Ustad Nouma, can you kindly share same what you said in this video, in your Ramdan English series, please. I need to share with some English speaking audience. Also, can someone please type in the name of scholar n book Ustad mentions-couldn’t find on internet, probably my spelling is incorrect.
نعمان صاحب، آپ نے ۳:۷،۸ کو درست نہیں سمجھا ہے۔ اس پر دوبارہ غور کریں اور توبہ کریں کیونکہ آپ نے اللہ،کی باتوں کو بدل دیا ہے۔مثلا” اللہ نے کہا کہ،” وہی تو ہے جس نے تم پر الکتاب ( اللہ،کی ھدایات کا ایک خاص مجموعہ۔ اس میں ک ت ب مادہ کے معنی لکھنا نہیں ہے بلکہ جو فرض کیا جاۓ ہے جیسے کہ اللہ نے کہا ہے کہ کتب علیکم الصیام ( تم پر روزے فرض کیۓ گۓ ہیں۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ اللہ کی وحی یعنی حکم کے مطابق اسکے رسول نے قرآن میں وہ سب باتیں اور احکامات بتاۓ ہیں تو اسے الکتاب لکھی ہوئ تحریر تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔یہ قرآن ہی اللہ،کی وحی کا نتیجہ ہے۔) اس میں محکمات کی آیات ہیں( اسکا مادہ ح ک م ہے یعنی فیصلہ کرکے کہنا کہ یہ کام کرو اور یہ کام مت کرو تو یہ آیات یعنی پیغامات الہی یا باتیں احکامات بتاتی ہیں۔) وہی الکتاب کی ماں کی طرح ہیں یعنی بنیاد ہیں۔اور اسکے بعد آیات متشابہات ہیں ( اسکا مادہ ش ب ھ ہے یعنی ملتی جلتی باتوں سے کسے بات کو سمجھانا جیسے اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے تو یہ لفظی معنوں نہیں ہے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جیسے روشنی میں تم کام کر سکتے ہو کیونکہ تم دیکھ سکتے ہو تو اسی طرح اللہ نے زمین اور آسمانوں کی راہنمائ اپنے حکم سے دی ہے اور وہ اس پر کام کرتے ہیں) تو جسکے دلوں میں ٹیڑھپن ہے( جو سیدھی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں کیونکہ انکی سوچ ہی غلط ہے) تو وہ اسکی پیروی کرتے ہیں جس سے تشبیہ دی گئ ہے ( جیسے اللہ کا واقعی نور سمجھنا زرتشی لوگوں کی طرح اور کچھ لوگ محمد عس کو بھی نور سمجھتے ہیں جبکہ وہ صرف راہنمائ کرتے تھے) تاکہ فتنہ برپا کریں( فتنہ کے معنی برائ یعنی فساد ہے، الجھن اور مشکلات پیدا کرنا بھی برائ ہے کیونکہ اس بات میں کوئ الجھن ہوتی ہی نہیں ہے) اور اسکی تاویل تلاش کرتے ہیں ( تاوی کے معنی اصلی مراد ہے) اور اسکی تاویل اللہ،کے سوا جانتا ہی نہیں ہے( تاویل کا مادہ ا و ل ہے کہ شروع سے آخر تک کیا بات مراد ہے) ( صرف اللہ،کے جاننے کا مطلب یہ ہے کہ پورا قرآن پڑھ کر سمجھنے والا اللہ کی باتوں کو سمجھ کر معلوم کر لیتا ہے) اور جو علم میں پکے ہیں( پختہ علم رکھتے ہیں) وہ کہینگے کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں ( کہ یہ بات سمجھنے میں مشکل نہیں ہے)یہ سب باتیں ہمارے آقا و مالک کی طرف سے ( احکامات ہیں) ہیں۔اور جو عقل مند ہیں وہی یہ یاد رکھتے ہیں۔( یہ ایسا ہی کہ اگر ہم کسی کو گدھا کہیں تو اسکے معنی بےوقوف ہے، گدھا در حقیقت وہ نہیں ہو سکتا ہے۔ مجازی معنی کو جاننے کی یہی پہلی شرط ہے کہ جس سے تشبیہ دی جاتی ہے وہ ناممکن ہوتی ہے) “۔ “ اے ہمارے آقا و مالک ہمیں ھدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ان سے روگردانی نہ کرنے کی توفیق دینا( لا تزغ ) اور اپنی طرفبسے ہمیں رحمت عطا کرنا( رحمت کے معنی ہیں مہربانی کرکے ضرورت کی ہر چیز دینا) بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔” “ اے ہمارے آقا و مالک بے شک تو اس روز جسکے آنے میں کوئ شک نہیں ہے، جب سب اپنے سامنے اکٹھا کریگا( اعمال کا حساب لینے کے لیۓ)۔ بے شک اللہ ( حاکم اعلی) خلاف وعدہ نہیں کرتا ہے۔( یعنی حساب لینے کا وقت ضروربآئیگا)۔تو مقصد یہ ہوا کہ ہمیں اپنی عقل و بصیرت سے غور و فکر کرکے قرآن کو درست سمجھنا چاہئیۓ اور پھر اس پر زندگی میں عمل کرنا چاہئیۓ تاکہ ہم اپنے اعمال کا حساب دے سکیں یعنی سارے اچھے کام کریں )
ما شاء الله تبارك الرحمن جزاك الله خير أنت رجل عظيم الحمد لله ❤❤
Loving this series in urdu very easy to understand
Bahtreen alim jazakAllah ❤
Excellent teacher
JazakAllah khair
Alhumdolillah
Jazakallah khair
Jazak Allahu khaira
JazakAllah e khair 🌻
Ameen sum ameen
12:12❤❤❤hyyyyyy
ماشاءاللہ
Please keep teaching us through sama tv 📺
Mashallah ❤❤
Jazakallahh
Ameen Ameen
Jazallah
আমিন
👍 Great bro .
Ek Sacha bnde ko nikala q us ka kia qasur that Sach awam tk poncha that Imran Riaz zinda bad
Sir pls explain why you not recite Bismilahah before starting the lecture
Where is the Like Button
Ayat no bataya ha
T
M
R
A
N
Ustad Nouma, can you kindly share same what you said in this video, in your Ramdan English series, please. I need to share with some English speaking audience.
Also, can someone please type in the name of scholar n book Ustad mentions-couldn’t find on internet, probably my spelling is incorrect.
نعمان صاحب، آپ نے ۳:۷،۸ کو درست نہیں سمجھا ہے۔ اس پر دوبارہ غور کریں اور توبہ کریں کیونکہ آپ نے اللہ،کی باتوں کو بدل دیا ہے۔مثلا” اللہ نے کہا کہ،” وہی تو ہے جس نے تم پر الکتاب ( اللہ،کی ھدایات کا ایک خاص مجموعہ۔ اس میں ک ت ب مادہ کے معنی لکھنا نہیں ہے بلکہ جو فرض کیا جاۓ ہے جیسے کہ اللہ نے کہا ہے کہ کتب علیکم الصیام ( تم پر روزے فرض کیۓ گۓ ہیں۔ ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ اللہ کی وحی یعنی حکم کے مطابق اسکے رسول نے قرآن میں وہ سب باتیں اور احکامات بتاۓ ہیں تو اسے الکتاب لکھی ہوئ تحریر تو نہیں کہا جا سکتا تھا۔یہ قرآن ہی اللہ،کی وحی کا نتیجہ ہے۔) اس میں محکمات کی آیات ہیں( اسکا مادہ ح ک م ہے یعنی فیصلہ کرکے کہنا کہ یہ کام کرو اور یہ کام مت کرو تو یہ آیات یعنی پیغامات الہی یا باتیں احکامات بتاتی ہیں۔) وہی الکتاب کی ماں کی طرح ہیں یعنی بنیاد ہیں۔اور اسکے بعد آیات متشابہات ہیں ( اسکا مادہ ش ب ھ ہے یعنی ملتی جلتی باتوں سے کسے بات کو سمجھانا جیسے اللہ زمین اور آسمانوں کا نور ہے تو یہ لفظی معنوں نہیں ہے کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جیسے روشنی میں تم کام کر سکتے ہو کیونکہ تم دیکھ سکتے ہو تو اسی طرح اللہ نے زمین اور آسمانوں کی راہنمائ اپنے حکم سے دی ہے اور وہ اس پر کام کرتے ہیں) تو جسکے دلوں میں ٹیڑھپن ہے( جو سیدھی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں کیونکہ انکی سوچ ہی غلط ہے) تو وہ اسکی پیروی کرتے ہیں جس سے تشبیہ دی گئ ہے ( جیسے اللہ کا واقعی نور سمجھنا زرتشی لوگوں کی طرح اور کچھ لوگ محمد عس کو بھی نور سمجھتے ہیں جبکہ وہ صرف راہنمائ کرتے تھے) تاکہ فتنہ برپا کریں( فتنہ کے معنی برائ یعنی فساد ہے، الجھن اور مشکلات پیدا کرنا بھی برائ ہے کیونکہ اس بات میں کوئ الجھن ہوتی ہی نہیں ہے) اور اسکی تاویل تلاش کرتے ہیں ( تاوی کے معنی اصلی مراد ہے) اور اسکی تاویل اللہ،کے سوا جانتا ہی نہیں ہے( تاویل کا مادہ ا و ل ہے کہ شروع سے آخر تک کیا بات مراد ہے) ( صرف اللہ،کے جاننے کا مطلب یہ ہے کہ پورا قرآن پڑھ کر سمجھنے والا اللہ کی باتوں کو سمجھ کر معلوم کر لیتا ہے) اور جو علم میں پکے ہیں( پختہ علم رکھتے ہیں) وہ کہینگے کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں ( کہ یہ بات سمجھنے میں مشکل نہیں ہے)یہ سب باتیں ہمارے آقا و مالک کی طرف سے ( احکامات ہیں) ہیں۔اور جو عقل مند ہیں وہی یہ یاد رکھتے ہیں۔( یہ ایسا ہی کہ اگر ہم کسی کو گدھا کہیں تو اسکے معنی بےوقوف ہے، گدھا در حقیقت وہ نہیں ہو سکتا ہے۔ مجازی معنی کو جاننے کی یہی پہلی شرط ہے کہ جس سے تشبیہ دی جاتی ہے وہ ناممکن ہوتی ہے) “۔ “ اے ہمارے آقا و مالک ہمیں ھدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کو ان سے روگردانی نہ کرنے کی توفیق دینا( لا تزغ ) اور اپنی طرفبسے ہمیں رحمت عطا کرنا( رحمت کے معنی ہیں مہربانی کرکے ضرورت کی ہر چیز دینا) بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔” “ اے ہمارے آقا و مالک بے شک تو اس روز جسکے آنے میں کوئ شک نہیں ہے، جب سب اپنے سامنے اکٹھا کریگا( اعمال کا حساب لینے کے لیۓ)۔ بے شک اللہ ( حاکم اعلی) خلاف وعدہ نہیں کرتا ہے۔( یعنی حساب لینے کا وقت ضروربآئیگا)۔تو مقصد یہ ہوا کہ ہمیں اپنی عقل و بصیرت سے غور و فکر کرکے قرآن کو درست سمجھنا چاہئیۓ اور پھر اس پر زندگی میں عمل کرنا چاہئیۓ تاکہ ہم اپنے اعمال کا حساب دے سکیں یعنی سارے اچھے کام کریں )
JazakAllah khair