مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن ادراک نہیں کیا جا سکتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ (۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘ (القیامہ:۲۳،۲۲) "کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔" لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(103) "آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہی ہر باریک چیز کو جاننے والا، بڑا خبردار ہے۔"
اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔ یہی اہلِ سنت کامذہب ہے۔ خارجی اور معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقے اِدراک اور رُویت میں فرق نہیں کرتے، اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا، حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں جاسکتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا بھی نہیں جاسکتا اور جیسے کائنات میں موجود تمام چیزوں کے برخلاف کیفیت وجہت کے بغیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا جاسکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیَّت و جہت کے دیکھی نہیں جاسکتیں تو جانی بھی نہیں جاسکتیں۔ اس کلام کی بنیاد یہ ہے کہ دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ بصر (دیکھنے کی قوت) کسی شے کو جیسی وہ ہو ویسا جانے تو جو شے جہت والی ہوگی، اس کا دیکھا جانا جہت میں ہوگا اور جس کے لئے جہت نہ ہوگی اس کا دیکھا جانا بغیر جہت کے ہوگا۔
Subhan Allah jzak Allah kher
Jazakallaho khairan
Subah Allah... MashaAllah
Allah pak apki omer me barkat dy ameen
جزاک اللہ
جزاک اللہ خیرا
Mashallah
Subhan AllAH
Very nice and sweet
SubhanAllah
ماشاءاللہ
Allah slaamat rakhe
سبحان اللہ
Done ✅ ✅
bayan kano m gunj raha..
Allah paak mufti sb ko tsndrusti ke sath umr m barkat ata farmay aamin
Ameen inshallah
Aameen summa Aameen
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذات کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن ادراک نہیں کیا جا سکتا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’وُجُوْهٌ یَّوْمَىٕذٍ نَّاضِرَةٌۙ (۲۲) اِلٰى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ‘‘
(القیامہ:۲۳،۲۲)
"کچھ چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔"
لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ٘ وَ هُوَ یُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(103)
"آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اور وہ تمام آنکھوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور وہی ہر باریک چیز کو جاننے والا، بڑا خبردار ہے۔"
اِدراک کے معنیٰ ہیں کہ دیکھی جانے والی چیز کی تمام طرفوں اور حدوں پر واقف ہونا کہ یہ چیز فلاں جگہ سے شروع ہو کر فلاں جگہ ختم ہوگئی جیسے انسان کو ہم کہیں کہ سر سے شروع ہوکر پاؤں پر ختم ہوگیا، اِسی کو اِحاطہ (گھیراؤ) کہتے ہیں۔ اِدراک کی یہی تفسیر حضرت سعید بن مُسیَّبْ اور حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے اور جمہور مفسرین اِدراک کی تفسیر اِحاطہ سے فرماتے ہیں اور اِحاطہ اسی چیز کا ہوسکتا ہے جس کی حدیں اور جہتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے حد اور جہت محال ہے تو اس کا ادراک واحاطہ بھی ناممکن ۔ یہی اہلِ سنت کامذہب ہے۔ خارجی اور معتزلہ وغیرہ گمراہ فرقے اِدراک اور رُویت میں فرق نہیں کرتے، اس لئے وہ اس گمراہی میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے دیدارِ الٰہی کو محالِ عقلی قرار دے دیا، حالانکہ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو دیکھا نہیں جاسکتا تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا بھی نہیں جاسکتا اور جیسے کائنات میں موجود تمام چیزوں کے برخلاف کیفیت وجہت کے بغیر اللہ عَزَّوَجَلَّ کو جانا جاسکتا ہے ایسے ہی دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ اگر دوسری موجودات بغیر کیفیَّت و جہت کے دیکھی نہیں جاسکتیں تو جانی بھی نہیں جاسکتیں۔ اس کلام کی بنیاد یہ ہے کہ دیکھنے کے معنی یہ ہیں کہ بصر (دیکھنے کی قوت) کسی شے کو جیسی وہ ہو ویسا جانے تو جو شے جہت والی ہوگی، اس کا دیکھا جانا جہت میں ہوگا اور جس کے لئے جہت نہ ہوگی اس کا دیکھا جانا بغیر جہت کے ہوگا۔
Ye bayan kb ka h?
Aslam u alaikum please make branch of your academy in Lahore for girls too
Ourat ko 2 Sadi Karina jaiga ha
Subhanallaah
ماشاءاللہ
Subhanllah
Subhan allah
ماشاءاللہ