غامدی صاحب نے سمجھا ہی نہین ہے کہ اللہ نے صرف قرآن کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ قرآن بہترین حدیث ہے تو اسکے بعد اب تم کونسی حدیث کو مانوگے جسکا مطلب واضح ہے کہ کسی حدیث کو بھی نہیں ماننا چاہئیۓ۔ جب اللہ نے قرآن کے سات سنتوں اور حدیثوں کی پیروی کرنے کو شامل ہی نہیں کیا ہے تو انسانوں کی یہ سنی سنائ باتیں جنکے سچ ہونے کا کوئ بھی ثبوت نہیں ہوتا ہے کیونکہ ہر راوی کے دو دو گواہ ہوتے ہی نہیں ہیں اور کسی نے بھی یہ حدیثیں لکھنے جمع کرنے اور ایک دوسرے کو سناتے وقت اللہ،کی قسم کھا کر یہ کہا ہی نہیں کہ اگر یہ حدیثیں جھوٹی اور انکا بتانا غلط کام ہو تو مجھ پر اور میرے گھر والوں پر اللہ کی لعنت ہو اور وہ حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے یا نہیں یہ بتایا جاۓ۔ اس لیۓ اللہ،کے بتاۓ ہوۓ سچ اور جھوٹ اور صحیح اور غلط کام کو جاننے کے یہی طریقہ اللہ نے بتاۓ ہیں مگر یہ طریقہ جانچنے کا کہ یہ راوی کیا کبھی جھوٹ بولتا تھا یا نہیں، کا اصول اللہ نے بتایا ہی نہیں ہے۔ان سنی سنائ انسانی باتوں نے ہمیشہ سے ہی ھدایات الہی میں تبدیلیاں کی ہیں تو پھر اللہ نے اپنی دوسری کتاب ھدایات میں سچ باتیں دہرائ اور جھوٹی باتوں کو رد کر دیا۔اس لیۓ اللہ نے قرآن کو ایسی روایتوں کے داخل ہونے کو بالکل روک دیا اور قرآن کو معنوی بور پر بالکل محفوظ کر دیا۔لیکن کچھ لوگ اب بھی جھوٹی احادیث کو مان کر قرآن میں معنوی تحریف کرتے رہے ہیں۔ مثلا” ساری تفاسیر احادیث کو سچ مان کر انکی بنیاد پر لکھی گئ ہیں۔ کسی نے بھی لسانی اور اللہ کے بتاۓ تفہیم قرآن کے طریقہ سے آج تک کسی نے بھی نہ ترجمہ کیا اور نہ ہی تفسیر لکھی ہے۔ میں تفہیم کلام، تجزیہ کلام اور علوم تحقیق پڑھ کر قرآن کا ایک تشریحی ترجمہ اپنے پاس لکھ رکھا ہے جو میں لوگوں کو فیسبک اور یو ٹیوب اور ایک وی سائٹ understandingthequranrightly.blog. Com. Logger Liaquat J. Samma کے نام سے گوگل پر موجود ہے۔۔میں سبکو قرآن سمجھنے کا اللہ کا بتایا ہوا طریقہ لوگوں کو مثالوں کے ساتھ بتاتا رہتا ہوں، جو یہ ہے کہ ۱- عربی لفظوں کے واضح اور موزوں معنی تلاش کریں ( عربی گرامر اور لغات قرآن کی مدد سے) اور ۲- ان عربی لفظوں کے آپس میں جو منطقی تعلق اللہ نے رکھا ہے، اسے انکے ربط و ترتیب اور سیاق و سباق پر غور و فکر کرکے قرآنی آیات کو درست سمجھیں۔مثلا” اقیموا الصلات و آتوا الزکات کا مفہوم سارے مفسرین اور مترجمین نے اردو اور انگریزی میں یہ غلط ترجمہ کیا ہے کہ نماز پڑھو مساکین کی مالی مدد کرو۔ اسکا درست مفہوم یہ ہے کہ،” قرآنی ھدایات کی مسلسل پیروی کو عمل کے لیۓ ہمیشہ تیار رکھو اور اپنے اچھے کاموں کو اجر میں بڑھوتری دو،ہے۔
خلَاَفتِ الٰہیہ بہ نفسٍ قرُان خَلِیفہ کے معنی ہیں جانشین یا نمائندا- خَلِیفة اُلله کا مطلب ہے اللہ کا نمائندا جو اِس دنیا میں اللہ کی حَاکمیت کو قائم کرے- جب اللہ نے فرشتوں سے فرمایا، ”میں زمین میں اپنا خَلِیفہ بنانے والا ہوں، تو وہ بولے تو اٍیسے کو خَلِیفہ بناے گا جو اِس میں فطنہ انگیزی اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں‟- جواب میں اللہ نے فرمایا،” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‟- پھراللہ نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے اور اُنہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، ”مجھے اِن اشیاء کے نام بتاو اگر تم سچّے ہو‟- جب فرشتے اُن اشیاء کے نام نہ بتلا سکے اور حضرت آدم (علیہ سَلام) نے بتلا دیے تو اللہ کے حکم پر تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو سجدہ کیا سواے جن ابلیس کے (سورة البَقرَة آیت- 30تا 34)- لِہٰـزا حضرت آدم (علیہ سَلام) کومنصبٍ خلافت علم کی بنیاد پر ملا- اِسی طرح اًس وقت کے سرداروں کی مُخالفت کے باوجود اللہ نے حضرت طالوت (علیہ سَلام) کو عِلم کی بنیاد پر خَلِیفہ مقرر کیا (سورة البَقرَة آیت-247)- نیز اللہ نے اپنے خُلّافہ داوُد اورسُلیمان (علیہ سَلام) کو عِلم و حِکمت سے نوازا اور لوگوں پر فضیلت بخشی (سورة اَلنمل آیت-15)- مزید برآں حضرت موسٰی (علیہ سَلام) کی دعا کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ سَلام) کو اّن کا وزیر مقرر کیا ( سُورة طـٰه آیت-29، 30، 32، 36)- اِسی طرح اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عّہدہِ نبوت و رسالت پرفایز تھے عظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری انسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقرَة آیت-124)- لِہٰـزا اِمام ظلِم اکبر اور ظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خَلِیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کُل اور امامُ اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمام اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمام اُلخلق تھے، اِسی لے آپ کےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- نبوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے علمِ ارواح میں دیے گے- ”اور (مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب تمھیں سب نبیوں پر گواہ بنایا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- خلافتِ اِلٰہیہ میں، ”اللہ جسے چاہتا ہے دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- ”اِن سب رسولوں (کے لئے ﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‟ (سُورة الْإِسْرَاء آیت-77)- لِہٰـزا خلافتِ الٰہیہ کا سلسلہ تا قیامت اِسی طرح قایم رہے گا اور اِس میں اَوّلین انتحابِ معیارِ فضیلت علم و حکمت ہے نیز خَلِیفہ کا رتبہ ’علیہ سَلامʽ ہوتا ہے قرُان اَلعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)- ” ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے آپ (مُحَمَّد) پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اُس نے آپ کو وہ سب عِلم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-113)- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رَاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلٍ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سَلام) کا مقام حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کے بعد سب سے بلند ہے- اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمامٍ مبین میں رکھا (سوہ یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمامٍ مبین زاتٍ علی ہے یعنی درخشاں اِمام‟- ” کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اٍن سے کہہ دیں کہ میرے لیۓ ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے (سورة الرّعد آیت-43)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”دوسرا گواہ علی ابنٍ ابو طالب ہے‟- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم دیا گیا) کے سینے ہیں (سورة العنكبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة المجادلة آیت-11)- قرُان طاہر ہے اور اِس کی معنویّت کی گہرای تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام)، بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اِس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33 Continue on next comment
Javed ghamadi is just love it allah aap ko sehat aur tandrusti day all time great for me I don't think any other better prayer than this prayer allah qabool farmaey aameen aurangzeb butt from Switzerland daska sialkot siranwali ❤
He is the scholar of highest eminence. Deserve appreciation . I pray to Allah thanking him for giving us a scholar like Ghamdi sir
You probably dont care at all but does someone know of a method to log back into an Instagram account??
I was dumb forgot my account password. I would appreciate any tricks you can offer me!
@Baker Cain instablaster =)
We pray to Allahtaalah keep him in good health and let him continue to share his knowledge. Alhamdulillah.
MASHALLAH Great Aalim of Current time..May Allah guide and support him.
Ghamidi sahab mujhe ap se boht mohabbat hai. Allah pak apko apne hifz o amaan mei rakhay! Ameen!
ماشااللہ بہت پیارا سمجھانے کا اسلوب ہںے جزاک اللہ خیر اللہ آپ کو صحت و تندرستی دے اپنی حفظ و امان میں رکھے اللھم آمین
Is se behtreen explaination is hadees ki Maine nai suni ajtak
اللّٰہ تعالٰی آپ پر رحمت فرمائے اور آپ کے والدین پر رحمت فرمائے اور آپ سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین
Mashallah
Jazakallah khair, ghamidi sahab
What a mountain of knowledge, what a man. Ghmadiyat is the real islam.
ruclips.net/video/BMPS2pvv-S4/видео.html
MA Sha Allah, SubhanAllah!
Allah aap ki hifazat kare ameen
استاذ محترم ❣️❣️❣️
subhanallah
SubhanAllah
Great explained
Ya ArhamarRahemeen
Awsm Bayan 👌
Sallallahoalehewaaalehewasallam
❤️❤️❤️❤️❤️
اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمبین میں رکھا (سورة یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”امام ِمبین زاتِ علی ہے‟ یعنی دَرخشاں اِمام- ”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالت رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نزول مولا علی کے اٌنگشتری حالت رکوع میں فقیر کو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ استمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور زاتٍ علی ہے اور اِن مومنین میں ولایت کا سلسلہ چلا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اور رسول- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو توشامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- ”کیا تم ابلیس اوراٌس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالانکہ میں نے اًن کو نہ توآسمانوں اورزمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اًن کی پیدایش پراوراللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو- قران اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور وارث أُولِي الْأَمْر- ” اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلّافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اورمُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقرعلیہ سَلام کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلامِ اللهُ ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ کے درمیان دینِ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ ابراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- اِسی لے اِمام ظلمِ اکبراورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم، کیونکہ شیطان کو معصوم ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں (سورة سجدہ آیت-24)- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدرآیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ آن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اٍس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہورہوگا تو زمین سے خضراور اِلیاس اورآسمان سے اِدریس اورعیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (وارثِ انجیل) نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی (وارثٍ قرُان) کے پیچھے‟ (صحاح ستہ)
مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطفےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ علیہ سَلام پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آئمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- حضور نے فرمایا، ”میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرُان اور دوسری میری عِطرت (اہلِ بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ قیامت میں حوز کوثر پر مجھ سے نہ آن ملیں، جوشخص اِن دونوں سے تمسّک رکھے گا وہ یقیناً نجات یافتا ہے اور جس نے دوری اختیار کی وہ یقیناً ہلاک ہو جاے گا، جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے‟ (صحاح ستّہ)- ”اے ایمان والو! ﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیّت) میں شامل رہو‟ (سورة توبہ آیت-119
اِمامت بہ نفسِ قرُان
”اللہ جسے چاہتا ہے خلق کرتا اور دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اِختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورةالقَصَص آیت-68)- اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عُہدہِ نبوت و رسالت پر فایز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسَانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البقرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلِم اکبر اورظلمِ اصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اور اپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87)، یعنی ہر نبی یا رسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پر اِختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متّقی ہیں‟ (سورة سَجدہ آیت-24)- یعنی بے صبرا اورشک کرنے والا اِمام نہ ہو گا- نیز اللہ جھوٹے اِمام کی مدد نہیں کرتا (سورة القَصَص آیت-41)- ”اور ہم نے ارادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو امام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورةالقَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو آنے والے وفت میں زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة َّالصَّافات آیت-107)- کربلا میں آلہِ مُحَمَّد کی قربانی زبحِ عظیم تھی جو کہ دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی خاندانِ رسالت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمامُ اُلناس، ہادیِ کل اور اِمام اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامُ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمامُ اُلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا
نبوّت، رسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیۓ گے- ”( مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- اِسی طرح مولا علی کی زات گواہ ہے حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کی نبوّت پر- ارشاد ہوا، ”کیا کوئ اِس (مُحَمَّد) کی مانند ہو سکتا ہے جو اپنے ساتھ دو گواہ لے کر آیا، ایک قرُان اور دوسرا وہ جو اِس کی پیروی کرتا ہے، جس کا ذکر کتابِ موسیٰ تورات میں ہے کہ وہ (مُحَمَّد) اِمام بھی ہوگا اور رحمت بھی؟ ۔ ۔ ۔‟ (سورة ھود آیت-17)- ”جو (مُحَمَّد) صدق لے کرآیا اور جِس نے اُس کی تصدیق کی وہ دونوں متّقی ہیں‟ (سورة زمر آیت-33)- اِس آیت کے زیل میں حضورنے فرمایا،”یہ دوسرا شخص علی ابن ابی طالب ہے‟- اِسی لے مولا علی کو اِمام المتقین بھی کہا جاتا ہے
خلافِ عدل ہوگا اگر اِمام اپنے دور کا عالم ترین انسان نہ ہو- ”کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اُن سے کہہ دیں کہ میرے لیے ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے‟ (سورة الرّعد آیت-43) اور حضور نے فرمایا، ”دوسرا شخص زاتِ علی ہے‟- اِس آیت کے زیل میں مولا علی نے فرمایا، ”میری سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ لا شریک نے مجھے نبوّت کی گواہی میں شریک بنایا‟- قرّان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سلام) کا مقام سب سے بلند ہے، کیونکہ حضور نے فرمایا، ”میں عِلم کا شہر ہوں اورعلی اس کا دروازہ‟- ”قرُان کی مَعنویت تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر‟ (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مفام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی، امام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجا ست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزَاب آیت-33)- ”اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمام ِمُبین میں رکھا‟ (سورة یٰسین آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمام ِمبُین زاتِ علی ہے‟ یعنی درخشاں اِمام! قرُان پڑھنا اور حفظ کرنا باعثِ ثواب ہے لیکن، ”۔ ۔ ۔ قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں‟ (سورة انکبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة مجادلہ آیت-11)- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیۓ جاتے یا مٌردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- یعنی جس کے سینے میں قرُان ہوگا اُس کی طاقت قرُان کے برابر ہوگی- اللہ کے بناے آئمہ میں اختلاف نہیں ہوتا- راسخ کے لے لازم ہے اُس کی حالت میں تغٌّیر نہ ہو یعنی جیسا بچپن ویسی جوانی اور بڑھاپا- جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) عَلیم ہستی تھے (سورة آلِ عِمرَان آیت-46) اِسی طرح اِمام کی زات میں عِلم ہوتا ہے
Continue on next comment
Ali mola
وارثانِ قران بہ نفسِ قرُان
قرُان میراث ہے اور اللہ نے اِس کے وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطرآیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اَگر وارث پرمصیبت آجاۓ تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (یعنی جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَلِعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61) وہاں وارثانٍ قرُان عِلم کا شہر بابُل عِلم اور رَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رٌاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلِ عِمرَان آیت-7)- ”۔ ۔ ۔ اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو‟ (سورة النّحل آیت-43)- قرُان ذکر ہے (سورة الحِجر آیت-9) اور وارث اہلِ ذکر- ”اگر کوئ قرُان ہوتا جس کے وسیلے پہاڑ چلاے جاتے یا زمین کے فاصلے طے کیے جاتے یا مًردوں سے کلام کیا جا سکتا تو یہ قرُان ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الرّعد آیت-31)- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں عِلم سے نوازا گیا) کے سینے ہیں (سورة انکبوت آیت-49)، یعنی أُوتُوا الْعِلْمَ کی طاقت قرُان کے برابر ہے- ”أُوتُوا الْعِلْمَ کےدرجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے‟ (سورة مُجادلہ آیت-11)- قرُان واضع نور ہدایت ہے (سورة النِّسَاء آیت-174) اور وارث مجسمِ نورِ ہدایت- قرُان مُهَيۡمن (اَمین، غالب، حّاکم، محّافظ،، نگہبان) ہے (سورة المَائدة آیت-48) اور وارث اَمین، کائنات کے حّاکم، محّافظ، نگہبان اور اّلا کُل ِغالب ہیں- قرُان بے عیب ہے یعنی اِس ہیں کوئ کجی نہیں (سورة الزُّمَر آیت-28) اور وارث ہرعیب سے پاک- قرُان معصوم ہے یعنی باطل کا اِس کے پاس گزر نا ممکن ہے (سورة فصِلَت آیت-42) اور وارث بھی معصوم ہستیاں ہیں- بہ کتاب بصیرت، حُجت، عقل اور فکر ہے (سورة الأعرَاف آیت-52) اور وارث صاحبِ بصیرت اور حُجّت اللہ ہیں- قرُان وَاضح بیان اورمُسلمانوں کیلے ہدایت، خوشخبری اور رحمت ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث رحمت العَالمین اور ہادیِ کُل- قرُان حکمت سے سرشار ہے (سورة یٰس آیت-2) اور وارث حِکمت کی معراج- یہ کتاب برحق بے یعنی اِس ہیں سچ کے سوا کچھ نہیں (سورة فَاطِرآیت-31) اور وارث اہلٍ حق کیونکہ جب نجران کےعیسَایوں سے حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کا معاملہ طے نہ ہوسکا تو اللہ کے اِس حکم پر حضور سے مباہلا ہوا، ”۔ ۔ ۔ تم اپنے بیٹوں کو لاو اور ہم اپنے بیٹوں کو لایں، تم اپنی عورتوں کو لاو اور ہم اپنی عورتوں کو لایں، تم اپنے نفسوں کو لاو ہم اپنے نفسوں کو لایں اور پھراللہ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ جھوٹوں پراللہ کی لعنت ہو‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)، اور اِس جنگِ صداقت میں حضور نے صرف صدیق ہستیوں کو ساتھ لیا اور مولا علی، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو لے کر مباہلے کے لے تشریف لاے جب آپ کے 9 حرم تھے اور بیٹے ابرھیم زندہ تھے- اٍس موقعہ پرعیسَایوں کے بڑے پادری عبدُل مسیح نے مباہلہ کرنے سے انکارکر دیا اور جزیہ دینا قبوُل کیا- اِس واقعہِ مباہلے کو اللہ نے قصہِ حق کہا (سورة آلِ عِمرَان آیت-62)- قرُان عظیم بے یعنی بلند رتبے والا (سورة الحِجرآیت-87) اور وارث نباءعظیم {عظیم خبر: غدیر خم میں اعلانِ ولایت مولا علی (علیہ سَلام)}- قرُان مبین بے یعنی درخشاں اورمبالغےسے پاک کلام (سورة یٰس آیت-69) اور وارث اِمام ِمبین (سورة یٰس آیت-12)- یہ کتاب بے مثل بے یعنی تمام جن واِنس مل کرقرانی سورتوں کی مثل ایک سوره بهی نہیں لا سکتے (سورة یُونس آیت-38) اور وارث بے مثلِ- قرُان مجید ہے یعنی جلیل اُلقدر (سورة ق آیت-1) اور وارث پیکرٍ اقدارٍآعلیٰ- قرُانَ تبیان ہے یعنی اپنی بات منواتا ہے (سورة النّحل آیت-89) اور وارث ہر محاز پرغالب رہنے والے- قرُان فرقان بے یعنی حق اور باطل میں فیصلا کرنے والا (سورة الفُرقان آیت-1) اور وارث حق اور باطل کو عیاں کرنے والے- وقعہ کربلا کے بعد سرِ مبارک اِمام حسین (علیہ سَلام) کا نوکٍ نیزہ پر قرُان کی تلاوت کرنا اِس اَمر کی روشن دلیل ہے- قرُان کریم ہے یعنی بڑے رتبے والا (سورة الواقِعَة آیت-77) اور وارث مرتبے کی معراج- قرُانَ اہِلِ اِیمان کے لئے شّفا (پیاس بجهانا یعنی حاجت روا) ہے (سورة فُصِلَت آیت-44) اور وارث مالکِ شّفا- قرُان کا مکمل سمھجنا مشکل ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-7) اور وارث مشکل کشا ہیں- قرُان طاہر ہے نیز اِس کی معنویت کی گہرائ تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة واقعہ آیت-79) اور طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے، کیونکہ مولا علی، اِمام حسن اور حسین (علیہ سَلام) اور بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) حضور کے ساتھ چادر کے اندر موجود تھے جب ارشاد ہوا: ”۔ ۔ ۔ اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اٍس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33
Continue on next comment
Love you ghamdi saab want to meet you
شیعہ اور سنی فرقے حضور کی وفات کے بعد وجود میں آے- شیعہ حضور کی سنت اہل بیت سے لیتے ہیں جن کی سچائ کی گارننٹی اللہ نے لی اور اس کا اتباع کرتے ہیں نیز نبوت کے بعد ولایت کو مانتے ہیں اور ان آیمہ کو تسلیم کرتے ہیں جن کو حضور نے خلیفہ نامزد کیا اور اس کی دلیل میں قران کی یہ آیات پیش کرتے ہیں
"۔(1) - صوف اورصرف تمہارے ولی (حاکم) اللہ‘ رسول اور وہ مومنین ہی ہیں جو نماز پڑھتے اوردیتے ہیں زکوٰة حالتِ رکوع میں"(سورةالمَائدة: 55)- حالتِ رکوع میں زکات مولا علی نے دی- "جس نے ولی مانا اللہ اس کے رسول اوران مومنین کوتو شامل ھوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں"(سورة المَائدة: 56)- شیعہ مومنین کا گروہ جس کا مہور زات علی ہے امام مانتے ہیں
۔(2)- حج سے واپسی پر جب حکم ھوا کہ " پہنچا دواس پیغام وہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوی کام نہ کیا"(سورةالمَائدة: 67)- حضور نےغدیرخم میں لاکھوں حاجیوں کے مجمعے میں اعلان کیا کہ‘"جس جس کا میں مولا(حاکم) اُس اُس کا علی مولا "- شیعہ مولا علی (علیہ السلام) کو حضور کے بعد امام مانتے ہیں اور ان ہی کا اتبع کرتے ہیں
۔(3)- زوجہ رسول اُمِ سلمیٰ (رضی اللہ علیہا) کے گھر جب سورہِ احزاب کی آیت-33 کے اِس حصے کا نزول ہوا ”صرف اور صرف اللہ نے ارادہ کر لیا اے اہل بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اِس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے (إِنَّمَا يُرِيدُ ٱللَّهُ لِيُذۡهِبَ عَنڪُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيرَ)‟ تو حضور کے ساتھ امام علی (علیہ سلام)‘ بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا)‘ امام حسن اور حسین (علیہ سلام) چادر کے اندر موجود تھے (صحاح ستہ)- شیعہ ان پاک ہستیوں کا اتبع کرتے ہیں
۔(4)- حضور نے جابربن عبدللہ کو اپنے 12 خلافہ کے نام بتلاے (علی بن ابو طالب‘ حسن بن علی‘ حسین بن علی‘ لی بن حسین‘ محمد بن علی‘ جعفر بن محمد‘ موسی بن جعفر‘ علی بن موسی‘ محمد بن علی‘ علی بن محمد‘ حسن بن علیاور محمد بن حسن) نیز فرمایا کہ‘ "میرا سلام پہنچانا میرے پانچویں نایب محمد باقر کو جو انہوں نے پہنچایا- "شیطان نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا یعنی سب کو بہکایا سواے مومنین کے چھوٹے گروہ کے" (سورة سَبَإ: 20) - یعنی مومنین کا ایک چھوٹا گروہ معصوم کی منزلت پر ہے- ”جن کو ہم امام بناتے ہیں وہ ہمارے امرسے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے متقی ہیں‟ (سورة سجدہ آیت-24)- اسی لیے شیعہ ان 12 آیمہ کو معصوم مانتے ہیں-
"۔(5)- اور ہم نے قران کے وارث بناے مصطفےٰ ( چنے ھوے) بندے [سورة فَاطِر: 32]- اللہ مصطفے بندوں پر سلام بھیجتا ہے (سورة مل:59)- یعنی وارثِ قران مرتب علیہ سلام پرہیں- اسی لیے مسجد نبوی میں ان 12 آیمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام کندہ ہے
۔(6) قیامت کے دن ہربندے کو اس کےامام کےساتھ بلایں گے (سورة بنیۤ اسرآییل: 71)- یعنی جبتک ایک بھی بندہ اس دنیا میں موجود ہےامام کا وجود ھونا ضروری ہے- شب قدر میں ملایکہ کا نزول ھوتا ھے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا امر (سورة القَدر: 4)- جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ امر کے ہونے کی جن کے پاس امرآتا ہے- شیعہ اس ہستی کو جن کے پاس امرآتا ہے امام محمد مھدی (علیہ السلام) مانتے ہیں جو کہ حالت غیب میں ہیں جس طرح حضرت ادریس' خضر' الیاس اور عیسیٰ (علیہ السلام) - "کیا وہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ‘ (پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں (سورة الأنعَام: 158)- اس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا کہ‘ "میرے 12 ویں خلیفہ کا جب ظہور ھوگا تو زمین سےحضرت خضر اورالیاس (ع س) اورآسمان سے حضرت ادریس (ع س) (سورة مَریَم: 56 ،57)‘ اور عیسیٰ (ع س) [سورة آل عِمرَان: 55] آیں گے امام مھدی (ع س) کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ (ع س) نماز پڑھیں گےامام مھدی (ع س) کے پیچھے"
"۔(7)- مومنو اطاعت کرو اللہ‘ رسول اور اوللعمر کی" (سورة النِّسَاء: 59) - یعنی اوللعمر کی اطاعت اسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ اور رسول کی- شیعہ ان 12 آیمہ کو وللعمر مانتے ہیں اور دین اسلام کے احکامات میں ان کی اطاعت کرتے ہیں
۔(8)- شیعہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی نظر میں انسانی رشتوں کو نہیں بلکہ کردار کو فضیلت حاصل ہے‘ جس طرح اللہ نے زوجہ فرعون آسیہ کو مومنوں کے لیے نشانی فرار دیا (سورہ تحریم آیت-11) اور دو نبیوں حضرت نوح اور لوت (علیہ سلام) کی بیویوں کو کافروں کے لے نشانی (سورہ تحریم آیت-10) - شیعہ اسی نظر سے صحابہ کا احترام کرتے ہیں- ۔
جبکہ سنی فرقہ حضور کی سنت صحابہ سے لیتا ہے لیکن ان میں سنت پر اختلافات پاے جاتے ہں - مثال کے طور پر یہ ہاتھ کھول اورباتدھ کر نماز پڑھتے ہیں-
AOA Sir.
i have a question?
So please tell me that how to send message to you.
Allah ki ibadat aise karo jaise ki tum use dekh rahe ho agar tum use nahi dekh sakte to allah ki ibadat aise karo ki vo tuje dekh raha hai isse saabit hota hai ki duniya main allah kaa didar jaaiz hai aur mumkin bhi hai yahi sufiya e ahle sunnat Val jamat kaa aqida hai
I am thinking about them who dislike this
صرف تعصب
”صرف اور صرف تمھارا اللہ ولی (حَاکم، مددگار)، رسول ولی اور وہ مومنین ولی جو دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورة المائدة آیت-55)- گو کہ اِس آیت کا نذول مولا علی (علیہ سَلام) کے اُنگشتری حالتِ رکوع میں فقیرکو دینے پر ہوا، لیکن اللہ نے جمع کا صیغہ اِستعمال کر کے مومنین کے گروہ کی نشان دہی کی جن کا مہور مولا علی (علیہ سَلام) کی زات ہے جہاں سے وَلایت کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ مومنین اِسی معنی میں ولی ہیں جس معنی میں اللہ اورحضرت مُحَمَّد (ﷺ)- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56
10ِ ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا کہ ”پہنچا دواُس پیغام ِوہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوئ کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورةالمَائدة آیت-67)- لِہٰـزا غدیرِ خم میں حضور نے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا کہ ”جِس جِس کا میں مولا (حَاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اعلانِ غدیر پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3
قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5) اور اِس کے وارث أُولِي الْأَمْرِ- ”اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اورأُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خٌلّافہ کے نام بتلاے جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسیٰ بن جعفر، علی بن موسیٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ اُنہوں نے پہنچایا- قرُان میراث ہے اور اللہ نے اٍس کا وارث مصطفٰےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- مصطفےٰ بندوں پر اللہ سَلام بھیجتا ہے (سورة النمل آیت-59)- یعنی مصطقےٰ بندے جو قرُان کے وارث ہیں مرتبہِ ’علیہ سَلامʽ پر فائز ہیں- اِسی لے مسجدِ نبوی میں اِن 12 آیمہ کے ناموں کے ساتھ علیہ سَلام کندہ ہے- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں جو دلیل ہے کہ یہ کلام اُلله ہے (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اِن 12 آئمہ میں دینٍ اِسلام میں کوئ اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ خلافتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)- جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمرآتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اُس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اورالیاس اورآسمان سے ادریس اورعیسَیٰ آیں گے میرے بارویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پراور عیسَیٰ نماز پڑھیں گے اُن کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ابلیس نے اللہ کو مان کراٌس کے خلیفہ کا انکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گا؟
”۔ ۔ ۔ ہم نے تمھاری طرف بھیجا ذکر۔ ۔ ۔ اور وہ ہے میرا رسول ۔ ۔ ۔‟ (سورة الطّلاَق آیت-10، 11)- ”ہم نے زبور میں لکھ دیا کہ ذکر (رسول) کے بعد اِس زمین کے وارث میرے صالح بندے ہونگے‟ (سورة الأنبیَاء آیت-105)- اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر سے پوچھو (سورة النّحل آیت-43)- ذکر معنی رسول اور اہل معنی: اولاد (سورة هُود آیت-45)، بھائ (سورة طـٰه آیت-29، 30)، سَوَار (سورة الکهف آیت-71) اور مثل (سورة الفَتْح آیت-29)- اولاد کے زُمرے میں حسنین شامل کیونکہ حضور جدّالحسن وحسین ہیں، بھائ کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) شامل کیونکہ رسول نے دو موقوں پر مولا علی کو اپنا بھائ بنایا، سَوَار کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اور حسنین شامل کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام) نے دوشِ رسول پر چڑھ کر کعبہ میں بتوں کو توڑا اورعید کے دن حضور حسنین کے لیے سواری بنے، مثل کے زُمرے میں مولا علی (علیہ سَلام) اورآپکی وہ اولاد شامل جس میں اِمامت قایم ہوئ اور اِن ہی صدیق ہستیوں کو بیٹوں اور نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کر گے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61
”صرف اورصرف تمہارے ولی (حاکم) اللہ، رسول اور وہ مومنین ہی ہیں جو نماز پڑھتے اور دیتے ہیں زکات حالتِ رکوع میں‟ (سورةالمَائدة آیت-55)- حالتِ رکوع میں زکات مولا علی نے دی- ”جس نے ولی مانا اللہ اُس کے رسول اور اِن مومنین کو تو شامل ہوجاے گا اللہ کی غالب جماعت میں‟ (سورة المَائدة آیت-56)- حج سے واپسی پر جب حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغام ِ وہی کو اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا رسالت کا کوی کام نہ کیا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-67) تو حضور نےغدیرِخم میں لاکھوں حاجیوں کے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- حضور کی زات تمام عالمین کے لے رحمت ہے، یعنی تمام عالمین پر مہیت ہے (سورة الأنبیَاء آیت-107)- لہٰزہ مولا علی کی اِمامت بھی تمام عالمین پر مہیت ہے! اعلانِ ولایت پر اللہ نے فرمایا، ”۔ ۔ ۔ آج کے دن ہم نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ ( سورة المَائدة آیت-3)- مولا علی کی ولایت اللہ کی نعمت ہے- اِسی لے فرمایا، ”تم سے ضرور پوچھوں گا نعمتوں کے بارے میں‟ (سورة التّکاثُر آیت-8)- ”۔ ۔ ۔ کسی کو جائز نہیں چاہے مدینے یا باہر کا رہنے والا ہو کہ رسول اور آپکے نفس کی مخالفت کرے‟ (سورة التّوبَة آیت-120)- مولا علی (علیہ سَلام) نفسِ رسول ہیں کیونکہ اِن ہی کو نفسوں کی جگہ حضور نجران کے عیسَایوں کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) کی ولدیت کےمسعلے پر مباہلے میں لے کرگۓ- ”کیا تم ابلیس اور اُس کی اولاد کو میرے سوا ولی بناتے ہو، حالنکہ میں نے اُن کو نہ تو آسمانوں اور زمین کی خلقت پر گواہ بنایا تھا اور نہ خود اُن کی پیدایش پر اور اللہ گمراہ کو اپنا مددگار نہیں بناتا‟ (سورة الکهف آیت-50، 51)- یعنی اللہ کا ولی وہ ہوگا جو کائنات کی خلقت پرگواہ ہو
حضور نے جابربن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو 12 اِماموں کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسَىٰ بن جعفر، علی بن موسَىٰ، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد بن حسن اور فرمایا، ”میرا سلام پہنچانا میرے پانچویں خلیفہ مُحَمَّد باقر کو‟ جو انہوں نے پہنچایا- ”اِبلیس نے اپنا وَعدہ سچ کر دکھایا یعنی سب کو بہکایا سواے مومنین کے چھوٹے گروہ کے‟ (سورة سَبَإ آیت-20)- یعنی مومنین کا ایک چھوٹا گروہ معصوم کی منزلت پر ہے- ”۔ ۔ ۔ پھر ہم نے قرُان کے وارث بناے مصطفےٰ (چُننے ہوے) بندے ۔ ۔ ۔‟ (سورة فَاطِر آیت-32)- اللہ مصطفےٰ بندوں پر سَلام بھیجتا ہے (سورة النَّمل آیت-59)- یعنی وارثِ قرُان مرتبِ علیہ سَلام پر ہیں اور صَالحہ ہستیوں پر نماز میں سلام پڑھا جاتا ہے- ”اُس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة بنیۤ اسرآییل آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ دلیل ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کی جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اُسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اُن سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خَلیفہ کا جب ظہور ہوگا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اور عیسیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟- ”اے ایمان والو! اِطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْر (صاحبانِ اَمر) کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59) - یعنی أُولِي الْأَمْر ہستیوں کی اِطاعت اِسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ اور رسول کی- أُولِي الْأَمْر وہ ہستیاں ہیں جنکو نامزد کیا رسول نے- شیطان نے اللہ کو مان کر اٌس کے خَلِیفہ کا اِنکار کیا، اب جو اللہ کو مان کر اپنے وقت کے اِمام کو نہ مانے اٌس کا مقام کیا ہو گا
When you have no Knowledge which is a blessing of ALLAH SWT, you start using Iqwal e zarrian (beautiful and difficult words) to Impress people, This usually happens when you have no Knowledge and only information gathered from saying of people, May ALLAH SWT give more Hadiath to believers.
Adnan Hassan lol
Linked
دینِ اسلام بہ نفسِ قرُان
دِین کے معنی ہیں آئین اور قانون- اللہ کے نزدیک اگر کوئ دِین ہے تو وہ اسلام ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-19)- اِسلام کے معنی ہیں اللہ کی حَاکمیت کو تسلیم کرنا اور اُس کے بناے آئین اور قوانین پر عمل کرنا- دِینِ اِسلام منجانب اللہ ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-83)- یہ دِینِ حنیف ہے (سورة البينة آیت-5)، یعنی سیدھا دِین- یہ دِینِ قَيِّمُ ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی معیاری دِین- یہ دِینِ وَاصب ہے (سورة النہل آیت-52)، یعنی ہمیشہ رہنے والا- یہ دِینِ حق ہے (سورة التوبة آیت-33)، یعنی سچٌا دِین- یہ دِینِ فطرت ہے (سورة الروم آیت-30)، یعنی اللہ کے بناے سانچے میں ڈھلا ہوا- یہ دِینِ مصطفےٰ ہے (سورة البَقَرَة آیت-132)، یعنی چُنّا ہوا دِین- یہ دِینِ خالص ہے (سورة الزُمر آیت-3)، یعنی کَھرا دِین- یہ مرتَضَىٰ دِین ہے (سورة النور آیت-55)، یعنی افضل ترین چُنّا ہوا- مصطفےٰ، مجتبےٰ اور مرتَضَىٰ اِن تمام الفاظ کا مطلب ہے چُنّا ہوا، لیکن درجہ بندی میں مصطفےٰ سے مجتبےٰ اَفضل اور مجتبےٰ سے مرتَضَىٰ اَفضل-
”اللہ جسے چاہتا ہے دِین کے لے چُنتا ہے (نبی، رَسول یا اِمام)، بَندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- نبّوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے عالمِ ارواح میں دیے گۓ- ”اور (مُحَمَّد) اُس وقت کو یاد کرو جب سب نبیوں سے عہد لیا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آل عِمرَان آیت-81)- ”بے شک ہم نے نوح اور اِبراھیم کو بھیجا اور اُنکی اولاد میں نبّوت اور کتاب کو رکھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة الحدید آیت-26)- حضرت ھود، لُوطً اور اِبراھییم (علیہ سَلام) اولادِ حضرت نوح (علیہ سَلام) میں سے تھے، نیز حضرت إِسْمَاعِيلَ، اسحاق، یعقوب، یوسف، داؤد، سلیمان، ایوب، زَكَرِيَا، يَحْيَىَٰ، إِلْيَاسَ، الْيَسَعَ، يُونُسَ، موسیٰ، ہارون اور عِيسَىٰ (علیہ سَلام) یہ سب اَنبياء اولادِ اِبراھیم میں سے تھے (سورة الأنعام آیت-84 تا 87)- حضرت نوح، اِبراھیم، موسیٰ اور عیسَیٰ (علیہ سَلام) سب دینِ اسلام کے پیروکار تھے (سورة الشورا آیت-13)- ”یہی ورثہ اِبرھیم نے اپنے بیٹوں کو چھوڑا اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ، اللہ نے تمھارے لیے دینِ اسلام کو چُن لیا اور تم مسلمان رہ کر ہی مرنا‟ (سورة البَقرة آیت-132)- پس اللہ نے دین کی تبلیغ کے لے اَنبیاء کو چُنَا اور اُن کی اولاد در اولاد میں اِس سلسلے کو قایم رکھا اُمت در اُمت نہیں!
اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جب کہ وہ عُہدہِ نبّوت و رِسالت پر فائز تھےعظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری اِنسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقَرَة آیت-124)- یعنی اِمام ظلمِ اکبر اور ظلمِ اَصغر سے پاک ہو گا- حضرت یونس (علیہ سَلام) نبی تھے اوراَپنے نفس پر ظلم کرنے کے سبّب اللہ سے بخشش چاہی (سورة الأنبیَاء آیت-87، 88)، یعنی ہر نبی یا رَسول اِمام نہیں ہوتا اور اِمام معصوم ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو خالص (معصوم) ہستیوں پراختیار نہیں (سورة صٓ آیت-83)- ”بیشک اللہ نے چُن لیا آدم، نوح، آلِ اِبراھیم اور آلِ عِمرَان کو سب جہان والوں میں سے‟ (سورة آل عِمرَان آیت-33)- بہ نفسِ قران اِسم عِمرَان جس کا ذِکر اِس آیتِ مبارکہ میں آیا اُس کو تین ممکنہ ہستیوں سے منصوب کیا جا سکتا ہے: حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) کے والد، حضرت مَریَم (سلام اللہ علیہا) کے والد اور مولا علی (علیہ سَلام) کے والد حضرت ابو طالب (علیہ سَلام) جن کا نام عِمرَان ہے- حضرت موسیٰ (علیہ سَلام) سے اولاد نہیں ہوئ اور حضرت عیسیٰ (علیہ سَلام) نے شادی نہیں کی، اِس لے لفظ آل اِن ہستیوں سے منصوب نہیں کیا جاسکتا- لِہٰـزا ہمیشہ رہنے والی اِمامت کا سلسلہ جس کا وعدہ اللہ نے اولادِ اِبراھیم میں رکھنے کا کیا وہ آلِ عِمرَان (آلِ ابو طالب) ہیں- ”جن کو ہم اِمام بناتے ہیں وہ ہمارے اَمر سے ہدایت کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ سے مُتّقی ہیں‟ (سورة السجدة آیت-24)- ”اور ہم نے اِرادہ کر لیا جن کو زمین میں مظلوم بنایا اُن کو اِمام اور زمین کا وارث بنایں گے‟ (سورة القَصَص آیت-5)- ”اور ہم نے اِس {اسمٰعیل (علیہ سَلام) کی قربانی} کو زبح ِعظیم سے بدل دیا‟ (سورة الصَّافات آیت-107)- کربلا میں قربانی زبحِ ِعظیم تھی جو کہ روشن دلیل ہے سلسلہِ اِمامت کی اہلِ بیت میں- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خلیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کٌل اور اِمام اٌلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمامِ اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِماُم اٌلخلق تھے اِسی لے آپکےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے آپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- حضرت مُحَمَّد (ﷺ) آخری نبی ہیں (سورة الأحزاب آیت-40)- نبّوت اور اِمامت کا سلسلہ {حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اور اِمام مھدی (علیہ سَلام)}، حضرت ابراھیم و إِسْمَاعِيلَ (علیہ سَلام) سے جڑا ہے
Continue on next comment
”یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور (دین) کو بجھا دیں، لیکن میں اللہ اپنے نور کو کامل کر کے رہوں گا اگرچہ کفٌار کتنا نا پسند کریں‟ (سورة التوبة آیت-32)- 10 ہجری میں حج سے واپسی پر حضور کو حکم ہوا، ”اے رسول پہنچا دو اُس پیغامِ وہی کو جو آپ کے رَب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو گویا میری رِسالت کا کوی کام نہ کیا اور ﷲ تمھیں انسانوں کے شرسے بچاے گا، بیشک اﷲ کَافروں کو ہدایت نہیں کرتا‟ (سورة المَائدة آیت-67)- لِہٰـزا حضور نے غدیرِ خُم میں ممبر پر مولا علی (علیہ سَلام) کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حاجیوں کے بڑے مجمعے میں اعلان کیا، ”جِس جِس کا میں مولا (حاکم) اُس اُس کا یہ علی مولا‟- اِعلانِ ولایتِ علی کے فوراً بعد یہ وہی نازل ہوئ، ”۔ ۔ ۔ اج کے دن اللہ نے اپنی نعمت کو تمام کیا اور دین ِاسلام مکمل ہوا ۔ ۔ ۔‟ (سورة المَائدة آیت-3
دینِ اِسلام کی بنیاد قرُان ہے اور قرُان میراث ہے، نیز اللہ نے اِس کا وارث مصطفےٰ بندوں کو بنایا (سورة فاطر آیت-32)- کیونکہ وارث ہمیشہ میراث سے اَفضل ہوتا ہے اِسی لے اگر وَارث بیمار ہو جاے تو جان بچانے کے لے اپنی میراث (جائداد، مال و دولت) کو صرف کر دیتا ہے- اِسی افضلُیت کے تناظر میں جہاں قرُان اَمر ہے (سورة الطّلاَق آیت-5)، وہاں وارثانٍ قرُان أُولِي الْأَمْر ہیں- ”اے اِیمان والو اطاعت کرو اللہ، رسول اور أُولِي الْأَمْرِ کی ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-59)- أُولِي الْأَمْرِ وہ ہستیاں ہیں جن کو نامذد کیا رسول نے اور جابر بن عبدللہ (رضی اللہ عنه) کو اپنے خُلافہ جو سب قبیلہٍ قریش سے ہونگے اُن کے نام بتلاے: علی بن ابو طالب، حسن بن علی، حسین بن علی، علی بن حسین، مُحَمَّد بن علی، جعفر بن مُحَمَّد، موسی بن جعفر، علی بن موسی، مُحَمَّد بن علی، علی بن مُحَمَّد، حسن بن علی اور مُحَمَّد المھدی بن حسن- نیز پانچویں خلیفہ اِمام مُحَمَّد باقر (علیہ سَلام) کو اپنا سَلام پہنچانے کی تاکید کی جو کہ انہوں نے پہنچایا- قرُان کی آیات میں کہیں اختلاف نہیں (سورة النِّسَاء آیت-82) اور اٍن 12 آئمہ میں دینٍ اسلام میں اختلاف نہیں پایا جاتا جو کہ اِمامتِ الٰہیہ کی روشن دلیل ہے- ”اس دن ( قیامت) تمام انسانوں کو اُن کے متعلقہ اِمام کےساتھ بلایں گے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الإسراء آیت-71)- یعنی جب تک ایک بھی بندہ اِس دنیا میں موجود ہے اِمام کا وجود ہونا ضروری ہے- شبِ قدر میں مَلَائِکہ کا نزول ہوتا ہے اور وہ لاتے ہیں اللہ کا اَمر (سورة القَدر آیت-4)، جو کہ ثبوت ہے کسی صاحبِ اَمر کے ہونے کا جن کے پاس اَمر آتا ہے- ”کیا وہ اِس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ اٌن کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اٌس وقت اٌسے اِیمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گاِ، (پیغمبر اِن سے) کہہ دو تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں‟ (سورة الأنعَام آیت-158)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”میرے 12 ویں خلیفہ مُحَمَّد المھدی کا جب ظہور ہو گا تو زمین سے خضر اور اِلیاس اور آسمان سے اِدریس اورعیسَیٰ آیں گے مُحَمَّد المھدی کے گواہ کے طور پر اورعیسَیٰ نماز پڑھیں گے مُحَمَّد المھدی کے پیچھے‟ (صحاح ستّہ)- ”دین میں جبر نہیں ۔ ۔ ۔‟ (سورة البَقرَة آیت-256)- ”تم سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-103)- ”جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ بن گئے یقیناً اُن سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں، اُن کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے، وہی اُن کو بتائے گا کہ اّنہوں نے کیا کچھ کیا ہے‟ (سورة الأنعَام آیت-159)-- ”جِس نے اِسلام کے لے اپنے سینے کو کھُولا وہ اپنے پروردگار کے نور (دین) پر ہے ۔ ۔ ۔‟ (سورة الزمرآیت-22)، نیز ”جِس نے بھی اِسلام کے سوا کوئ اور دین چاہا اٌسے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا“ (سورة آلِ عِمرَان آیت-85)- جنہوں نے اللہ کی حُجّت کو مان کر اپنی حُجّت بنائ اُن پر اللہ کا غضب اور عذاب 3ہے (سورة الشورہ آیت-16
غامدی صاحب نے سمجھا ہی نہین ہے کہ اللہ نے صرف قرآن کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ قرآن بہترین حدیث ہے تو اسکے بعد اب تم کونسی حدیث کو مانوگے جسکا مطلب واضح ہے کہ کسی حدیث کو بھی نہیں ماننا چاہئیۓ۔ جب اللہ نے قرآن کے سات سنتوں اور حدیثوں کی پیروی کرنے کو شامل ہی نہیں کیا ہے تو انسانوں کی یہ سنی سنائ باتیں جنکے سچ ہونے کا کوئ بھی ثبوت نہیں ہوتا ہے کیونکہ ہر راوی کے دو دو گواہ ہوتے ہی نہیں ہیں اور کسی نے بھی یہ حدیثیں لکھنے جمع کرنے اور ایک دوسرے کو سناتے وقت اللہ،کی قسم کھا کر یہ کہا ہی نہیں کہ اگر یہ حدیثیں جھوٹی اور انکا بتانا غلط کام ہو تو مجھ پر اور میرے گھر والوں پر اللہ کی لعنت ہو اور وہ حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے یا نہیں یہ بتایا جاۓ۔ اس لیۓ اللہ،کے بتاۓ ہوۓ سچ اور جھوٹ اور صحیح اور غلط کام کو جاننے کے یہی طریقہ اللہ نے بتاۓ ہیں مگر یہ طریقہ جانچنے کا کہ یہ راوی کیا کبھی جھوٹ بولتا تھا یا نہیں، کا اصول اللہ نے بتایا ہی نہیں ہے۔ان سنی سنائ انسانی باتوں نے ہمیشہ سے ہی ھدایات الہی میں تبدیلیاں کی ہیں تو پھر اللہ نے اپنی دوسری کتاب ھدایات میں سچ باتیں دہرائ اور جھوٹی باتوں کو رد کر دیا۔اس لیۓ اللہ نے قرآن کو ایسی روایتوں کے داخل ہونے کو بالکل روک دیا اور قرآن کو معنوی بور پر بالکل محفوظ کر دیا۔لیکن کچھ لوگ اب بھی جھوٹی احادیث کو مان کر قرآن میں معنوی تحریف کرتے رہے ہیں۔ مثلا” ساری تفاسیر احادیث کو سچ مان کر انکی بنیاد پر لکھی گئ ہیں۔ کسی نے بھی لسانی اور اللہ کے بتاۓ تفہیم قرآن کے طریقہ سے آج تک کسی نے بھی نہ ترجمہ کیا اور نہ ہی تفسیر لکھی ہے۔ میں تفہیم کلام، تجزیہ کلام اور علوم تحقیق پڑھ کر قرآن کا ایک تشریحی ترجمہ اپنے پاس لکھ رکھا ہے جو میں لوگوں کو فیسبک اور یو ٹیوب اور ایک وی سائٹ understandingthequranrightly.blog. Com. Logger Liaquat J. Samma کے نام سے گوگل پر موجود ہے۔۔میں سبکو قرآن سمجھنے کا اللہ کا بتایا ہوا طریقہ لوگوں کو مثالوں کے ساتھ بتاتا رہتا ہوں، جو یہ ہے کہ ۱- عربی لفظوں کے واضح اور موزوں معنی تلاش کریں ( عربی گرامر اور لغات قرآن کی مدد سے) اور ۲- ان عربی لفظوں کے آپس میں جو منطقی تعلق اللہ نے رکھا ہے، اسے انکے ربط و ترتیب اور سیاق و سباق پر غور و فکر کرکے قرآنی آیات کو درست سمجھیں۔مثلا” اقیموا الصلات و آتوا الزکات کا مفہوم سارے مفسرین اور مترجمین نے اردو اور انگریزی میں یہ غلط ترجمہ کیا ہے کہ نماز پڑھو مساکین کی مالی مدد کرو۔ اسکا درست مفہوم یہ ہے کہ،” قرآنی ھدایات کی مسلسل پیروی کو عمل کے لیۓ ہمیشہ تیار رکھو اور اپنے اچھے کاموں کو اجر میں بڑھوتری دو،ہے۔
خلَاَفتِ الٰہیہ بہ نفسٍ قرُان
خَلِیفہ کے معنی ہیں جانشین یا نمائندا- خَلِیفة اُلله کا مطلب ہے اللہ کا نمائندا جو اِس دنیا میں اللہ کی حَاکمیت کو قائم کرے- جب اللہ نے فرشتوں سے فرمایا، ”میں زمین میں اپنا خَلِیفہ بنانے والا ہوں، تو وہ بولے تو اٍیسے کو خَلِیفہ بناے گا جو اِس میں فطنہ انگیزی اور خونریزی کرے گا؟ حالانکہ ہم تیری حمد اور پاکیزگی بیان کرتے ہیں‟- جواب میں اللہ نے فرمایا،” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے‟- پھراللہ نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے اور اُنہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا، ”مجھے اِن اشیاء کے نام بتاو اگر تم سچّے ہو‟- جب فرشتے اُن اشیاء کے نام نہ بتلا سکے اور حضرت آدم (علیہ سَلام) نے بتلا دیے تو اللہ کے حکم پر تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ سَلام) کو سجدہ کیا سواے جن ابلیس کے (سورة البَقرَة آیت- 30تا 34)- لِہٰـزا حضرت آدم (علیہ سَلام) کومنصبٍ خلافت علم کی بنیاد پر ملا- اِسی طرح اًس وقت کے سرداروں کی مُخالفت کے باوجود اللہ نے حضرت طالوت (علیہ سَلام) کو عِلم کی بنیاد پر خَلِیفہ مقرر کیا (سورة البَقرَة آیت-247)- نیز اللہ نے اپنے خُلّافہ داوُد اورسُلیمان (علیہ سَلام) کو عِلم و حِکمت سے نوازا اور لوگوں پر فضیلت بخشی (سورة اَلنمل آیت-15)- مزید برآں حضرت موسٰی (علیہ سَلام) کی دعا کے جواب میں حضرت ہارون (علیہ سَلام) کو اّن کا وزیر مقرر کیا ( سُورة طـٰه آیت-29، 30، 32، 36)- اِسی طرح اللہ نے حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) کو جبکہ وہ عّہدہِ نبوت و رسالت پرفایز تھے عظیم قربانی میں کامیابی کے بعد پوری انسانیت کا اِمام بنایا اور ہمیشہ رہنے والی اِمامت کو اولادِ اِبراھیم میں رکھا، نیز بتلایا کہ عُہدہِ اِمامت ظالم کو نہیں ملے گا (سورة البَقرَة آیت-124)- لِہٰـزا اِمام ظلِم اکبر اور ظلمِ اصغر سے پاک ہو گا یعنی معصوم- اِمامت کے چار عہدے ہوتے ہیں: خَلِیفہ، اِمام اُلناس، ہادیِ کُل اور امامُ اُلخلق- حضرت اِبراھیم (علیہ سَلام) اِمام اُلناس تھے لیکن حضرت مُحَمَّد (ﷺ) اِمام اُلخلق تھے، اِسی لے آپ کےاشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا، سورج پلٹا اور پتھروں نے اپکے ہاتھ پر کلمہ پڑھا- نبوت، رِسالت اور اِمامت کےعُہدے علمِ ارواح میں دیے گے- ”اور (مُحَمَّد) یاد کرو اُس وقت کو جب تمھیں سب نبیوں پر گواہ بنایا تھا ۔ ۔ ۔‟ (سورة آلِ عِمرَان آیت-81)- خلافتِ اِلٰہیہ میں، ”اللہ جسے چاہتا ہے دین کے لے چنتا ہے (نبی، رسول یا اِمام)، بندوں میں کسی کو چُننے کا اختیار نہیں اور اللہ اِس شرک سے پاک ہے‟ (سورة القَصَص آیت-68)- ”اِن سب رسولوں (کے لئے ﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‟ (سُورة الْإِسْرَاء آیت-77)- لِہٰـزا خلافتِ الٰہیہ کا سلسلہ تا قیامت اِسی طرح قایم رہے گا اور اِس میں اَوّلین انتحابِ معیارِ فضیلت علم و حکمت ہے نیز خَلِیفہ کا رتبہ ’علیہ سَلامʽ ہوتا ہے
قرُان اَلعلم ہے (سورة آلِ عِمرَان آیت-61)- ” ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے آپ (مُحَمَّد) پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی ہے اور اُس نے آپ کو وہ سب عِلم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے ۔ ۔ ۔‟ (سورة النِّسَاء آیت-113)- قرُان کا حقیقی مفہوم اللہ کےعلاواہ عِلم میں رَاسخ ہستیاں جانتی ہیں (سورة آلٍ عِمرَان آیت-7)، اور اِن ہستیوں میں مولا علی (علیہ سَلام) کا مقام حضرت مُحَمَّد (ﷺ) کے بعد سب سے بلند ہے- اللہ نے ہر شہ کا عِلم اِمامٍ مبین میں رکھا (سوہ یٰس آیت-12) اور حضور نے فرمایا، ”اِمامٍ مبین زاتٍ علی ہے یعنی درخشاں اِمام‟- ” کافر کہتے ہیں کہ آپ رسول نہیں ہیں، آپ اٍن سے کہہ دیں کہ میرے لیۓ ایک اللہ کافی ہے اور دوسرا وہ جس کو کتاب (قرُان) کا عِلم ہے (سورة الرّعد آیت-43)- اِس آیت کے زیل میں حضور نے فرمایا، ”دوسرا گواہ علی ابنٍ ابو طالب ہے‟- قرُان کی اصل جگہ أُوتُوا الْعِلْمَ (جنہیں علم دیا گیا) کے سینے ہیں (سورة العنكبوت آیت-49)- أُوتُوا الْعِلْمَ کے درجات ہم بہت زیادہ بلند کردیں گے (سورة المجادلة آیت-11)- قرُان طاہر ہے اور اِس کی معنویّت کی گہرای تک نہیں پہنچ سکتا مگر طاہر (سورة الواقِعَة آیت-79)- طہارت کے زُمرے میں اہلِ بیت کا مقام بلند ترین ہے کیونکہ مولا علی (علیہ سَلام)، بی بی فاطمہ (سلام اللہ علیہا)، اِمام حسن و حسین (علیہ سَلام) ہی چادرکے اندر حضور کے ساتھ تھے جب آیتِ طتہیر کا یہ حصہ نازل ہوا: ”اللہ نے یہ ارادہ کر لیا کہ صرف اور صرف اے اہلِ بیت تمھیں ہر نجاست سے دور رکھے اور اِس طرح پاک رکھے جو پاکیزگی کا حق ہے‟ (سورة الأحزاب آیت-33
Continue on next comment