صوفیوں نے ھمیں قرآن سے دور رکھا اور آج بھی قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔۔۔ الغزالی متوفی 1111 ع ۔ فرماتے ہیں اللہ کا بننے کے لئے قرآن پاک معانی اور احادیث کی کتابوں میں غور و فکر نہ کریں امام الغزالی فرماتے ہیں، صوفیاء کا ایک مقولہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بننے کے لیے اولاً تمام دنیاوی علائق سے بالکلیہ منقطع ہونا ضروری ہے، اس کے بعد اپنے قلب کو فارغ کرے اور اہل، اولاد، مال، وطن، علم اور جاہ و حکومت سے اپنی توجہ ہٹالے، اور دل کو ایسی حالت پر لے آئے جس میں کسی چیز کا وجود اور عدم دونوں برابر ہوجاتے ہیں، گوشہ نشین ہوجائے، ضروریاتِ فرائض و واجبات اور وظائف پر کفایت کرکے ماسوی اللہ سے اپنے دل کو خالی کرلے، یہاں تک کہ قرآن پاک کے معانی، اور احادیث کی کتابوں میں بھی غوروفکر کرکے اپنے قلب کی یکسوئی میں خلل نہ ڈالے۔ ماخذ۔ کتاب احیاء العلوم از الغزالی ، جلد سوم ، صفحہ 39
صوفیوں نے ھمیں قرآن سے دور رکھا اور آج بھی قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔۔۔ الغزالی متوفی 1111 ع ۔ فرماتے ہیں اللہ کا بننے کے لئے قرآن پاک معانی اور احادیث کی کتابوں میں غور و فکر نہ کریں امام الغزالی فرماتے ہیں، صوفیاء کا ایک مقولہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بننے کے لیے اولاً تمام دنیاوی علائق سے بالکلیہ منقطع ہونا ضروری ہے، اس کے بعد اپنے قلب کو فارغ کرے اور اہل، اولاد، مال، وطن، علم اور جاہ و حکومت سے اپنی توجہ ہٹالے، اور دل کو ایسی حالت پر لے آئے جس میں کسی چیز کا وجود اور عدم دونوں برابر ہوجاتے ہیں، گوشہ نشین ہوجائے، ضروریاتِ فرائض و واجبات اور وظائف پر کفایت کرکے ماسوی اللہ سے اپنے دل کو خالی کرلے، یہاں تک کہ قرآن پاک کے معانی، اور احادیث کی کتابوں میں بھی غوروفکر کرکے اپنے قلب کی یکسوئی میں خلل نہ ڈالے۔ ماخذ۔ کتاب احیاء العلوم از الغزالی ، جلد سوم ، صفحہ 39
کیا صرف حفظ قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہے ؟ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30) ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے،یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا بھی ہجران ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے ۔(تفسیر احسن البیان) ابوداؤد کی صاحب قرآن والی روایت کے تحت علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ بعض علماء کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے قرآن کے مطابق عمل کیا گویا اس نے ہمیشہ قرآن پڑھا گرچہ وہ اسے نہیں پڑھتا ہو ، اور جس نے قرآن پر عمل نہ کیا گویا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں گرچہ وہ ہمیشہ اسے پڑھتا ہو۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب(یہ کتاب یعنی قرآن مجید جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں) پس صرف تلاوت کرنے یا صرف حفظ کرنے سے بلند درجات والی جنت میں اونچے مراتب نہیں ملیں گے ۔ (عون المعبود شرح الحدیث رقم: 1464) نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے حفاظ قرآن بھول گئے، بہت سارے حفاظ احکام قرآن سے کوسوں دور ہیں ، بہت سارے احکام قرآن کے مخالف عمل کرتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے حافظ ہیں ۔ حفاظ کی اکثریت تو قرآن کے معانی ومفاہیم سے نابلد اور نری جاہل ہیں جبکہ انہیں جنت میں بلند درجات کی امید اور ان کے والدین وگھروالوں کو دس لوگوں کی بخشش کی امید ہے ۔ اوپر آپ نے جتنے نصوص کا مطالعہ کیا کہیں پر قرآن کی قرات بغیر عمل کے نہیں ہے کیونکہ قرآن نازل ہی ہوا ہے عمل کرنے کے لئے اور کہیں پر اس کی تلاوت کرنا بغیر سمجھے نہیں ہے کیونکہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کے لئے نازل ہوا ہے تاکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں اور مکمل قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے ۔اللہ کا فرمان ہے :الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121) ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔ اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کرغوروفکر کے ساتھ پڑھاجائے ۔ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ، اس کا اصل قاری صاحب قرآن ہے۔ ہم صرف قرآن کے حفظ پر اکتفا نہ کریں بلکہ صاحب قرآن کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے قرآن کے پانچوں حقوق ادا کریں ۔ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو محض حفظ قرآن تک ان کی تعلیم محدود نہ کریں بلکہ اتنی تعلیم دلائیں کہ وہ قرآن کو سمجھ کر ، غوروفکر کے ساتھ پڑھ سکیں ، اس کے مطابق عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں۔ ایسا کرنا آپ کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلاسمجھے قرآن پڑھنے سے اجر نہیں ملتا، جو حافظ قرآن اس کا معنی نہیں جانتے اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ بلاشبہ قرآن پڑھنا اوراس کا حفظ کرنا اجر کا باعث ہے مگر آخرت میں نجات اس بات پر موقوف ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیں۔ اپنے سماج سے اس تصور کو ختم کریں کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دس لوگوں کو جنت میں لے جائے گا اور اسی طرح اس رسم کو بھی تبدیل کریں جو اپنے بچوں کی زندگی محض حفظ قرآن اور قرآن خوانی تک محدود کردیتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سیکھنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو حفظ قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم بھی جاننے کی توفیق دے تاکہ وہ بھی عمل کریں اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیں ۔ آمین
ماشاءاللہ
ALLAH PAK HAMARAY HAZRAT JI KI HIFAZAT FARMAY AMEEN AMEEN SUM AMEEN
جزاک اللہ خیرا
Masha Allah ,hazrat aapne bade achi misaal dekhar samjhaya , Allah paak aapko jaza e khair ata farmay...aamin
ماشاءاللہ سبحان اللہ اللہ اکبر جزاک اللہ
ماشاء الله تبارك الله يسر الله أمرك وشرح صدرك وأسعد قلبك 💕💕
ماشاءاللہ جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
ruclips.net/video/tBo7-L39ZwQ/видео.html
Mashallah Mufti Sahib salamat rrahoo
سبحان اللہ
ماشاءاللہ کیا خوبصورت اور خوب سیرت شان ہے علمائے دیوبند کی
Beshak, masha Allah
ماشاءاللہ فخر دیوبند
ماشاء اللہ بہت عمدہ سمجھایا حضرت
کمال ❤❤❤❤❤
ماشا۶اللہ بہت خوب بہت بہترین مفتی صاحب
MashaAllaha
JzakAllah
ماشاء الله. جزاك الله و احسن الجزاء
Masah।allah।mufti।sahab
سبحان الله ماشاءاللّٰه
Masallah Hazrat Allah aapko salamat rakhe
Subanaallah
ماشاءاللہ
بے شک
اللہ اکبر
جزاک اللہ خیرا
@@MuftiAbdulWahidQureshi امين
Subanaallah 9:34
جزاک اللہ شکریہ
Jazakallah ❤
بیشک مفتی صاحب
Subhanallah bahut khub
جزاک اللہ خیرا
بیشک
Masssllah
❤❤❤❤❤❤❤❤
subhanallah
❤
Masha Allah
جزاک اللہ خیرا
حضرت جی اپ سے سوال کیسے پوچھیں؟
ruclips.net/video/7TZpHHSARKs/видео.html
mashallah allah hame bhi muqarrir banaye
Hazrat aap copy kiye hain Hazrat moulana ilyas ghuman ka
حضرت میرا ماننا ہے کہ آپ صحابہ کی سیرت گاہے گاہے بیان فرماتے رہے تو غیر عالم کو اس سے زیادہ معلومات ہوتی رہے
Mazki
صوفیوں نے ھمیں قرآن سے دور رکھا اور آج بھی قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔۔۔ الغزالی متوفی 1111 ع ۔ فرماتے ہیں اللہ کا بننے کے لئے قرآن پاک معانی اور احادیث کی کتابوں میں غور و فکر نہ کریں
امام الغزالی فرماتے ہیں، صوفیاء کا ایک مقولہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بننے کے لیے اولاً تمام دنیاوی علائق سے بالکلیہ منقطع ہونا ضروری ہے، اس کے بعد اپنے قلب کو فارغ کرے اور اہل، اولاد، مال، وطن، علم اور جاہ و حکومت سے اپنی توجہ ہٹالے، اور دل کو ایسی حالت پر لے آئے جس میں کسی چیز کا وجود اور عدم دونوں برابر ہوجاتے ہیں، گوشہ نشین ہوجائے، ضروریاتِ فرائض و واجبات اور وظائف پر کفایت کرکے ماسوی اللہ سے اپنے دل کو خالی کرلے، یہاں تک کہ قرآن پاک کے معانی، اور احادیث کی کتابوں میں بھی غوروفکر کرکے اپنے قلب کی یکسوئی میں خلل نہ ڈالے۔ ماخذ۔ کتاب احیاء العلوم از الغزالی ، جلد سوم ، صفحہ 39
Learn to speak to the point
Is he not on the point ?
صوفیوں نے ھمیں قرآن سے دور رکھا اور آج بھی قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھنے سے منع کرتے ہیں ۔۔۔ الغزالی متوفی 1111 ع ۔ فرماتے ہیں اللہ کا بننے کے لئے قرآن پاک معانی اور احادیث کی کتابوں میں غور و فکر نہ کریں
امام الغزالی فرماتے ہیں، صوفیاء کا ایک مقولہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بننے کے لیے اولاً تمام دنیاوی علائق سے بالکلیہ منقطع ہونا ضروری ہے، اس کے بعد اپنے قلب کو فارغ کرے اور اہل، اولاد، مال، وطن، علم اور جاہ و حکومت سے اپنی توجہ ہٹالے، اور دل کو ایسی حالت پر لے آئے جس میں کسی چیز کا وجود اور عدم دونوں برابر ہوجاتے ہیں، گوشہ نشین ہوجائے، ضروریاتِ فرائض و واجبات اور وظائف پر کفایت کرکے ماسوی اللہ سے اپنے دل کو خالی کرلے، یہاں تک کہ قرآن پاک کے معانی، اور احادیث کی کتابوں میں بھی غوروفکر کرکے اپنے قلب کی یکسوئی میں خلل نہ ڈالے۔ ماخذ۔ کتاب احیاء العلوم از الغزالی ، جلد سوم ، صفحہ 39
စ
قرآن پڑھنے سے حافظ کا دل تکڑے تکڑے اس لۓ نہیں ہوتا کہ ، اس نے قرآن کو صرف طوطے کے مانند رٹا ہے ، اس کے معنی و مطالبات نہیں سمجھا ۔
Sahaba kay dil kyun ni toote
جزاک اللّٰه شکریہ
ماشاءاللہ
Masha allah
کیا صرف حفظ قرآن ہی ہمارے لئے کافی ہے ؟ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان:30)
ترجمہ: اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب بےشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔
مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جاسکے،یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا بھی ہجران ہے۔ اس پر غور و فکر نہ کرنا اور اس کے اوامر پر عمل نہ کرنا اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے اسی طرح اس کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے ۔(تفسیر احسن البیان)
ابوداؤد کی صاحب قرآن والی روایت کے تحت علامہ شمس الحق عظیم آبادی ؒ بعض علماء کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس نے قرآن کے مطابق عمل کیا گویا اس نے ہمیشہ قرآن پڑھا گرچہ وہ اسے نہیں پڑھتا ہو ، اور جس نے قرآن پر عمل نہ کیا گویا کہ اس نے قرآن پڑھا ہی نہیں گرچہ وہ ہمیشہ اسے پڑھتا ہو۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته وليتذكر أولو الألباب(یہ کتاب یعنی قرآن مجید جو ہم نے تم پر نازل کی ہے بابرکت ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور کریں اور اہل عقل نصیحت پکڑیں) پس صرف تلاوت کرنے یا صرف حفظ کرنے سے بلند درجات والی جنت میں اونچے مراتب نہیں ملیں گے ۔ (عون المعبود شرح الحدیث رقم: 1464)
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بہت سارے حفاظ قرآن بھول گئے، بہت سارے حفاظ احکام قرآن سے کوسوں دور ہیں ، بہت سارے احکام قرآن کے مخالف عمل کرتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے حافظ ہیں ۔ حفاظ کی اکثریت تو قرآن کے معانی ومفاہیم سے نابلد اور نری جاہل ہیں جبکہ انہیں جنت میں بلند درجات کی امید اور ان کے والدین وگھروالوں کو دس لوگوں کی بخشش کی امید ہے ۔
اوپر آپ نے جتنے نصوص کا مطالعہ کیا کہیں پر قرآن کی قرات بغیر عمل کے نہیں ہے کیونکہ قرآن نازل ہی ہوا ہے عمل کرنے کے لئے اور کہیں پر اس کی تلاوت کرنا بغیر سمجھے نہیں ہے کیونکہ قرآن سمجھ کر پڑھنے کے لئے نازل ہوا ہے تاکہ اس کے حقوق ادا کئے جائیں اور مکمل قرآنی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کیا جائے ۔اللہ کا فرمان ہے :الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ(سورةالبقرة:121)
ترجمہ : وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اس کتاب کی اس طرح تلاوت کرتے جس طرح اس کی تلاوت کا حق ہے ، ایسے لوگ ہی اس پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں۔
اس آیت میں تلاوت کی شرط "حق تلاوتہ " بتلائی گئی ہے اور ایسے ہی تلاوت کرنے والوں کو صحیح ایمان لانے والا قراردیاہے ۔ تلاوت کا حق یہ ہے کہ قرآن کو غوروخوض کے ساتھ سمجھ کر پڑھاجائے تاکہ اس پہ عمل کیاجائے ۔ لسان العرب میں تلاوت کا ایک معنی یہ بتلایاگیاہے "پڑھنا عمل کرنے کی نیت سے " ۔ عمل کرنے کی نیت سے قرآن پڑھنا اس وقت ممکن ہوگا جب اسے سمجھ کرغوروفکر کے ساتھ پڑھاجائے ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ حافظ قرآن اور صاحب قرآن میں فرق ہے ، اس کا اصل قاری صاحب قرآن ہے۔ ہم صرف قرآن کے حفظ پر اکتفا نہ کریں بلکہ صاحب قرآن کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے قرآن کے پانچوں حقوق ادا کریں ۔ اپنے بچوں کو حافظ قرآن بنانا چاہتے ہیں تو محض حفظ قرآن تک ان کی تعلیم محدود نہ کریں بلکہ اتنی تعلیم دلائیں کہ وہ قرآن کو سمجھ کر ، غوروفکر کے ساتھ پڑھ سکیں ، اس کے مطابق عمل کرسکیں اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں۔ ایسا کرنا آپ کے حق میں بہترین صدقہ جاریہ ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بلاسمجھے قرآن پڑھنے سے اجر نہیں ملتا، جو حافظ قرآن اس کا معنی نہیں جانتے اس کی کوئی فضیلت نہیں ہے ۔ بلاشبہ قرآن پڑھنا اوراس کا حفظ کرنا اجر کا باعث ہے مگر آخرت میں نجات اس بات پر موقوف ہے کہ ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیں۔ اپنے سماج سے اس تصور کو ختم کریں کہ حافظ قرآن اپنے ساتھ دس لوگوں کو جنت میں لے جائے گا اور اسی طرح اس رسم کو بھی تبدیل کریں جو اپنے بچوں کی زندگی محض حفظ قرآن اور قرآن خوانی تک محدود کردیتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں قرآن کو سیکھنے، اس کے مطابق عمل کرنے اور دوسروں کو اس کی دعوت دینے کی توفیق دے اور ہمارے بچوں کو حفظ قرآن کے ساتھ اس کے معانی ومفاہیم بھی جاننے کی توفیق دے تاکہ وہ بھی عمل کریں اور دوسروں کوبھی اس کی ترغیب دیں ۔ آمین
ماشاءاللہ