" کس جی سے کہوں کہ اس کا آب و دانہ اٹھ چکا تھا اور وہ رخصت ہو رہا تھا۔ اس ہمت، اس حوصلے، اس سکون کے ساتھ، جو صرف جانوروں کا مقّدر ہے۔ بغیر کراہے، بغیر تڑپے، بغیر ہراساں ہوئے۔ بس بے نور نظریں جمائے دیکھے چلا جا رہا تھا۔ باری باری سب نے اسے چمکارا۔ سر پر ہاتھ رکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتا تھا، اور یہ یاد کرکے سب کی آنکھیں بھر آئیں کہ اس کی زندگی میں آج پہلا موقع تھا کہ سر پر ہاتھ پھرواتے وقت وہ جواباً اپنی ریشم سی ملائم دم نہیں ہلا سکتا تھا۔ آج اس کے نتھنوں میں ایک اجنبی خون کی ُبو گھسی جا رہی تھی۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ چار پانچ کوے اوپر منڈلانے لگے اور دھیرے دھیرے اتنے نیچے اترآئے کہ ان کے منحوس سائے اس پر پڑنے لگے۔ کچھ دیر بعد احاطے کی دیوار پر آبیٹھے اور شورمچانے لگے۔ سیزر نے ایک نظر اٹھاکر انہیں دیکھا۔ ایک لحظے کے لیے اس کے نتھنے پھڑک اٹھے۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔ ہم سے یہ نہ دیکھا گیا۔ اس کا خون آلوُد منہ کھول کر سونے کی گولیوں کی شیشی حلق میں اُلٹ دی اور کالر اُتار دیا۔ ذرا دیر بعد وہ اپنے پیار کرنے والوں کی دھندلاتی صورتیں دیکھتا دیکھتا ہمیشہ کے لیے سو گیا"۔ مشتاق احمد یوسفی
ہر عہد یوسفی کا عہد ہے ❤
یوسفی صاحب کا یہ مضمون جب بھی پڑھا یا سنا خوب ہنسا، اور پھر چند آنسوؤں نے بھی ضرور داد دی۔
❤❤❤❤
Tearful what a legendary writer he was . Stay blessed the great yusufi
Wah mushtaq sahb
بہت شکریہ جناب
یوسفی صاحب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں. اللہ ان کی مغفرت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
Great writer.
I love you sir.
" کس جی سے کہوں کہ اس کا آب و دانہ اٹھ چکا تھا اور وہ رخصت ہو رہا تھا۔ اس ہمت، اس حوصلے، اس سکون کے ساتھ، جو صرف جانوروں کا مقّدر ہے۔ بغیر کراہے، بغیر تڑپے، بغیر ہراساں ہوئے۔ بس بے نور نظریں جمائے دیکھے چلا جا رہا تھا۔ باری باری سب نے اسے چمکارا۔ سر پر ہاتھ رکھتے ہی وہ آنکھیں جھکا لیتا تھا، اور یہ یاد کرکے سب کی آنکھیں بھر آئیں کہ اس کی زندگی میں آج پہلا موقع تھا کہ سر پر ہاتھ پھرواتے وقت وہ جواباً اپنی ریشم سی ملائم دم نہیں ہلا سکتا تھا۔ آج اس کے نتھنوں میں ایک اجنبی خون کی ُبو گھسی جا رہی تھی۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ چار پانچ کوے اوپر منڈلانے لگے اور دھیرے دھیرے اتنے نیچے اترآئے کہ ان کے منحوس سائے اس پر پڑنے لگے۔ کچھ دیر بعد احاطے کی دیوار پر آبیٹھے اور شورمچانے لگے۔ سیزر نے ایک نظر اٹھاکر انہیں دیکھا۔ ایک لحظے کے لیے اس کے نتھنے پھڑک اٹھے۔ پھر اس نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔ ہم سے یہ نہ دیکھا گیا۔ اس کا خون آلوُد منہ کھول کر سونے کی گولیوں کی شیشی حلق میں اُلٹ دی اور کالر اُتار دیا۔
ذرا دیر بعد وہ اپنے پیار کرنے والوں کی دھندلاتی صورتیں دیکھتا دیکھتا ہمیشہ کے لیے سو گیا"۔
مشتاق احمد یوسفی
We lost a gem.
One and only legend of this century.
👌😂
ایسی شستہ اردو اب کون بولے گا
اب یہ کون ہے ؟ Who is he. ?
ruclips.net/video/MK1QFEbOHEU/видео.html