@@khalidsaleem8194 پیارے بھائی اپنے مسلمان بھائیوں پر منافق ہونے کا فتوی لگانے سے گریز کیا کریں کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کفر لوٹ آتا ہے اسی شخص کی طرف اگر اس کا مقابل کافر نہیں ہوتا۔ جزاک اللہ خیرا
You have earned immense respect for telling the truth to the Ummah! Really disappointed from youth club for trying to hide the atrocities commited by the Banu Umayyah against Ahle ul Bait!
😂😂 abe doglo jab tumhe pata h ki hz movawiya ra ne bahut julm kiye h ahle bayt par to unko raziallah unhu kyon kehte ho ?? Munafiq jaisi baat mat karo ...hum jise ahle bayt ka dushman manenge uska respect kabhi nahi karenge .. Munafiq jaisa mat bolo ...lanat ho munafiko par ...
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
تیرے ماں باپ محلے میں کسی سے جوتم جوت ہو جائیں اور تو سارے شہر میں لوگوں کو جھگڑے کے بارے میں روز بتاتے پھرو یہ کہہ کر کہ میں تو ماں باپ کی خدمت و عظمت کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہوں تو سارا شہر تجھے لعن طعن کرے گا اور بیوقوف سمجھے گا ۔
Ali Bai critical BT KO asan fyham myn smjhty Hain Allah bless him ameen Hazrat Ali (a.s)ki fazilat B ala Andaz myn bayan ki ...Karbala Tou smjhaya hi Ali Bai ny Hy Sahi meaning myn ❤❤
It was important to bring these matters to every Muslim so that we can become one, otherwise we will stay divided and praise the sact we are from or support... which will be disobedience of Allah, cause we are to be one and hold strong to the rope of Allah (the Quran)
The Prophet passed by `Ammar and removed the dust off his head and said, May Allah be merciful to `Ammar. He will be killed by a rebellious aggressive group. `Ammar will invite them to (obey) Allah and they will invite him to the (Hell) fire.
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
Muje mere khandan wale hi muje gumrah kehte hain..aur dost bhi Wahabi kehte hain..mera dil dukhta he.. Maine shirk ko Khatam Kar diya ..jo karta tha...
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
پیارے بھائی اہل بیت رضوان بھی صحابہ کرام کی صف میں شامل ہیں اور صحابہ کرام میں بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
Apnay agents k zareye shia sunni fasad phehlatay raho..aur america aur israel nay sirf last 25 years may almost half million Muslims shaheed hogae afghanistan iraq libiya shaam palestine lebonan may..kyon agar ye agent apna kaam bund karengay tu hum logo ka dimaag jihaad ki terf jaega aur Allah k ahkamaat ki terf jaega..per logo aisay topics discuss may maza ata jinse deen ko sirf nuqsan hoa hai almost 1400 years may
You can never hide the truth if you hide one-day it will reveal good job engineer Sahab he is only one man in Pakistan giving right direction to people❤
چھپانا اور بات ہے اور بیان نہ کرنا اور بات ہے ۔ پاکستان کے کسی دفتر میں کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا اور مبلغین اسلام جن میں مرزا بھی شامل ہے عوام کو مشاجرات صحابہ سناتے رہیں دین کی یہ کون سی خدمت ہے ۔پاکستان کے 90 فی صد مسلمان جھوٹے اور بےایمان ہیں مبلغین اسلام اس کو کیوں چھپاتے ہیں ۔ یہ سراسر جرائم پیشہ افراد کی فیور ہے ۔ مرزا مشاجرات صحابہ بیان کرتا ہے اور دوسری طرف کرپٹ ٹولے کی حمایت کرتا ہے ۔
Aagy dekha TU eng....peechy dekha TU eng.Ali..0pper dekha TU eng.Ali...neechy dekha TU eng Ali.......(.janab misbahi sb....hun theek E....)....Hamara eng.Ali Haq py he.....❤
Engrr Ali Mirza is doing a good job and making life easier for a common man. How can you judge M Ali Mirza and how can you tell what should be hidden from ppl and what should be revealed. How do you think you have the intellact but others do not have the intellect to understand. I'm happy that Engrr has given the true picture.
نماز روزے کی پابندی کریں ۔شرک سے دور رہیں۔ذکات خیرات صدقہ پر ذور ڈالیں ۔۔۔الہم اجر نا من النار۔درود شریف سو مرتبہ ۔۔۔اللہ پاک میری اور آپ کی مغفرت فرمائے اور سب کی مغفرت فرمائے
Phir awam un naas k zimmey bhi ye aata hai k wo hadees kisi alim se seekhain. Ye kaisi baat hai k aik hadees sunaney wala manjiyan thoktay phir rahey hain. Kia Allah k Nabi saw ya sahabah ne aisi trbiyyat fermai hai?
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
Haan Imam Abu Hanifa aur Imam Malik se Bughz aur apne plumber ko Imam 😂 Apne mu miyan mithu 😜 jaisey deobandi brailvi ahle-hadees shiya ghalat waisey hi engineer firqa b ghalat
صحابہ کرام نے جو غلطیاں کی ہیں وہ اگر حدیث میں موجود ہیں تو پھر عوام کو لازمی بتانی چاہیے کیونکہ اسی سے ہم سیکھتے ہیں کہ کون سی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ غلطیاں سیاسی معاملات سے ہوں تو پھر تو اشد ضروری ہیں کہ بیان کی جائیں۔
Wahh mirza sahib allah aapko slamat rkha hum b shia sunni prr ykeen nhi rkhta but manta ae apna nabi saw ki hadees ko ahlebayet ko aur sahaba rasool ko haq 4 yaar khulfa ur rashideen❤❤❤
Wah.. To ilyas qadri sahb ka pata apko sara? Na madrisa gaye na deeni koi taleem hasil ki business kia then aik jamaat bana k chanda ka system shuru kia aur ab ameere ehlesunnat hain woww. Aik anparh ameer ehle sunnat love you musalmano maan gya apko
علی بھائ خا کردار تو سب کے سے سامنے ہے۔ شروع سے ہی وہ اسلامی گھرانے اور تعلیمات میں رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ کافی نہیں ہے تو میرے بھائ آپ پڑھے لکھے ہو جاو قرآن کا مطالعہ کرو صحیح العقیدہ حدیث پڑھو اور سمجھو کسی کو درمیان میں نہ ڈالو ، اللہ آپکے ذہن کو کھولے گا اور آپ دہن سیکھو گے۔ بس اتنا سا کام ہے۔
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
@@khalidsaleem8194 جو شخص لوگوں کو قرآن سے جوڑے وھی بہتر ھے ۔۔۔یقننا انجنئیر سے پہلے بھی لوگ قرآن کا درس دیتے تھے لیکن اختلافی موضوعات پہ اپنی زبان بند کرتے تھے ۔۔۔اس وجہ سے انجنیر زبردست ھے
@@khalidsaleem8194 اگر کوئی خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی مانتا ھے اور ان کا کلمہ پڑھتا ھے تو تم کس بنیاد پر کسی پر جھوٹا الزام لگاتے ھو ؟؟؟ کیا اللہ کی پیدا کردہ آگ کا ڈر نھی تمھارا جسم اسمیں جلایا جائے گا ؟؟
@@khalidsaleem8194 ye kesi muzhaka kheez baat hai ....mtlab agr koi khud ko rasool boly k wo allah ka pegember hai os py waahi nazil hoti hai .... wo logo ko deen ki tableeg kry jis mein wo apny naam ka kalma parhaye aur loog os ko phary .....ye hai wo nabowat ka dawwy dar ...tu osko islamic rule k mutabiq saza dena zrori hai ...100 fee saad .....or agr koi inn bato mein koi 1 b krta hai tu jitni oski saza banti wo dy agr wo tooba kr ly ...tu os k liye behtar
Akhir kab jakay ek platform per ayengay tukdoun main baat ke rakh Diya ummat ko. Engineer bohut hi sahi kaam ker Rahe hain. Allah Ali Bhai ki hifazat karain.
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔* *جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں: 1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔ 2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔ اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف 1. اہلِ سنت کا مؤقف: اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔ 2. اہلِ تشیع کا مؤقف: اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔ نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟ حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔ یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ 2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7) "جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔" یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ" (سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔" 3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2) "اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ" (سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے: > "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115) ۔
Wo youth club ne bilkul uss hadith ko glt smja hai ...usne Rasolallah saw se kaha agr log aise kalima pdte rhai to aml koi nhi kre ga...haq nhi chupya... Ali bhai 💯 ap sahi ho..
What. Somethings should be hidden. Thing we're hidden my brother and that's why the state of islam is right now. Ali bhai has made these hidden things public and now we find out how the scholars based on their ideologies separated this ummah in groups to get their followers and get donations to live their luxurious life. Jazak Allah Ali bhai.
Engineer plumber fitna baj hai wo har kesi par comment karta hai Jaise mulhid atheist liberal hindu criticism quarn or hadees par karta hai Allah ke Rasul (PBUH) ke hadees hai ke mere ummat me iqtelaf ho ga lekin wo iqtelafe rahmat hoga. Engineer plumber use iqtelaf ko galat tareka se batata hai.
Ali Bhai Agar Sahaba Ky Ikhtelaaf Na Bataty Tou Jo Mamu Jaan Ka Asal Chahra Na Aata Saamny Ikhtelaaf Apni Jagah Lekin Tumhara Mamu Nahin Bakhshaa Jaata ❤
اللہ پاک ہمیں ہمیشہ اہل بیت سے محبت کرنے والا اور ان کا دفاع کرنے والا بنائے آمین
@@khalidsaleem8194
پیارے بھائی اپنے مسلمان بھائیوں پر منافق ہونے کا فتوی لگانے سے گریز کیا کریں کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کفر لوٹ آتا ہے اسی شخص کی طرف اگر اس کا مقابل کافر نہیں ہوتا۔ جزاک اللہ خیرا
@@khalidsaleem8194kab be adbi karta hai bhai buzurgane deen rahmatullahi alaihi ki ....
Ye khud hi kuch logon ki tarah gadh lete ho baatein 😂😂
Ameen
صرف الله اور اسکے رسول
Ahlebait se har mosalman mohabbat karta hai..... .....shia bagi 2 khalifa ke katil ahlebait ka name lekar apne jaraem usi me chupate hai
You have earned immense respect for telling the truth to the Ummah! Really disappointed from youth club for trying to hide the atrocities commited by the Banu Umayyah against Ahle ul Bait!
😂😂 abe doglo jab tumhe pata h ki hz movawiya ra ne bahut julm kiye h ahle bayt par to unko raziallah unhu kyon kehte ho ??
Munafiq jaisi baat mat karo ...hum jise ahle bayt ka dushman manenge uska respect kabhi nahi karenge ..
Munafiq jaisa mat bolo ...lanat ho munafiko par ...
Bcz to some extent, they are promoting AHL E HADEES school of thought.
@@drrashidshabbir2897 Agreed
Banu Ummaiah Maviya Destroyed the NOBLE CONCEPT OF KHILAFAT Maviyas Son Zaleel Yazeed
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
واہ۔ کیا عمدہ بات کی ھے کہ کیا ضرورت تھی ان مسعلوں کو سامنے لانےکی۔ بات یہ ہے کہ کیا ضرورت تھی آج تک سب چھپانے کی ؟؟؟
Good
تیرے ماں باپ محلے میں کسی سے جوتم جوت ہو جائیں اور تو سارے شہر میں لوگوں کو جھگڑے کے بارے میں روز بتاتے پھرو یہ کہہ کر کہ میں تو ماں باپ کی خدمت و عظمت کے لئے یہ سب کچھ کر رہا ہوں تو سارا شہر تجھے لعن طعن کرے گا اور بیوقوف سمجھے گا ۔
Ahlesunnat jo hai rafzi aur kharji thodi na hai samjha khatmal
Just focus on five pillars os islaam.and avoid to controversy
@@Mahi11047 wahh wahh kia jawab dia ..dil khush kerdia!
Muhammad Ali bhai you are doing great work....i salut you ❤❤❤❤❤
ماشاء اللہ انجینئر محمد مرزا اللہ تعالٰی آپ کو لمبی زندگی دے ۔ اور ان بیغیرت منافقین کی اسی طرح چیخیں نکلتی رہیں۔
السلام عليكم ورحمه الله وبركاته اللہ اپ کے علم میں اور اپ کے بیانات میں خوب برکت دے❤
Before E.M.A.M. even sahih bukhari and sahih Muslim was Taboo
Thank you Allah for introducing us with Ali Bhai
Ali Bai critical BT KO asan fyham myn smjhty Hain Allah bless him ameen Hazrat Ali (a.s)ki fazilat B ala Andaz myn bayan ki ...Karbala Tou smjhaya hi Ali Bai ny Hy Sahi meaning myn ❤❤
It was important to bring these matters to every Muslim so that we can become one, otherwise we will stay divided and praise the sact we are from or support... which will be disobedience of Allah, cause we are to be one and hold strong to the rope of Allah (the Quran)
The Prophet passed by `Ammar and removed the dust off his head and said, May Allah be merciful to `Ammar. He will be killed by a rebellious aggressive group. `Ammar will invite them to (obey) Allah and they will invite him to the (Hell) fire.
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۶۴﴾
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
Ali bhai Allah apki hifazt farmaye, Hmy sb kuch crystal clear btany k liye
Muje mere khandan wale hi muje gumrah kehte hain..aur dost bhi Wahabi kehte hain..mera dil dukhta he.. Maine shirk ko Khatam Kar diya ..jo karta tha...
Allah aapki mushkilaat aasaan kare
🤣🤣🤣 bhai mere ghar wale rishtedar Ahbaab bhi mere bare me yahi khayal karte hai
Allah is with u dw
😂 Mujhey bhi yehi kehtay hein! Lekin Alhamdulilah main paisay kamanay kay baad na sirf log tumhein accept karein gay! Balkay rishtay bhi ayein gay tumharay! Tab ye log bhool jayein gay sub..
Agar shirk chora , acha kia madha Allah,
Agar plumber ko follow kia, gaddhe me gire
You are on the right path.. No one have the right to choose among ahadees.
Ali bhai aap Sahi byan kar rahe hain Allah aapki hifazat farmaye.
علی بھائی اللہ تعالیٰ آ پ کی حفاظت فرمائے آمین جب سے آ پ کو سننا شروع کیا ہے دین کی سمجھ آ نا شروع ہو گئی ہے
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
Bhai agar saari haqeeqat Bata denge to Dunia se sunni firqa he khatam ho jaega.....❤❤
Barelwi firka chal hi sach chupany pe Raha hai
Jotty peer jotti kahanian
علی بھای چشتی رسول اللہ اور تھأنوی رسول اللہ پارٹی چحتی رے گی ۔ اپ شق بات کہتے رے االلہ اپکا حامی نأصر ھم بھی ابکے ساپھ ھے❤❤❤❤❤❤
Inki Nazar mai Sahaba Banu umaiyah hai. Ap Haq per ho Ali Bhei tuun kar rakho inko.
پیارے بھائی اہل بیت رضوان بھی صحابہ کرام کی صف میں شامل ہیں اور صحابہ کرام میں بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ راشد سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔
Ye toh baad ki baat kr rhe hai jb khilafat khatam hogaii or mulukiyat shuru ho gai banu umaiya ki@@iftikharahmadwaseem3618
tuun kr rkhna achi bat nhi
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
*Haqeeqat Logon Ko Na Batayein... Shia-Sunni Ki Siyasat Aur Firqa Parasti Jaari Rakhein!* 😂
Apnay agents k zareye shia sunni fasad phehlatay raho..aur america aur israel nay sirf last 25 years may almost half million Muslims shaheed hogae afghanistan iraq libiya shaam palestine lebonan may..kyon agar ye agent apna kaam bund karengay tu hum logo ka dimaag jihaad ki terf jaega aur Allah k ahkamaat ki terf jaega..per logo aisay topics discuss may maza ata jinse deen ko sirf nuqsan hoa hai almost 1400 years may
You can never hide the truth if you hide one-day it will reveal good job engineer Sahab he is only one man in Pakistan giving right direction to people❤
چھپانا اور بات ہے اور بیان نہ کرنا اور بات ہے ۔
پاکستان کے کسی دفتر میں کوئی کام بغیر رشوت کے نہیں ہوتا اور مبلغین اسلام جن میں مرزا بھی شامل ہے عوام کو مشاجرات صحابہ سناتے رہیں دین کی یہ کون سی خدمت ہے ۔پاکستان کے 90 فی صد مسلمان جھوٹے اور بےایمان ہیں مبلغین اسلام اس کو کیوں چھپاتے ہیں ۔ یہ سراسر جرائم پیشہ افراد کی فیور ہے ۔ مرزا مشاجرات صحابہ بیان کرتا ہے اور دوسری طرف کرپٹ ٹولے کی حمایت کرتا ہے ۔
Aagy dekha TU eng....peechy dekha TU eng.Ali..0pper dekha TU eng.Ali...neechy dekha TU eng Ali.......(.janab misbahi sb....hun theek E....)....Hamara eng.Ali Haq py he.....❤
Good
Aap ke dil mein dekha tu dr mishbai sahab😅😂😊😅😂
@@MdRaziUddin-m3i Tooba tooba
@@MdRaziUddin-m3i tooba. Tooba
Oye chas kra diti e 😮😢Muhtram ❤❤❤
ماشاءاللہ آپ کو اللہ تعالیٰ اجر عظیم عطا فرمائے
Engrr Ali Mirza is doing a good job and making life easier for a common man. How can you judge M Ali Mirza and how can you tell what should be hidden from ppl and what should be revealed. How do you think you have the intellact but others do not have the intellect to understand. I'm happy that Engrr has given the true picture.
Ab tumlog jannati ban gaye ho ...mirzai firqa hi jannati firqa h qadiyani k baad ...
Ab khush 😅😅
Jazak Allahu Khairan ❤❤❤
Mere liye dua Karo Main jahannam me nahi Jana chahta hu..
ALLAH BEHSHANAY WALA MEHERBAN HAI TOBA KARO MAFI MANGO ALLAH SY ❤
تو اللہ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت کریں۔ جو آپ کو جنت کا راستہ دکھائے گی۔
نماز روزے کی پابندی کریں ۔شرک سے دور رہیں۔ذکات خیرات صدقہ پر ذور ڈالیں ۔۔۔الہم اجر نا من النار۔درود شریف سو مرتبہ ۔۔۔اللہ پاک میری اور آپ کی مغفرت فرمائے اور سب کی مغفرت فرمائے
Plumber 🪠 Mirza Ko na sunay phir
Tu khud q sun rhaa hai@@JawedJ-pv1xg
This is responsibility if every Muslim to study and understand Quran snc Ahadees at least for our daily life
علی بھائی بلکل صحیح ہیں ہر حدیث بیان ھونی چاہیے عوام الناس کو ہر حدیث کا پتہ ھونا چاہئے
@@masifalamgir1425 Eng.Ali ki Allah Paak hifazat farmy. Ameen..
PLZ don't write ALLAH PAK NAME ON title because it was coming UNDER the feet ❤😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢😢
Phir awam un naas k zimmey bhi ye aata hai k wo hadees kisi alim se seekhain.
Ye kaisi baat hai k aik hadees sunaney wala manjiyan thoktay phir rahey hain. Kia Allah k Nabi saw ya sahabah ne aisi trbiyyat fermai hai?
Beta apny plumber sy kaho ke abu talib ky adm e eimaan par sahih bukhari or Muslim sy be ahadees byan karen
Jahil apne hisaab se lega
Ab koi ye kahe ki nusery ke bachhe ko thermodynamics, mechanics, sab padhao, to ye pure jahalat hai।
I agree with you it is not necessary to dig where not necessary emam should speak to the point,
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
Assalaamualaikum wa rahmatullahi wa barakatu Ali bhai Allah hu Akbar Kabeeran Kabeera ❤
Ma-Shaa-ALLAH ❤
واہ جی واہ علی بھائی آپ جیت گئے فرقوں کے سستے ایجنٹ ہار گئے😂😂😂😂😂😂😂
Salute to EMAM you are standing for truth jo khte na btao wo jhootay hain jo awam se sach chupatay
MAM Sahb ki kia baat hai
Haan Imam Abu Hanifa aur Imam Malik se Bughz aur apne plumber ko Imam 😂 Apne mu miyan mithu 😜
jaisey deobandi brailvi ahle-hadees shiya ghalat waisey hi engineer firqa b ghalat
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ ❤️❤️❤️
علی بھائی اپ حق بیان کرنے والے ہیں انکی چیخیں نکلےگی اللہ آپ کی حفاظت کرے آمین الٰہی آمین
پیارے بھائی آپ جیسے مسلمان بھائیوں کے ہوتے ہوئے کسی غیر مسلم دشمن کی ضرورت نہیں ہوتی۔
@@iftikharahmadwaseem3618❤
Ali bhai true person
جن لوگون نے حقایق کو چہپادےتے ہیں اللہ قرآن میں انکو لعنت کیاہے
صحابہ کرام نے جو غلطیاں کی ہیں وہ اگر حدیث میں موجود ہیں تو پھر عوام کو لازمی بتانی چاہیے کیونکہ اسی سے ہم سیکھتے ہیں کہ کون سی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے۔ اگر وہ غلطیاں سیاسی معاملات سے ہوں تو پھر تو اشد ضروری ہیں کہ بیان کی جائیں۔
Eng. M. Ali mirza is right to show right things
Wahh mirza sahib allah aapko slamat rkha hum b shia sunni prr ykeen nhi rkhta but manta ae apna nabi saw ki hadees ko ahlebayet ko aur sahaba rasool ko haq 4 yaar khulfa ur rashideen❤❤❤
ALLAH SWT Ali Bhai ko jazaekher de or haq par kayam rakh aameen summa aameen ya rabbul alamin from India ❤❤❤❤❤❤❤❤
Yeh baat bohat baar bata chuke Mohammed Ali bilkul sahi baat kerlen hin youth club wale right hin
حق اور سچ کی آواز۔
علی بھائی۔
اہلِ بیت کا بغض نہیں جاتا۔
ان ناصبی مولویوں کا👉🏿👉🏿
جزاک اللہ خیرا۔
علی بھائی۔
Ali bhai u r a true muslim MashaAllah n u r absolutely 💯 right
سب کچھ عوام الناس کے لئیے ہے چھپانا درست نہیں. چھپانا دھوکہ دینے کے مترادف ہے.
Prove
علی بھا ءی اللہ تعالیٰ اپ کی حفاظت کرے امین قران اور حدیث سے ہم کو فاءید ہ ہو رہا ہے
اللہ تعالیٰ نے رضی اللہ عنہ فرمایا ۔ جو بغض صحابہ رکھے اس کا حشر جہنمیوں کے ساتھ ہوگا
Beshak
اللہ نے کس سورت اور کون سی آیت میں فرمایا ہے یہ بغض صحابہ سے جہنم کی وعید؟؟؟
بالکل صحیح فرمایا بھائی صاحب نے ہر فرد کا اتنا ٹمپرامنٹ نہیں ہوتا
اہلبیت رسول ص کے قاتل کبھی بھی جنت میں نہیں جائیں گے ۔
Ali Bhai ki baat mazbot dalil or haq py mabni hai❤
کسی کو اپنا آئیڈیل بنانے سے پہلے اس کا تاریخ میں کردار اور اخلاق دیکھنا ہوتا ہے۔ ایسے کیسے ہم کسی سے بھی اپنے اسلام کی تعلیمات کے سکتے ہین
Wah.. To ilyas qadri sahb ka pata apko sara? Na madrisa gaye na deeni koi taleem hasil ki business kia then aik jamaat bana k chanda ka system shuru kia aur ab ameere ehlesunnat hain woww. Aik anparh ameer ehle sunnat love you musalmano maan gya apko
@@kuchbhi1799 bhai tu sirf ilyas qadri tak q jatay ho. Mushajirat e sahaba pr bhi baat kro na. Takay sahi ideals ko chuna jaye.
علی بھائ خا کردار تو سب کے سے سامنے ہے۔ شروع سے ہی وہ اسلامی گھرانے اور تعلیمات میں رہے ہیں۔ لیکن اگر یہ کافی نہیں ہے تو میرے بھائ آپ پڑھے لکھے ہو جاو قرآن کا مطالعہ کرو صحیح العقیدہ حدیث پڑھو اور سمجھو کسی کو درمیان میں نہ ڈالو ، اللہ آپکے ذہن کو کھولے گا اور آپ دہن سیکھو گے۔ بس اتنا سا کام ہے۔
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
Ap bht achy leader h ju dekha h hamesha ilm sy bat kr ty h ,
Damage has been done
Bilkul bhai
E M A M is Best Good inteligent Scholar💯💯💯⭐⭐💯
علی انجنیر کے جیسا ھے ھی کوئی نھی فرقہ باز ت شے ھی کوئی نھی 😂❤❤❤ اللہ ھمیں دین کی فق عطا کرے علی بھائی کو صحت تندرستی عطا کرے آمین ❤❤❤❤
@@khalidsaleem8194 عقل کی بات کرو ۔۔۔
@@khalidsaleem8194 جو شخص لوگوں کو قرآن سے جوڑے وھی بہتر ھے ۔۔۔یقننا انجنئیر سے پہلے بھی لوگ قرآن کا درس دیتے تھے لیکن اختلافی موضوعات پہ اپنی زبان بند کرتے تھے ۔۔۔اس وجہ سے انجنیر زبردست ھے
@@khalidsaleem8194 اگر کوئی خود رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو آخری نبی مانتا ھے اور ان کا کلمہ پڑھتا ھے تو تم کس بنیاد پر کسی پر جھوٹا الزام لگاتے ھو ؟؟؟ کیا اللہ کی پیدا کردہ آگ کا ڈر نھی تمھارا جسم اسمیں جلایا جائے گا ؟؟
@@khalidsaleem8194 ye kesi muzhaka kheez baat hai ....mtlab agr koi khud ko rasool boly k wo allah ka pegember hai os py waahi nazil hoti hai .... wo logo ko deen ki tableeg kry jis mein wo apny naam ka kalma parhaye aur loog os ko phary .....ye hai wo nabowat ka dawwy dar ...tu osko islamic rule k mutabiq saza dena zrori hai ...100 fee saad .....or agr koi inn bato mein koi 1 b krta hai tu jitni oski saza banti wo dy agr wo tooba kr ly ...tu os k liye behtar
آج اس شخص کی اصلیت آشکار ھو گئی ۔ شرک کو عقل اور لاجک سے صحیح ثابت کر رہا ھے
Ma'Sha'Allah Alhumdullilah Allahu-Akbar
Akhir kab jakay ek platform per ayengay tukdoun main baat ke rakh Diya ummat ko. Engineer bohut hi sahi kaam ker Rahe hain. Allah Ali Bhai ki hifazat karain.
Agreed with Mirza Sahib. God bless you. Aameen
علماء سو نے سچائی بتا نہیں پائے علی میزان سچائی بتلا کر ان کی چیخیں نکالے❤️❤️❤️❤️
Muhammad Ali Motivational Speaker World 🌎 My Third Best Scholar And May Allah Protect U Every Shar O Jin O Ins Aameen Luv 💞💞💞 U Muhammad Ali Bhai.❤❤❤
Mashallah engineer sahab ❤
BRO PLZ write INSHALLAH MASHAALLAH ALLAHU AKBAR in CAPITAL LETTERS MA LIKHO BHAIII ❤❤❤
Jahiliyat ka sabot he yahi ha k ap Kisi situation ko na sunen na smjhen bs apny ap ko manen sb Kuch me he hon
Jese Eng Ali Mirza sb
انجینئر صاحب ٹھیک فرمارہے ہیں
Kl ko ye sahib quraan ko bhi raw keh daingey..
Coz Ali bhai ka analysis theek hey... Ali bhai keep it up👍🏻👍🏻
Geo Ali Bhai Allah Pak apko salamat rakhy ❤
Mny b jab mohammad ali ki ye video dekhi... I was so shocked.. wasn't expecting that from him
*سوال* *اُمّت میں دو گروہ کیسے اور کب ہوئے۔*
*جواب* رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت میں ہو گئے تھے ایک رسول اللہ کے ساتھ ایک عمر کے ساتھ واقعے کا خلاصہ: رسول اللہ نے اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے میدانِ غدیر میں اعلان کر دیا تھا کی وہ اپنے بعد اپنے صحابیوں اور اپنی اُمّت کو گمراھی سے بچانے کے لیے دو چیزیں ایک قرآن اور دوسرے اہلبیت چھوڑ کر جا رہے ہیں جو ان دونوں کے پیچھے پیچھے چلے گا وہ نجات پائیگا اور جو چھوڑ دیگا وہ سیدھا جہنّم جائیگا۔ یہ حدیث شیعہ سُنّی دونوں کے یہاں موجود ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری کے آخری دنوں میں کاغذ و قلم لانے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہ اس بات کو تحریری بھی کر دیں اور اُمّت ہمیشہ گمراہی سے محفوظ رہے۔ مگر رسول اللہ کے کاغذ قلم مانگنے پر دو آراء پیدا ہوئیں:
1. ایک گروہ جو رسول اللہ کی اطاعت کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ فوراً کاغذ و قلم دیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے، اور ان کی ہر بات کو ماننا فرض ہے۔
2. دوسرا گروہ، جس کی نمائندگی حضرت عمر نے کی، عمر نے کہا کہ "ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے" اور کاغذ و قلم دینے کی کوئی ضرورت نہیں اور اس بات پر جھگڑا ہو گیا اور رسول اللہ نے ڈانٹ کر بھگا دیا اور رسول اللہ کی وہ آخری تحریر عمر کی وجہ سے نہیں لکھی جا سکی اور رسول اللہ پردہ فرما گئے۔ عمر نے سقیفہ جا کر رسول اللہ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا دیا۔اس طرح قرآن اور اہلبیت کی پیروی کے بجائے ابوبکر کی پیروی ہونے لگی،ابوبکر نے عمر کو منتخب کر دیا اُنکے پیروی ہونے لگی،عمر نے اللہ کی کتاب رسول اللہ کی سنت اور ابوبکر اور اپنی(عمر) کی سیرۃ پر عمل کرنے کی شرط کے ساتھ ایک 6 لوگوں کی کمیٹی بنائی کمیٹی نے حضرت علی سے تینوں شرطوں پر عمل کرنے کا اقرار چاہا حضرت علی نے ابوبکر اور عمر کی سیرۃ پر عمل کرنے کی تیسری شرط ٹھکرا دیا جسکی وجہ سے وہ تیسرے خلیفہ نہیں بن سکے۔اُنکے بعد عثمان کے سامنے تینوں شرط رکھی گئی اُنہونے قبول کر لیا اور اُنھیں اس طرح سے تیسرا خلیفہ بنا دیا گیا عثمان کے قتل کے بعد پوری امت علی کے در پر آ گئی اور انسے کہا کی آپ اپنی بیعت لے لیجئے علی نے اپنی شرط رکھی کی میں صرف اللہ کی کتاب اور سیرت رسولِ پر عمل کرنے کا حکم دونگا اگر اس شرط پر میری بیعت کرنا ہو تو کرو ورنہ جسکو چاہو اپنا خلیفہ بنا لو جب سب نے علی کی شرط کو قبول کرنے کا وعدہ کیا تب علی نے چو تھی خِلافت قبول کی۔
اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کا موقف
1. اہلِ سنت کا مؤقف:
اہلِ سنت رسول اللہ کو تحریر نہ لکھنے دینے کے واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عمر کی نیت یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کی حالت ناساز تھی، اور ان پر مزید بوجھ ڈالنا مناسب نہیں تھا۔ان کے نزدیک یہ ایک اجتہادی رائے تھی، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ قرآن اور نبی کریم ﷺ کی موجودہ تعلیمات امت کے لیے کافی ہیں۔
2. اہلِ تشیع کا مؤقف:
اہلِ تشیع کے نزدیک یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کی واضح نافرمانی کا مظہر ہے، اور وہ اسے امت کے اندر اختلاف پیدا کرنے کی بنیاد سمجھتے ہیں۔
ان کے نزدیک، کاغذ و قلم کا انکار رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے خلاف تھا اور ایک ایسا عمل تھا جس نے بعد میں امت میں فتنہ پیدا کیا اور آج تک اصحاب اور اہلبیت کو لیے کر دو گروہ ہیں ایک رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے دوسرا اصحاب کو یعنی ابوبکر،عمر اور عثمان کے بعد اہلبیت کو مانتا ہے۔
نتیجہ: رسول اللہ کے سامنے ہی اُمّت کے دو گروہ ہو گئے ایک رسول اللہ کے حکم کو مان کر رسول اللہ کے بعد قرآن اور اہلبیت کی پیروی کرنے والا دوسرا کاغذ قلم نہ دینے والا عمر کا گروہ جس نے رسول اللہ کے بعد اہلبیت کو نہیں بلکہ ابوبکر عمر عثمان کو مانا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیوں انکار کیا؟
حضرت عمر کا کہنا قرآن کافی ہے۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت تھی، اور رسول اللہ ﷺ کی بات قرآن کی تفسیر اور تکمیل ہے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ:1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔
2. کسی بھی صحابی یا کسی اُمتی کی رائے رسول اللہ ﷺ کے حکم کے برابر ہو ہی نہیں سکتی۔ اُمّت میں اختلافات اُسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب لوگ قرآن و سنت کے بجائے اپنی رائے کو فوقیت دیتے ہیں جیسے کی عمر نے رسولِ اللہ کے حُکم کو ٹھکرا کر رسول اللہ کی نافرمانی کی جسکا انجام آج تک اُمّت کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔آج بھی اگر اُمّت ساری چیزیں بھلا کرقران اور اہلبیت کی پیروی کرنے پر متحد ہو جائے تو پورا منظر ہی بدل جائے اور ہر طرح کی فرقہ پرستی سے نجات مل جائے اور قرآن کی اس آیت پر بھی عمل ہو جائے جس میں کہا گیا ہے رسول اللہ جو دیں دے لے لو جس چیز سے روک دیں رک جاؤ۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور ان کے مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ہر بات، ہر حکم، اور ہر ارشاد کو ماننا اور ان کی مکمل اطاعت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔قرآن مجید کے دلائل:1. رسول کی اطاعت فرض ہے:اللہ تعالیٰ نے فرمایا> "وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا"(سورة الحشر: 7)
"جو کچھ رسول تمہیں دیں، اسے لے لو، اور جس چیز سے منع کریں، اس سے باز رہو۔"
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہر حکم کو ماننا فرض ہے، اور ان کی مخالفت کسی بھی صورت جائز نہیں۔2. رسول کی مخالفت ایمان کے خلاف ہے:اللہ نے فرمایا: "فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ"
(سورة النساء: 65)"پس، آپ کے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلافات میں آپ کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں۔"
3. رسول کی آواز سے آواز بلند کرنا ممنوع ہے:> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ"(سورة الحجرات: 2)
"اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز سے بلند نہ کرو۔"
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے حتیٰ کہ آواز بلند کرنا بھی عمل کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے، چہ جائیکہ ان کے حکم کی مخالفت کی جائے۔
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور اس کے تقاضے1. رسول اللہ ﷺ کی اطاعت درحقیقت اللہ کی اطاعت ہے:> "مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"
(سورة النساء: 80)"جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"2. رسول اللہ ﷺ کی مخالفت گمراہی ہے:
> "وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى"(سورة النساء: 115)
۔
Sahaba allah ke Wali hain jo Wali se Jang karega allah us se Jang karega
مسئلہ یہ ہے کہ وہ آپس میں لڑ پڑے!
Wo youth club ne bilkul uss hadith ko glt smja hai ...usne Rasolallah saw se kaha agr log aise kalima pdte rhai to aml koi nhi kre ga...haq nhi chupya...
Ali bhai 💯 ap sahi ho..
Valid point
Ya Allah pak eng sb ki hifazat phrma
Thanks youth क्लब exposing this प्लम्बर
Mushajrat-e-Sahaba ummat ka zakham hai isey jitna kuradogey utna zyada ummat ko dukh hoga.
علي تو علي هے اس نام میں ہے ہشمت و شجاعت ہے
Good 👍 Engineer sab
Masha Allha Ali bhai. Don’t know why people are scared of learning the truth about history.
What. Somethings should be hidden. Thing we're hidden my brother and that's why the state of islam is right now. Ali bhai has made these hidden things public and now we find out how the scholars based on their ideologies separated this ummah in groups to get their followers and get donations to live their luxurious life. Jazak Allah Ali bhai.
hussaini ban rahe han aksar Sunni ... bus iss lye cheekhain nikl rhi han ..sir you carry on grilling Ummayads
Ma Shaa Allah❤❤
Ali Bhai KO MD Ali Bhai Ka separate response dena chahiye, kiuyn k unhung NE faham pesh Kiya hai Woh iss video SE clear Nahi Hoti.
Zaroorat nhi ha, in loogo KY sawal wo hi hoty han bas tura twist and turn karky dobara pouch lyte han.
جیتا رہ انجنئیر۔ اللہ تیرے ساتھ ہے
اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے ہمارے علم میں اضافہ ہو رہا ہے
Allah pak hifazat kare apki eng shb
اگر صحابہ کے اختلافات سامنے نہ لائے اور یزید بھی صحابہ تھا صحابی کا بیٹا تھا۔ تو یزید کی کارستانیاں بیان نہ کی جائے ؟
Bhai masla wo nahi masla ye hai k ye log saray sahaba ko chhor kr sirf in teen sahaba pr hi q zor day rahay hein😢
Yazeed sahabi nahi tha.
Engineer plumber fitna baj hai wo har kesi par comment karta hai
Jaise mulhid atheist liberal hindu criticism quarn or hadees par karta hai
Allah ke Rasul (PBUH) ke hadees hai ke mere ummat me iqtelaf ho ga lekin wo iqtelafe rahmat hoga.
Engineer plumber use iqtelaf ko galat tareka se batata hai.
@@mohammedkamal-nr8qx
Masalan?
Kiya imam husain AS ke sath 72 ehle bait ko qatal kerna rehmat wala ehtilaaf hain?
@@Sho_mh1950 To kon defend karta hai
Kese musalman ko dekha hai defend karte howe.
Bilkul sahi baat kar rahay hain ap , May ALLAH protect you and bless you with more knowledge @muhammadalimirza . Ameen ya Rabbil Aalameen.
Hahahahah...sahi bol rahe hoo kuch sahaba ki kand sabki samne lane ki layak b nhi hai u r right 😂
Ali Bhai Agar Sahaba Ky Ikhtelaaf Na Bataty Tou Jo Mamu Jaan Ka Asal Chahra Na Aata Saamny
Ikhtelaaf Apni Jagah Lekin Tumhara Mamu Nahin Bakhshaa Jaata ❤
Ye b Yazeedi party sa taluq rakhta ha 😂😂😂 ALHAMDULILLAH, Engineer Muhammad Ali Mirza Exposed every single Yazeedi nasbi 😂😂😂
Jazak Allah Ali bhai❤❤
Agreed with Muhammad Ali
E m Ali bahi zindabad ❤❤❤❤👍👍
Ye sahi ferma rahy hn har kisi jahil ky samny aesi baaten nhi krni chahiay
Engineer Sahab, Allah Pak apki hifazat farmaaye Ameen
Sahaba ky dushmano pe lanat beshumar
جزاک اللہ خیرا کثیرا ماشاءاللہ بہترین وضاحت ❤
صلى الله عليه وسلم 🌸🌼
M . Ali Mirza Zindabaad
Beshak EMAM is on haq on this issue
Engineer Ali is right and best religious scholar.
Jo haq per hote hain wo Munazro se nahi bhagte... Ap kitna haq hain Ap ne bata dia hain Gov k alaa kaar ban kr.
❤❤❤ انجینئر بھائی زندہ آباد ❤❤❤ ڈینھچوں ڈینچھوں کرنے والوں کی پرواہ نہیں
Ali bhai saifullah muhammadiya ko exposed kare tabhi hum clear ho payenge
"Hussein ka beta hun akela hi rahunga"
- Sahil Adeem Hafizahullah
Can someone tell me the name of the nasheed behind the speaker at the start of video please?