کیا دین اسلام مین ، اس قسم کی دقت و مشقت مطلوب ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا انعام الحسن)’’ آپ کے ایک مسترشد نے نظام الدین کے قیام میں زبانی طریقۂ ذکر معلوم کیا اور پھر اپنے وطن پہنچ کر تحریری طور پر دریافت کیا تو مندرجۂ ذیل الفاظ میں آپ نے اس کی تفصیل لکھ کر بھیجی۔ خط ملا۔ حال معلوم ہوکر مسرت ہوئی۔ اللہ رب العزت استقامت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ بارہ تسبیح جو بتلائی تھیں ان کی ترتیب پھر بتلاتا ہوں۔ وہ یہ کہ سورۂ فاتحہ تین دفعہ، آیۃ الکرسی ایک دفعہ، سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھ کر اپنے چاروں سلسلوں کے حضرات کو بخشیں۔ پھر گیارہ مرتبہ درود شریف ، گیارہ مرتبہ استغفار اور یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اسئلک من فضلک یا اللہ یا اللہ یا الہ ان تطھر قلبی عن غیرک وان تنور قلبی بنور معرفتک ابدا ابدا لا حول ولا قوۃ الا باللہ تین مرتبہ پڑھ کر لا الہ الا اللہ دو سو مرتبہ اسی دھیان اور ترکیب سے جو کہ میں نے بتلائی تھی۔ اور ہر دس مرتبہ کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لیں۔ اس کے بعد الا اللہ چار سو مرتبہ ، اس کے بعد اللہ اللہ چھ سو مرتبہ ، آخر میں اللہ ایک ضربی ایک سو مرتبہ۔ آخر میں مراقبہ میں بیٹھ جائیں اور دھیاں کریں کہ اللہ کا نور دل میں داخل ہورہا ہے۔ نیز نوافل، تلاوت وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہوئے نماز باجماعت کی پابندی فرمائیں۔ اور مقامی کام میں … اہتمام سے شرکت فرماتے رہیں۔ جناب محمد صدقی صاحب (وانمباڑی) کو چند مزید ہدایات کے ساتھ ’ذکرِ جہری‘ کی تعلیم اس طرح دیتے ہیں … آپ نے جو مزید ذکر کو پوچھا ہے تو اگر آپ پابندی سے کرسکتے ہیں اور ناغہ نہ ہو اس لئے کہ ناغہ ہونے کی صورت میں جسمانی و روحانی تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہے تو آپ باوضو چار زانو بیٹھ کر ان تسبیحات کو پڑھیں۔ اول و آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف اور گیارہ گیارہ بار استغفار اور شروع میں تین مرتبہ چوتھاکلمہ پھر دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ اس طرح کہ ہر دسویں بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں۔ پھر چار تسبیح الا اللہ کی پڑھیں۔ پھر چھ تسبیح اللہ اللہ اور پھر ایک تسبیح اللہ اللہ کی اس طرح کل تیرہ تسبیح ہوئیں۔ اور اول و آخر جو پڑھنے کو بتایا ہے اس کو پڑھیں۔ بہتر ہے کہ اگر وہاں کوئی جاننے والا ہو تو اس سے پڑھنے کا طریقہ معلوم کرلیں۔ نیز مقامی اعمال میں اہتمام سے شرکت فرماتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں، آسان فرمائیں‘‘۔ ۔۔۔۔۔۔ ) سوانح مولانا محمد انعام الحسن ، جلد سوم ، ص : ۳۵۵ تا ۳۵۷ (
حقیقت یا صرف غلو ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن صاحبؒ کا ذکر کا اہتمام ’’ بیعت کے ذریعہ روحانی تعلق قائم ہونے کے بعد آپ (یعنی انعام الحسن ) نے اس راہ میں بڑی جانفشانی بلکہ جاں سوزی اور جانکاہی کا ثبوت دیا۔ اور اپنے آپ کو ہمہ تن دعوت و تبلیغ اور اذکار و اوراد میں مصروف و مشغول کردیا۔ ذکر اسم ذات جس کی ابتداء بارہ ہزار سے ہوئی تھی، آہستہ آہستہ بڑھا کر ستر ہزار کی مقدار تک پہنچایا۔ ایک طویل عرصہ تک یہ معمول رہا کہ مقبرہ ہمایوں میں ( جو قریب ہی میں قلعہ نما ایک عمارت ہے) چلے جاتے اور ایک گوشہ میں بیٹھ کر اپنا ذکر اور معمولات پورے کرتے۔ بسا اوقات یہ نشست سات سات گھنٹے طویل ہوجاتی تھی۔ اس طویل نشست میں ذکر خفی اور پاس انفاس پر پوری توجہ صرف فرماتے … معمولات میں آپ کا ایک محبوب ترین عمل اور وظیفہ تلاوتِ قرآن پاک بھی تھا … جس کی یومیہ مقدار پندرہ سولہ پارے ہوجاتی تھی … ماہِ رمضان میں تلاوتِ قرآنِ پاک میں غیرمعمولی بلکہ محیرالعقل حد تک اضافہ ہوجاتا۔ حضرت شیخ کی تحریر کے مطابق ایک مرتبہ رمضان المبارک میں اکسٹھ قرآن پاک آپ نے ختم فرمائے تھے۔‘‘ ) سوانح مولانا محمد انعام الحسن صاحب ؒ ، جلد اول ، ص : ۲۲۳ : ۲۲۴ ( تبصرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ بدعت اور قبر پرستی نہیں ؟
Mashaallah
hamare hazratji ki zubani Alhamdulillah
ماشاللہ ۔
Allah pak hazarth jee shaab db ko Jaantul FIRDOUUS aatha farmey ameen
Aamin
Masha Allah hazrat g ko Allah Kareem janat me aala makam atafarma ameen
Aamin
Alhamdulillah
Allah Hazrat ji ko Jannat atah farmaye
Aamin
کیا دین اسلام مین ، اس قسم کی دقت و مشقت مطلوب ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ مولانا انعام الحسن)’’ آپ کے ایک مسترشد نے نظام الدین کے قیام میں زبانی طریقۂ ذکر معلوم کیا اور پھر اپنے وطن پہنچ کر تحریری طور پر دریافت کیا تو مندرجۂ ذیل الفاظ میں آپ نے اس کی تفصیل لکھ کر بھیجی۔
خط ملا۔ حال معلوم ہوکر مسرت ہوئی۔ اللہ رب العزت استقامت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ بارہ تسبیح جو بتلائی تھیں ان کی ترتیب پھر بتلاتا ہوں۔ وہ یہ کہ سورۂ فاتحہ تین دفعہ، آیۃ الکرسی ایک دفعہ، سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھ کر اپنے چاروں سلسلوں کے حضرات کو بخشیں۔ پھر گیارہ مرتبہ درود شریف ، گیارہ مرتبہ استغفار اور یا حی یا قیوم برحمتک استغیث اسئلک من فضلک یا اللہ یا اللہ یا الہ ان تطھر قلبی عن غیرک وان تنور قلبی بنور معرفتک ابدا ابدا لا حول ولا قوۃ الا باللہ تین مرتبہ پڑھ کر لا الہ الا اللہ دو سو مرتبہ اسی دھیان اور ترکیب سے جو کہ میں نے بتلائی تھی۔ اور ہر دس مرتبہ کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ لیں۔ اس کے بعد الا اللہ چار سو مرتبہ ، اس کے بعد اللہ اللہ چھ سو مرتبہ ، آخر میں اللہ ایک ضربی ایک سو مرتبہ۔ آخر میں مراقبہ میں بیٹھ جائیں اور دھیاں کریں کہ اللہ کا نور دل میں داخل ہورہا ہے۔ نیز نوافل، تلاوت وغیرہ کا اہتمام فرماتے ہوئے نماز باجماعت کی پابندی فرمائیں۔ اور مقامی کام میں … اہتمام سے شرکت فرماتے رہیں۔
جناب محمد صدقی صاحب (وانمباڑی) کو چند مزید ہدایات کے ساتھ ’ذکرِ جہری‘ کی تعلیم اس طرح دیتے ہیں …
آپ نے جو مزید ذکر کو پوچھا ہے تو اگر آپ پابندی سے کرسکتے ہیں اور ناغہ نہ ہو اس لئے کہ ناغہ ہونے کی صورت میں جسمانی و روحانی تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہے تو آپ باوضو چار زانو بیٹھ کر ان تسبیحات کو پڑھیں۔ اول و آخر گیارہ گیارہ بار درود شریف اور گیارہ گیارہ بار استغفار اور شروع میں تین مرتبہ چوتھاکلمہ پھر دو سو مرتبہ لا الہ الا اللہ اس طرح کہ ہر دسویں بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں۔ پھر چار تسبیح الا اللہ کی پڑھیں۔ پھر چھ تسبیح اللہ اللہ اور پھر ایک تسبیح اللہ اللہ کی اس طرح کل تیرہ تسبیح ہوئیں۔ اور اول و آخر جو پڑھنے کو بتایا ہے اس کو پڑھیں۔ بہتر ہے کہ اگر وہاں کوئی جاننے والا ہو تو اس سے پڑھنے کا طریقہ معلوم کرلیں۔ نیز مقامی اعمال میں اہتمام سے شرکت فرماتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائیں، آسان فرمائیں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔ ) سوانح مولانا محمد انعام الحسن ، جلد سوم ، ص : ۳۵۵ تا ۳۵۷ (
حقیقت یا صرف غلو ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغی جماعت کے امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن صاحبؒ کا ذکر کا اہتمام
’’ بیعت کے ذریعہ روحانی تعلق قائم ہونے کے بعد آپ (یعنی انعام الحسن ) نے اس راہ میں بڑی جانفشانی بلکہ جاں سوزی اور جانکاہی کا ثبوت دیا۔ اور اپنے آپ کو ہمہ تن دعوت و تبلیغ اور اذکار و اوراد میں مصروف و مشغول کردیا۔ ذکر اسم ذات جس کی ابتداء بارہ ہزار سے ہوئی تھی، آہستہ آہستہ بڑھا کر ستر ہزار کی مقدار تک پہنچایا۔ ایک طویل عرصہ تک یہ معمول رہا کہ مقبرہ ہمایوں میں ( جو قریب ہی میں قلعہ نما ایک عمارت ہے) چلے جاتے اور ایک گوشہ میں بیٹھ کر اپنا ذکر اور معمولات پورے کرتے۔ بسا اوقات یہ نشست سات سات گھنٹے طویل ہوجاتی تھی۔ اس طویل نشست میں ذکر خفی اور پاس انفاس پر پوری توجہ صرف فرماتے … معمولات میں آپ کا ایک محبوب ترین عمل اور وظیفہ تلاوتِ قرآن پاک بھی تھا … جس کی یومیہ مقدار پندرہ سولہ پارے ہوجاتی تھی … ماہِ رمضان میں تلاوتِ قرآنِ پاک میں غیرمعمولی بلکہ محیرالعقل حد تک اضافہ ہوجاتا۔ حضرت شیخ کی تحریر کے مطابق ایک مرتبہ رمضان المبارک میں اکسٹھ قرآن پاک آپ نے ختم فرمائے تھے۔‘‘ ) سوانح مولانا محمد انعام الحسن صاحب ؒ ، جلد اول ، ص : ۲۲۳ : ۲۲۴ (
تبصرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ بدعت اور قبر پرستی نہیں ؟