👌🍁 فیروز دین بٹ عرف گونگا پہلوان رستم ھند ولد گاموں پہلوان پٹھہ بوٹا لاھوری 💪🍁 ھند کی رستمی کو بزور_ بازو چھین کر لے جانے والا، قوت سماعت سے یکسر محروم برصغیر کا واحد پہلوان جس کی شکست کو لوگوں نے کبھی بھی دل سے دل سے تسلیم نہ کیا فیروز دین بٹ عرف گونگا پہلوان سیالکوٹی گاموں پہلوان بالی والا اور زینب بی بی کے ھاں 1899 میں سوموار والے دن سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں گونگا بالکل تندرست اور صحیح الجثہ تھا لیکن بعد میں تپ_ محرقہ کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے گونگا و بہرہ ہو گیا۔ گونگے کا دادا بالی پہلوان بھی ایک عظیم پہلوان تھا۔کہتے ہیں گاما رستم زماں سے بھی جب گونگا دس پندرہ سال کا تھا گونگا کے حق میں دعا کرائی گئی۔ وقت وقت کی بات ہے وہی گونگا جوان ہو کر عمر بھر اسی خاندان سے نبرد آزما رھا اور امام بخش رستم ھند کو گرا کر رستم ھند بھی بن گیا۔ گونگے کا نانا حافظ نیاز علی بھی اعلی! درجے کا دنگلیا تھا۔ پہلوان نے پر پرزے نکالے تو اسے پنڈت چونی لعل کی شاگردی میں دے دیا گیا۔ گونگا کی شہرت گاما یکہ سے ٹکرانے کے بعد شروع ہوئی۔گونگا نے امام بخش کو پہلے مقابلے میں ہرایا پھر تین دفعہ امام بخش سے ہارا اور آخری کشتی میں برابر رھا۔ گونگا نے گتا سنگھ، بلہڑ پہلوان ، کریمر، گاما کلو والا امرتسریہ، حمیدہ رحمانی والا رستم ھند سے بھی دو دو ہاتھ کئے* 💪 حمیدہ پہلوان اور گونگا برابر کی جوڑ تھے لیکن ان دونوں شہہ زوروں کے چاروں مقابلوں میں گونگا کا پلہ کچھ بھاری ہی رہا ۔ حمیدہ پہلوان بھولو برادران کے ماموں اور استاد بھی تھے۔1941 کے وار فنڈ دنگل کلکتہ میں تمام بڑے پہلوان شامل ہوئے۔ گونگا نے اکھاڑے میں داخل ہو کر سب کو للکارا لیکن کوئی پہلوان مقابلے پر نہ ایا اور انعامات وغیرہ گونگا سمیٹ کر لے گیا۔ناقدین نے اس کی دو بڑی وجوہات بیان کی ہیں ایک تو گاما جی کی عمر اس وقت زیادہ ہو چکی تھی ( 65 برس ) دوسرے فیروز دین پر جوبن اور تیاری ایسے دھومیں مچاتے ہوئے آئے کہ بڑے بڑے پہلوانوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ش شہر لاھور سارا جاندائے ، رستم ھند گونگا کیڈی شان دا اے ، ڈھاک مار کے پہاڑ پلٹ دیندا ، زور ڈنڈاں دے وچ ودان دا اے۔ گونگے نے کرتار سنگھ کا پھلکا اڑایا، ملتان کے حیات اللہ خاں حاتو سے ملتان میں گونگا کی شکست نے ثابت کیا کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں تھا۔ گنڈا سنگھ بھی گونگا کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ گونگا نے حاتو ملتانی، امام بخش اور رحیم سلطانی والا سے شکست کھائی باقی زیادہ تر کشتیاں جیت لیں۔اس کے علاوہ گونگا دل سنگھ ، پورن سنگھ، سوہن ماگھی والا، مہنا چنگی، بکا پہلوان منگل سنگھ اور حسن بخش ملتانی وغیرہ سے بھی ٹکرایا ۔* مارچ 1944 اتوار والے دن گونگا فرائض_ منصفی ادا کرنے کے لئے لاھور روانہ ہوا۔رستے میں بس الٹنے سے گونگا شہہ زور کی ٹانگ کٹ گئی اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی گونگا کی روح پرواز کر گئی۔ بقول میاں محمد بخش " کجھ وساہ نہ ساہ آئے دا مان کیا پھر کرنا، جس جثے نوں چھنڈ چھنڈ رکھیں خاک اندر ونج دھرنا *" گونگے کے والد کا عمر بھر کا سرمایہ لٹ گیا، یوسف جمال بیٹے کی فرقت میں تڑپتے تڑپتے ایک سال بعد وہ بھی اپنے لخت جگر کے پہلو میں جا سویا ۔ بھلا ہویا میرا چرخہ بھجا ایہہ جند عزابوں چھٹی* بوقت وصال رستم ھند کی عمر صرف 46 سال تھی 😢👍
💖 صوبیدار بشیر پہلوان گجراتی 🍀 ضلع گجرات میں کچہری چوک سے جانب شمال آٹھ ، نو کلومیٹر کے فاصلے پر دو گاؤں ملہو اور کھوکھر آتے ہیں جن سے مغرب کی جانب نصف میل کے فاصلے پر گاؤں میکن شریف ہے۔ میکن شریف میں قبلہ والد صاحب رحمت خان کشمیری کے ہاں 1938 کو پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت پاس کرتے ہی قریبی گاؤں بھٹیاں کے استاد سجاول پہلوان کی شاگردی اختیار کی ۔۔فنی منازل طے کرتے ہوئے جب ارد گرد کے پہلوانوں کے بس سے باہر ہو گئے تو مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے 16برس کی عمر میں آرمی میں بھرتی ہو گئے ۔ آرمی میں بھرتی کے وقت وہ 28 برس کے کڑیل جوان لگتے تھے۔ دادا ابو نے دو بھینسیں اور دو ہی گھوڑے تانگے رکھے ہوئے تھے ۔ ایک بھینس کا دودھ ؛ مکھن لسی وغیرہ اور ایک گھوڑے؛ تانگے کی آمدن والد صاحب کی خوراک کے لئے مخصوص تھے۔۔ خوراک اور جسمانی پیمائش : تین ساڑھے تین کلو دودھ ؛ نصف کلو مکھن ؛ ایک کلو چھوٹا گوشت ؛ حسب_ضرورت موسمی پھل ؛ساگ پات دال روٹی وغیرہ جتنی ضرورت ہوتی۔گوشت کے ناغے کے دنوں میں آدھ پاؤ دال چنا باداموں کی گریاں اور چار مغز کا گھوٹا ایک پاؤ ، شکر ڈال کر پیتے ۔ مکھن کبھی کبھی نصف کلو سے کم اور مہینے میں تین چار دفعہ تین تین پاؤ تک بھی کھا جاتے ؛ سردیوں میں دیسی گھی اور گھی سے بنی ہوئی پنجیری جو خشک میوہ جات سے لبریز اور دیسی گھی میں تر بہ تر ہوتی تین تین چار چار پہلوانی پلیٹوں میں کھا جاتے ۔ قد = 5 فٹ سات انچ ؛ چھاتی کا گھیرا 40" گردن 22" ؛ رانیں اتنی کسرتی کہ بہ محاورہ پنجابی " آپس میں کھہتی تھیں "۔ روزانہ جسمانی کسرت : .ڈنٹر پندرہ سو اور بیٹھک دو ہزار روزانہ ؛ چار جوانوں سے زور کرنا ؛ اکھاڑہ کھودنا ؛ سہاگہ پھیرنا ؛ تین جوانوں کو اٹھا کر اکھاڑے کے سینکڑوں چکر لگانا ؛ دو تین میل کی دوڑ روزانہ کی ورزش میں شامل تھا۔ آرمی میں بھرتی کے بعد امرتسر کے استاد عبد الحق کی شاگردی میں آ گئے جنہوں نے اس ہیرے کو تراشنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ترقی کرتے کرتے فیدر ویٹ چیمپئن بن گئے۔ آرمی میں ہی میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا ۔ صدر ایوب کا دور تھا جو فن_پہلوانی کا عاشق زار تھا اور بھولو برادران بھی اس دور میں منصفی کے لئے آرمی میں تشریف لایا کرتے تھے۔ آرمی میں رہ کر والد صاحب نے بنگلہ دیش ؛ کراچی ؛ لاہور ؛ سیالکوٹ ؛بھمبر ؛ ایبٹ آباد ؛ مری ؛ کوئٹہ ؛ اور بے شمار شہروں میں کشتیاں لڑیں ۔ پرائیویٹ طور پر ملہو کھوکھر ؛ شیخ پور ؛ صاحب لکھو ؛ منگووال ؛ دولت نگر ؛ گجرات ؛ گجرات میں ڈیرہ پگانوالہ پر 5سال مختلف جوانوں کو زور کراتے رہے۔ اٹھارہ سالہ کیرئیر میں 168 کشتیاں لڑیں ؛ دو کے سوا تمام جیت لیں ۔ اٹھارہ سالہ کیرئیر میں کسی جوان نے انہیں تھکا کر اکھاڑے سے باہر نہیں کیا۔ان کا ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ صاحب لکھو میں روزہ رکھ کر کشتی لڑی اور نصف گھنٹے کے بعد حریف کو چت کر دیا ۔ سب سے سخت مقابلہ شریف پہلوان چب ٹھوٹھہ رائے بہادری سے ہوا جسے پندرہ منٹ کی سخت کش مکش کے بعد ڈھاک داؤ لگا کر چت کر دیا۔ دھوبی پٹڑہ ، پٹ نکالنا ، ڈھاک اور کنڈہ پسندیدہ اور رواں داؤ تھے۔ نئے کھلاڑیوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے لنگوٹ کی حفاظت کریں ؛ اچھی خوراک کھائیں ؛ والدین اور استاد کا احترام کریں اور ذہن کو مثبت سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔وہ آج کل بعمر 84 سال صحت مند اور چاق و چوبند ہیں ؛ صوم و صلوات کے پابند اور پوتے پوتیوں سے جی بہلاتے ہیں ۔۔۔🐓🦆 ان کا کہنا ہے کہ " جوانی بے داغ ہو تو بڑھاپا محسوس نہیں ہوتا" 💪🔥
پاکستان کے نامور شہہ زور ارشد بجلی پہلوان لاھوری جوکہ فخر_ پاکستان زبیر اسلم المعروف جھاراپہلوان مرحوم کے کوچ بھی تھے کو ھم سے بچھڑے ھوئے آ ج چھبیس برس ہونے کو ہیں😢 ۔ارشد بجلی پہلوان اپنے کرنٹ نما بدن میں بڑی پھرتی رکھتے تھے اور انکا کشتی لڑنے کا انداز بڑا نرالا ھوتا تھا ۔ وہ کشتی کے میدان میں داؤ پیچ اور طاقت کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے حریف کو ورطہ میں ڈال دیتے تھے ۔ انہوں نے پاکستان کے نامور پہلوانوں سے کشتیاں لڑ کر فن پہلوانی میں نام پیدا کیا اور دنگلوں کے بادشاہ مستری محمد یوسف پیٹیاں والہ مرحوم لاھوری ، جاوید عرف جیدی پہلوان برادر پنا پہلوان مرحوم لاھوری ، حاجی محمد بشیر عرف بھاء بلا مرحوم لاھوری ، خادم حسین برادر مونا پہلوان ملتانی اور اپنے بھائیوں ملک محمد اشرف مرحوم و محمد افضل عرف بھولا پہلوان کے باہمی اشتراک سے پاکستان کے نامور پہلوانوں کے بڑے بڑے کانٹے دار دنگل آ رگنائز کرکے فن کشتی کو دوام بخشا ، آجکل انکے فرزند محسن ارشد اپنے والد کی روایات کو برقرار رکھتے ھوئے فن پہلوانی کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں👌💐 ، جب تک فن_ پہلوانی زندہ ھے ارشد بجلی پہلوان کانام بھی زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت و بخشش فرماکر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور انکی لحد کو اپنی رحمتوں سے معمور فرمائے۔ آ مین یارب العالمین دعاگو : خالد بشیر گجراتی **🌹
💖 صوبیدار بشیر پہلوان گجراتی 🍀 ضلع گجرات میں کچہری چوک سے جانب شمال آٹھ ، نو کلومیٹر کے فاصلے پر دو گاؤں ملہو اور کھوکھر آتے ہیں جن سے مغرب کی جانب نصف میل کے فاصلے پر گاؤں میکن شریف ہے۔ میکن شریف میں قبلہ والد صاحب رحمت خان کشمیری کے ہاں 1938 کو پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت پاس کرتے ہی قریبی گاؤں بھٹیاں کے استاد سجاول پہلوان کی شاگردی اختیار کی ۔۔فنی منازل طے کرتے ہوئے جب ارد گرد کے پہلوانوں کے بس سے باہر ہو گئے تو مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے 16برس کی عمر میں آرمی میں بھرتی ہو گئے ۔ آرمی میں بھرتی کے وقت وہ 28 برس کے کڑیل جوان لگتے تھے۔ دادا ابو نے دو بھینسیں اور دو ہی گھوڑے تانگے رکھے ہوئے تھے ۔ ایک بھینس کا دودھ ؛ مکھن لسی وغیرہ اور ایک گھوڑے؛ تانگے کی آمدن والد صاحب کی خوراک کے لئے مخصوص تھے۔۔ خوراک اور جسمانی پیمائش : تین ساڑھے تین کلو دودھ ؛ نصف کلو مکھن ؛ ایک کلو چھوٹا گوشت ؛ حسب_ضرورت موسمی پھل ؛ساگ پات دال روٹی وغیرہ جتنی ضرورت ہوتی۔گوشت کے ناغے کے دنوں میں آدھ پاؤ دال چنا باداموں کی گریاں اور چار مغز کا گھوٹا ایک پاؤ ، شکر ڈال کر پیتے ۔ مکھن کبھی کبھی نصف کلو سے کم اور مہینے میں تین چار دفعہ تین تین پاؤ تک بھی کھا جاتے ؛ سردیوں میں دیسی گھی اور گھی سے بنی ہوئی پنجیری جو خشک میوہ جات سے لبریز اور دیسی گھی میں تر بہ تر ہوتی تین تین چار چار پہلوانی پلیٹوں میں کھا جاتے ۔ قد = 5 فٹ سات انچ ؛ چھاتی کا گھیرا 40" گردن 22" ؛ رانیں اتنی کسرتی کہ بہ محاورہ پنجابی " آپس میں کھہتی تھیں "۔ روزانہ جسمانی کسرت : .ڈنٹر پندرہ سو اور بیٹھک دو ہزار روزانہ ؛ چار جوانوں سے زور کرنا ؛ اکھاڑہ کھودنا ؛ سہاگہ پھیرنا ؛ تین جوانوں کو اٹھا کر اکھاڑے کے سینکڑوں چکر لگانا ؛ دو تین میل کی دوڑ روزانہ کی ورزش میں شامل تھا۔ آرمی میں بھرتی کے بعد امرتسر کے استاد عبد الحق کی شاگردی میں آ گئے جنہوں نے اس ہیرے کو تراشنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ترقی کرتے کرتے فیدر ویٹ چیمپئن بن گئے۔ آرمی میں ہی میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا ۔ صدر ایوب کا دور تھا جو فن_پہلوانی کا عاشق زار تھا اور بھولو برادران بھی اس دور میں منصفی کے لئے آرمی میں تشریف لایا کرتے تھے۔ آرمی میں رہ کر والد صاحب نے بنگلہ دیش ؛ کراچی ؛ لاہور ؛ سیالکوٹ ؛بھمبر ؛ ایبٹ آباد ؛ مری ؛ کوئٹہ ؛ اور بے شمار شہروں میں کشتیاں لڑیں ۔ پرائیویٹ طور پر ملہو کھوکھر ؛ شیخ پور ؛ صاحب لکھو ؛ منگووال ؛ دولت نگر ؛ گجرات ؛ گجرات میں ڈیرہ پگانوالہ پر 5سال مختلف جوانوں کو زور کراتے رہے۔ اٹھارہ سالہ کیرئیر میں 168 کشتیاں لڑیں ؛ دو کے سوا تمام جیت لیں ۔ اٹھارہ سالہ کیرئیر میں کسی جوان نے انہیں تھکا کر اکھاڑے سے باہر نہیں کیا۔ان کا ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ صاحب لکھو میں روزہ رکھ کر کشتی لڑی اور نصف گھنٹے کے بعد حریف کو چت کر دیا ۔ سب سے سخت مقابلہ شریف پہلوان چب ٹھوٹھہ رائے بہادری سے ہوا جسے پندرہ منٹ کی سخت کش مکش کے بعد ڈھاک داؤ لگا کر چت کر دیا۔ دھوبی پٹڑہ ، پٹ نکالنا ، ڈھاک اور کنڈہ پسندیدہ اور رواں داؤ تھے۔ نئے کھلاڑیوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے لنگوٹ کی حفاظت کریں ؛ اچھی خوراک کھائیں ؛ والدین اور استاد کا احترام کریں اور ذہن کو مثبت سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔وہ آج کل بعمر 84 سال صحت مند اور چاق و چوبند ہیں ؛ صوم و صلوات کے پابند اور پوتے پوتیوں سے جی بہلاتے ہیں ۔۔۔🐓🦆 ان کا کہنا ہے کہ " جوانی بے داغ ہو تو بڑھاپا محسوس نہیں ہوتا" 💪🔥
Purane Pakistani pahalvan ka koi mukabala nahin kar sakta tha puri duniya mein Unka Bada Naam tha
ਬਹੁਤ ਵਧੀਆ very nice
👌🍁 فیروز دین بٹ عرف گونگا پہلوان رستم ھند ولد گاموں پہلوان پٹھہ بوٹا لاھوری 💪🍁 ھند کی رستمی کو بزور_ بازو چھین کر لے جانے والا، قوت سماعت سے یکسر محروم برصغیر کا واحد پہلوان جس کی شکست کو لوگوں نے کبھی بھی دل سے دل سے تسلیم نہ کیا فیروز دین بٹ عرف گونگا پہلوان سیالکوٹی گاموں پہلوان بالی والا اور زینب بی بی کے ھاں 1899 میں سوموار والے دن سیالکوٹ میں پیدا ہوا۔ بچپن میں گونگا بالکل تندرست اور صحیح الجثہ تھا لیکن بعد میں تپ_ محرقہ کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے گونگا و بہرہ ہو گیا۔ گونگے کا دادا بالی پہلوان بھی ایک عظیم پہلوان تھا۔کہتے ہیں گاما رستم زماں سے بھی جب گونگا دس پندرہ سال کا تھا گونگا کے حق میں دعا کرائی گئی۔ وقت وقت کی بات ہے وہی گونگا جوان ہو کر عمر بھر اسی خاندان سے نبرد آزما رھا اور امام بخش رستم ھند کو گرا کر رستم ھند بھی بن گیا۔ گونگے کا نانا حافظ نیاز علی بھی اعلی! درجے کا دنگلیا تھا۔ پہلوان نے پر پرزے نکالے تو اسے پنڈت چونی لعل کی شاگردی میں دے دیا گیا۔ گونگا کی شہرت گاما یکہ سے ٹکرانے کے بعد شروع ہوئی۔گونگا نے امام بخش کو پہلے مقابلے میں ہرایا پھر تین دفعہ امام بخش سے ہارا اور آخری کشتی میں برابر رھا۔ گونگا نے گتا سنگھ، بلہڑ پہلوان ، کریمر، گاما کلو والا امرتسریہ، حمیدہ رحمانی والا رستم ھند سے بھی دو دو ہاتھ کئے* 💪 حمیدہ پہلوان اور گونگا برابر کی جوڑ تھے لیکن ان دونوں شہہ زوروں کے چاروں مقابلوں میں گونگا کا پلہ کچھ بھاری ہی رہا ۔ حمیدہ پہلوان بھولو برادران کے ماموں اور استاد بھی تھے۔1941 کے وار فنڈ دنگل کلکتہ میں تمام بڑے پہلوان شامل ہوئے۔ گونگا نے اکھاڑے میں داخل ہو کر سب کو للکارا لیکن کوئی پہلوان مقابلے پر نہ ایا اور انعامات وغیرہ گونگا سمیٹ کر لے گیا۔ناقدین نے اس کی دو بڑی وجوہات بیان کی ہیں ایک تو گاما جی کی عمر اس وقت زیادہ ہو چکی تھی ( 65 برس ) دوسرے فیروز دین پر جوبن اور تیاری ایسے دھومیں مچاتے ہوئے آئے کہ بڑے بڑے پہلوانوں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ش شہر لاھور سارا جاندائے ، رستم ھند گونگا کیڈی شان دا اے ، ڈھاک مار کے پہاڑ پلٹ دیندا ، زور ڈنڈاں دے وچ ودان دا اے۔ گونگے نے کرتار سنگھ کا پھلکا اڑایا، ملتان کے حیات اللہ خاں حاتو سے ملتان میں گونگا کی شکست نے ثابت کیا کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں تھا۔ گنڈا سنگھ بھی گونگا کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ گونگا نے حاتو ملتانی، امام بخش اور رحیم سلطانی والا سے شکست کھائی باقی زیادہ تر کشتیاں جیت لیں۔اس کے علاوہ گونگا دل سنگھ ، پورن سنگھ، سوہن ماگھی والا، مہنا چنگی، بکا پہلوان منگل سنگھ اور حسن بخش ملتانی وغیرہ سے بھی ٹکرایا ۔* مارچ 1944 اتوار والے دن گونگا فرائض_ منصفی ادا کرنے کے لئے لاھور روانہ ہوا۔رستے میں بس الٹنے سے گونگا شہہ زور کی ٹانگ کٹ گئی اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی گونگا کی روح پرواز کر گئی۔ بقول میاں محمد بخش " کجھ وساہ نہ ساہ آئے دا مان کیا پھر کرنا، جس جثے نوں چھنڈ چھنڈ رکھیں خاک اندر ونج دھرنا *" گونگے کے والد کا عمر بھر کا سرمایہ لٹ گیا، یوسف جمال بیٹے کی فرقت میں تڑپتے تڑپتے ایک سال بعد وہ بھی اپنے لخت جگر کے پہلو میں جا سویا ۔ بھلا ہویا میرا چرخہ بھجا ایہہ جند عزابوں چھٹی* بوقت وصال رستم ھند کی عمر صرف 46 سال تھی 😢👍
Osam
💖 صوبیدار بشیر پہلوان گجراتی 🍀
ضلع گجرات میں کچہری چوک سے جانب شمال آٹھ ، نو کلومیٹر کے فاصلے پر دو گاؤں ملہو اور کھوکھر آتے ہیں جن سے مغرب کی جانب نصف میل کے فاصلے پر گاؤں میکن شریف ہے۔
میکن شریف میں قبلہ والد صاحب رحمت خان کشمیری کے ہاں 1938 کو پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت پاس کرتے ہی قریبی گاؤں بھٹیاں کے استاد سجاول پہلوان کی شاگردی اختیار کی ۔۔فنی منازل طے کرتے ہوئے جب ارد گرد کے پہلوانوں کے بس سے باہر ہو گئے تو مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے 16برس کی عمر میں آرمی میں بھرتی ہو گئے ۔ آرمی میں بھرتی کے وقت وہ 28 برس کے کڑیل جوان لگتے تھے۔ دادا ابو نے دو بھینسیں اور دو ہی گھوڑے تانگے رکھے ہوئے تھے ۔ ایک بھینس کا دودھ ؛ مکھن لسی وغیرہ اور ایک گھوڑے؛ تانگے کی آمدن والد صاحب کی خوراک کے لئے مخصوص تھے۔۔
خوراک اور جسمانی پیمائش :
تین ساڑھے تین کلو دودھ ؛ نصف کلو مکھن ؛ ایک کلو چھوٹا گوشت ؛ حسب_ضرورت موسمی پھل ؛ساگ پات دال روٹی وغیرہ جتنی ضرورت ہوتی۔گوشت کے ناغے کے دنوں میں آدھ پاؤ دال چنا باداموں کی گریاں اور چار مغز کا گھوٹا ایک پاؤ ، شکر ڈال کر پیتے ۔ مکھن کبھی کبھی نصف کلو سے کم اور مہینے میں تین چار دفعہ تین تین پاؤ تک بھی کھا جاتے ؛ سردیوں میں دیسی گھی اور گھی سے بنی ہوئی پنجیری جو خشک میوہ جات سے لبریز اور دیسی گھی میں تر بہ تر ہوتی تین تین چار چار پہلوانی پلیٹوں میں کھا جاتے ۔ قد = 5 فٹ سات انچ ؛ چھاتی کا گھیرا 40" گردن 22" ؛ رانیں اتنی کسرتی کہ بہ محاورہ پنجابی " آپس میں کھہتی تھیں "۔ روزانہ جسمانی کسرت :
.ڈنٹر پندرہ سو اور بیٹھک دو ہزار روزانہ ؛ چار جوانوں سے زور کرنا ؛ اکھاڑہ کھودنا ؛ سہاگہ پھیرنا ؛ تین جوانوں کو اٹھا کر اکھاڑے کے سینکڑوں چکر لگانا ؛ دو تین میل کی دوڑ روزانہ کی ورزش میں شامل تھا۔ آرمی میں بھرتی کے بعد امرتسر کے استاد عبد الحق کی شاگردی میں آ گئے جنہوں نے اس ہیرے کو تراشنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ترقی کرتے کرتے فیدر ویٹ چیمپئن بن گئے۔ آرمی میں ہی میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا ۔ صدر ایوب کا دور تھا جو فن_پہلوانی کا عاشق زار تھا اور بھولو برادران بھی اس دور میں منصفی کے لئے آرمی میں تشریف لایا کرتے تھے۔ آرمی میں رہ کر والد صاحب نے بنگلہ دیش ؛ کراچی ؛ لاہور ؛ سیالکوٹ ؛بھمبر ؛ ایبٹ آباد ؛ مری ؛ کوئٹہ ؛ اور بے شمار شہروں میں کشتیاں لڑیں ۔ پرائیویٹ طور پر ملہو کھوکھر ؛ شیخ پور ؛ صاحب لکھو ؛ منگووال ؛ دولت نگر ؛ گجرات ؛ گجرات میں ڈیرہ پگانوالہ پر 5سال مختلف جوانوں کو زور کراتے رہے۔ اٹھارہ سالہ کیرئیر میں 168 کشتیاں لڑیں ؛ دو کے سوا تمام جیت لیں ۔
اٹھارہ سالہ کیرئیر میں کسی جوان نے انہیں تھکا کر اکھاڑے سے باہر نہیں کیا۔ان کا ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ صاحب لکھو میں روزہ رکھ کر کشتی لڑی اور نصف گھنٹے کے بعد حریف کو چت کر دیا ۔ سب سے سخت مقابلہ شریف پہلوان چب ٹھوٹھہ رائے بہادری سے ہوا جسے پندرہ منٹ کی سخت کش مکش کے بعد ڈھاک داؤ لگا کر چت کر دیا۔ دھوبی پٹڑہ ، پٹ نکالنا ، ڈھاک اور کنڈہ پسندیدہ اور رواں داؤ تھے۔ نئے کھلاڑیوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے لنگوٹ کی حفاظت کریں ؛ اچھی خوراک کھائیں ؛ والدین اور استاد کا احترام کریں اور ذہن کو مثبت سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔وہ آج کل بعمر 84 سال صحت مند اور چاق و چوبند ہیں ؛ صوم و صلوات کے پابند اور پوتے پوتیوں سے جی بہلاتے ہیں ۔۔۔🐓🦆
ان کا کہنا ہے کہ "
جوانی بے داغ ہو تو بڑھاپا محسوس نہیں ہوتا" 💪🔥
پاکستان کے نامور شہہ زور ارشد بجلی پہلوان لاھوری جوکہ فخر_ پاکستان زبیر اسلم المعروف جھاراپہلوان مرحوم کے کوچ بھی تھے کو ھم سے بچھڑے ھوئے آ ج چھبیس برس ہونے کو ہیں😢 ۔ارشد بجلی پہلوان اپنے کرنٹ نما بدن میں بڑی پھرتی رکھتے تھے اور انکا کشتی لڑنے کا انداز بڑا نرالا ھوتا تھا ۔ وہ کشتی کے میدان میں داؤ پیچ اور طاقت کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے حریف کو ورطہ میں ڈال دیتے تھے ۔ انہوں نے پاکستان کے نامور پہلوانوں سے کشتیاں لڑ کر فن پہلوانی میں نام پیدا کیا اور دنگلوں کے بادشاہ مستری محمد یوسف پیٹیاں والہ مرحوم لاھوری ، جاوید عرف جیدی پہلوان برادر پنا پہلوان مرحوم لاھوری ، حاجی محمد بشیر عرف بھاء بلا مرحوم لاھوری ، خادم حسین برادر مونا پہلوان ملتانی اور اپنے بھائیوں ملک محمد اشرف مرحوم و محمد افضل عرف بھولا پہلوان کے باہمی اشتراک سے پاکستان کے نامور پہلوانوں کے بڑے بڑے کانٹے دار دنگل آ رگنائز کرکے فن کشتی کو دوام بخشا ،
آجکل انکے فرزند محسن ارشد اپنے والد کی روایات کو برقرار رکھتے ھوئے فن پہلوانی کی ترویج و ترقی کے لیے کوشاں ہیں👌💐 ، جب تک فن_ پہلوانی زندہ ھے ارشد بجلی پہلوان کانام بھی زندہ رہے گا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت و بخشش فرماکر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے اور انکی لحد کو اپنی رحمتوں سے معمور فرمائے۔
آ مین یارب العالمین
دعاگو : خالد بشیر گجراتی **🌹
Keep it up
Good job
Good work🤠
ماشاءاللہ جیتے رھو
interview Punjabi may karo bhai
Not professional team. Camera should be close and use Punjabi occasionally.
Maa sha Allah
waa g waa 👌
Great
اینکر صاحب پنجابی بولن وچ کی مسئلہ اے؟
سارے پالو ا نا اں نو ں سلیوٹ 👑
Pehlwan g ny kha k kalia pehlwan ny kikr Singh, pehlwan ko saf chit kia, yeh btain k kushti kidr kis sehr main hoe Thea, hmary mutabik aisa nhe hua.
Wah g wah
Masha allah
MashaAllah
oh 🙌🏼 wadia g
I love Pakistan pehelwans
Yar sooo far camera
Ajeeb loog Apne he papa ka interview lyn Raha hain😂😂😂
Rabnawaz Hunjan se lodhran me shikasat khae the.
Tussi punjabi kyo ni bolde
Sale hoye ay urdu de
It's not butt it's Bhatt and Bhatt is hindu pandit surname
Gujranwala me olympic me kisi pehlwan ne medle nahi jeeta.
Matlab 100 saal harnay ke baad app nay abid pehalwan ku haraya
Gurjar h
Desi bakraa khaya he khaau pehlbaan
Ye apne father ka interview ker raha ha
Shahbaz sharif or ye donno pagal hain hahahaha hahaha hahaha
Ye tu moun se beemar lagta hai
FRAUD and FAKE...these are Nooraa Pehelwan.
Huhuhuhuhuh
Ye cholly sale karta hai
Hlo g
💖 صوبیدار بشیر پہلوان گجراتی 🍀
ضلع گجرات میں کچہری چوک سے جانب شمال آٹھ ، نو کلومیٹر کے فاصلے پر دو گاؤں ملہو اور کھوکھر آتے ہیں جن سے مغرب کی جانب نصف میل کے فاصلے پر گاؤں میکن شریف ہے۔
میکن شریف میں قبلہ والد صاحب رحمت خان کشمیری کے ہاں 1938 کو پیدا ہوئے۔ چوتھی جماعت پاس کرتے ہی قریبی گاؤں بھٹیاں کے استاد سجاول پہلوان کی شاگردی اختیار کی ۔۔فنی منازل طے کرتے ہوئے جب ارد گرد کے پہلوانوں کے بس سے باہر ہو گئے تو مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کر کے 16برس کی عمر میں آرمی میں بھرتی ہو گئے ۔ آرمی میں بھرتی کے وقت وہ 28 برس کے کڑیل جوان لگتے تھے۔ دادا ابو نے دو بھینسیں اور دو ہی گھوڑے تانگے رکھے ہوئے تھے ۔ ایک بھینس کا دودھ ؛ مکھن لسی وغیرہ اور ایک گھوڑے؛ تانگے کی آمدن والد صاحب کی خوراک کے لئے مخصوص تھے۔۔
خوراک اور جسمانی پیمائش :
تین ساڑھے تین کلو دودھ ؛ نصف کلو مکھن ؛ ایک کلو چھوٹا گوشت ؛ حسب_ضرورت موسمی پھل ؛ساگ پات دال روٹی وغیرہ جتنی ضرورت ہوتی۔گوشت کے ناغے کے دنوں میں آدھ پاؤ دال چنا باداموں کی گریاں اور چار مغز کا گھوٹا ایک پاؤ ، شکر ڈال کر پیتے ۔ مکھن کبھی کبھی نصف کلو سے کم اور مہینے میں تین چار دفعہ تین تین پاؤ تک بھی کھا جاتے ؛ سردیوں میں دیسی گھی اور گھی سے بنی ہوئی پنجیری جو خشک میوہ جات سے لبریز اور دیسی گھی میں تر بہ تر ہوتی تین تین چار چار پہلوانی پلیٹوں میں کھا جاتے ۔ قد = 5 فٹ سات انچ ؛ چھاتی کا گھیرا 40" گردن 22" ؛ رانیں اتنی کسرتی کہ بہ محاورہ پنجابی " آپس میں کھہتی تھیں "۔ روزانہ جسمانی کسرت :
.ڈنٹر پندرہ سو اور بیٹھک دو ہزار روزانہ ؛ چار جوانوں سے زور کرنا ؛ اکھاڑہ کھودنا ؛ سہاگہ پھیرنا ؛ تین جوانوں کو اٹھا کر اکھاڑے کے سینکڑوں چکر لگانا ؛ دو تین میل کی دوڑ روزانہ کی ورزش میں شامل تھا۔ آرمی میں بھرتی کے بعد امرتسر کے استاد عبد الحق کی شاگردی میں آ گئے جنہوں نے اس ہیرے کو تراشنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ترقی کرتے کرتے فیدر ویٹ چیمپئن بن گئے۔ آرمی میں ہی میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا ۔ صدر ایوب کا دور تھا جو فن_پہلوانی کا عاشق زار تھا اور بھولو برادران بھی اس دور میں منصفی کے لئے آرمی میں تشریف لایا کرتے تھے۔ آرمی میں رہ کر والد صاحب نے بنگلہ دیش ؛ کراچی ؛ لاہور ؛ سیالکوٹ ؛بھمبر ؛ ایبٹ آباد ؛ مری ؛ کوئٹہ ؛ اور بے شمار شہروں میں کشتیاں لڑیں ۔ پرائیویٹ طور پر ملہو کھوکھر ؛ شیخ پور ؛ صاحب لکھو ؛ منگووال ؛ دولت نگر ؛ گجرات ؛ گجرات میں ڈیرہ پگانوالہ پر 5سال مختلف جوانوں کو زور کراتے رہے۔ اٹھارہ سالہ کیرئیر میں 168 کشتیاں لڑیں ؛ دو کے سوا تمام جیت لیں ۔
اٹھارہ سالہ کیرئیر میں کسی جوان نے انہیں تھکا کر اکھاڑے سے باہر نہیں کیا۔ان کا ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ صاحب لکھو میں روزہ رکھ کر کشتی لڑی اور نصف گھنٹے کے بعد حریف کو چت کر دیا ۔ سب سے سخت مقابلہ شریف پہلوان چب ٹھوٹھہ رائے بہادری سے ہوا جسے پندرہ منٹ کی سخت کش مکش کے بعد ڈھاک داؤ لگا کر چت کر دیا۔ دھوبی پٹڑہ ، پٹ نکالنا ، ڈھاک اور کنڈہ پسندیدہ اور رواں داؤ تھے۔ نئے کھلاڑیوں کو پیغام دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنے لنگوٹ کی حفاظت کریں ؛ اچھی خوراک کھائیں ؛ والدین اور استاد کا احترام کریں اور ذہن کو مثبت سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔وہ آج کل بعمر 84 سال صحت مند اور چاق و چوبند ہیں ؛ صوم و صلوات کے پابند اور پوتے پوتیوں سے جی بہلاتے ہیں ۔۔۔🐓🦆
ان کا کہنا ہے کہ "
جوانی بے داغ ہو تو بڑھاپا محسوس نہیں ہوتا" 💪🔥
Pahlwan g. Kala pahlwan jalal puri butt family say thay. Ap k dada thy ap ko pata he ni janab.......
@@naghmanshahid3795 آپ کے پاس اس کا کوئی حوالہ ہے تو لکھیں
مطلب کالیا جلالپوری بٹ برادری سے تھے
Bakwas kar raha hai