جزاکم اللہ خیر آپ کس طرح ایک ایک پہلو کھول کر بیان کرتے ہیں۔ میری ناقص رائے میں بنیادی فرق دیگر تراجم میں یہی ہے کہ کون کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔ تمام تراجم کرنے والوں نے زبان میں ایک حد ادب میں رہتے ہوئے رسول اللہ کو مخاطبت میں میں اپنی زبانی اور خیالی ادب کو زیادہ محبوب رکھا اور آپ رسالت مآب کے کے لئے "تو" کا تخاطب استعمال کرنے کی ہمت نہیں پائی کیونکہ انھوں نے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا کہ کون کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔ شاہ صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ترجمہ عاشق اور محبوب کی محبت کو سامنے رکھتے ہوئے اسی بے تکلفی کا اظہار قائم رکھا جو اللہ اور اس کے محبوب کے درمیان محبت اور بے تکلفی ہے۔ یہی حد ادب ہمیں لے ڈوبا کہ قران کو مخمل کے جزدان میں لپیٹ کر سب سے اونچی جگہ پر رکھ دیا کہ کہیں غلطی سےبھی اسے کھولنا نہ پڑجائے بس لڑکی کی رخصتی کے وقت اسی حالت میں منگوا کر اس کی نیچے سے دلہن کو گزار دیں شاذ کوئی شخص ہوگا کہ قران اس کی سائڈ ٹیبل پر رکھا مل جائے
لیکن بعض لُغوی معنی کو سیاق و سباق ہی اصطلاح بناتا ہے۔ context سے ہٹ کر یہ محض عام سا مطلب بتاتا ہے۔ مثلاً ربا کا لُُغوی مطلب تو قرض پر اضافہ ہے مگر سورہ البقرہ میں یہ اس قرض پر اضافہ ہے جو مستحقین صدقات سے لیا جائے۔
جزاک اللہ خیر ۔ اللہ آپ کو اپنا قرب عطا کرے۔ کچھ سال پہلے امین احسن اصلاحی صاحب کی تفسیر پڑھی تو یہ سوال ذہن میں آیا کہ قرآن میں ویسا نظم تلاش کرنا جیسا ہم اور کتابوں میں دیکھتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟ ہماری ذہنی مشق تو کبھی بھی زماں و مکاں کی حد پار نہیں کرسکتی اور قرآن اللہ کی صفت کلام کا ظہور ہے ، یہاں عبدالماجد دریابادی کی اصطلاح کہ یہ “ عالم قدس “ ہے بہت دل کو لگی اور سمجھ میں آیا کہ اس عالم کی سیر احساس کے ساتھ ہوسکتی ہے ذہن کے ساتھ نہیں۔ اور احساس میں نظم کی وہ صورت نہیں جو کسی مضمون کی تحریر میں ہوتی ہے۔اسی لیے الفاظ، آیات اور سورتوں کی ترتیب میں نظم کو تلاش کرنے کی ذہنی کاوش بے سود ہے۔
ایک تجویز ہے استاد محترم کہ اس تقابلی جائزے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ سورت فاتحہ سے عبد القادر صاحب کا ترجمہ ہمیں پڑھ کہ سمجھائیں کیونکہ وہ زرا پرانی اردو میں ہے۔ شکریہ
ماشاءاللہ بہت ھی عمدہ طریقے سے آپ نے حضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمتہ القرآن کی امتیازی خصوصیات بیان فرمائیں۔۔ غالبا 1985 کی بات ھے ،میرے انتہائی محترم دوست حضرت ماسٹر غلام حسین صاحب رحمہ اللہ نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ عبد الحکیم انصاری رحمتہ اللہ علیہ سے 1960 کے لگ بھگ پوچھے گئے سوال کہ ترجمہ القرآن کس کا پڑ حنا چائے،کے جواب میں ان کا فرمان سنایا کہ سب سے بہتر ترجمہ شاہ عبد القادر رح کا ھے۔ کی مجھے آپ کی سورہ فاتحہ پہ دو وڈیوز اور آج کی وڈیو سورہ الم نشر ح کے ترجمہ کے تقابلی مطالعے کے بعد سمجھ آئی جزاک اللہ خیرا۔۔۔بارک اللہ فیکم۔ ھم اللہ کریم کے انتہائی شکر گزار ھیں،جس نے ھمیں آپ جیسی شخصیت سے استفادے کے مواقع عطا فرمائے۔الحمدللہ علی ذلک۔ امید ھے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔الھم زد فزد۔
کہاں شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور کہاں لارنس آف عریبیہ کا پڑہوتا جو منطق کا سہارا لے کر دین میں تحریف کرتا ہے ۔ محترم آپ نے یہ کیسا غیر فطری امتزاج بنا رکھا ہے
اپنے ہم عصر عالم دین کی وسعت علم وفکر آپ سے ھضم نہیں ھو رہی۔ آپ کی شرح کے بعد غامدی صاحب کے تفسیری و مرادی ترجمے کا حسن اور واضح ھو گیا۔ آپ خالی الذہن ھو کر قرآن کیطرف رجوع نہیں فرماتے اپنی صوفیت ساتھ لیکر جاتے ہیں۔
آپ کی بات سے جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ محترم غامدی صاحب کو تو اس کی مکمل اجازت ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام حنبل، امام غزالی، امام رازی، ابن عربی اور دیگر بے شمار بزرگان دین کی آرا پر تنقید کریں، انہیں غلط قرار دیں، بعض کی آرا کو متوازی دین قرار دیں، روایت کے بہت سے اجزا کو غیر دین قرار دیں۔ مگر کسی دوسرے شخص کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ وہ غامدی صاحب کے ترجمہ قران کو درست قرار دیتے ہوئے، اس کی بعض کمزوریاں، اپنے کسی ترجمہ کے مقابلے میں نہیں، بلکہ ایک 200 سال پرانے عالم دین کے ترجمہ کے مقابلے میں واضح کر سکے۔ جب غامدی صاحب پچھلے علما اور صوفیا کی آرا پر تنقید کرتے ہیں تو اس کی وجہ کیا یہ ہوتی ہے کہ غامدی صاحب سے ان بزرگوں کی وسعت علم و فکر ہضم نہیں ہو رہی ہوتی؟ آپ جیسے لوگوں کامسئلہ یہ ہے کہ آپ نے غامدی صاحب کو صرف ٹی وی پر سنا ہے، ان کی صحبت کا فیض نہیں پایا اور ان کی وسعت قلبی، علمی مزاج اور بلند نظری سے خود کو دور رکھا ہے۔ ورنہ ایسی لغو بات نہ کرتے جو آپ کے (اور ہمارے بھی) ممدوح، غامدی صاحب کا مرتبہ گھٹانے کا باعث بن سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ محترم غامدی صاحب بھی خالی الذہن ہو کر قرآن کی طرف رجوع نہیں فرماتے، بلکہ اپنے اس شعور کے ساتھ رجوع فرماتے ہیں جسکے تمام بلڈنگ بلاکس ویسٹرن ازم کے بنے ہوئے ہیں۔ خالی الذہنی کا ان کا دعوی محض ان کا وہم ہے۔ تیسرے یہ کہ محترم احمد جاوید صاحب پر آپ نے جو الزام لگایا ہے کہ آپ "صوفیت ساتھ لے کر" قرآن کی طرف رجوع فرماتے ہیں، اس ویڈیو سے اس کا ثبوت بہم پہنچائیے کہ کہاں جاوید صاحب نے قرآن کی کسی مراد پر تصوف کے کسی نظریے کو حَکم بنایا اور اس نظریہ کو قرآن سے غلط طور پر ثابت کیا۔
Dil laga wala hukm is beautiful.
JazakaAllaah
Jazak allah
الله کا کرم ہے اور سر کا احسان ہے، بہت شکریہ ان قرآنی نشستوں کے لیے، جزاک اللہ خیر ❤
Masha Allah
Masha ALLAH
اللہ سبحان و تعالٰی حضرت کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین ثمہ آمین ،جزاک اللہ خیراً کثیرا واحسن الجزاء فی الدارین
JazakAllah Khair
Jazakallah
Last words of this video are key for the whole Quran.
subhan Allah
ماشااللہ، حسن بیان بہت معنی انگیز ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
SubhanAllaah
❤ murshid
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
❤
🎉 سبحان اللہ بہت خوب واضح تشریح۔۔ احمد جاوید صاحپ
پہلے ہی ادب کے ساتھ۔ ہمارے۔لے کیا نصےہ ت ہے...message .hi
جزاکم اللہ خیر
آپ کس طرح ایک ایک پہلو کھول کر بیان کرتے ہیں۔
میری ناقص رائے میں بنیادی فرق دیگر تراجم میں یہی ہے کہ کون کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔
تمام تراجم کرنے والوں نے زبان میں ایک حد ادب میں رہتے ہوئے رسول اللہ کو مخاطبت میں میں اپنی زبانی اور خیالی ادب کو زیادہ محبوب رکھا اور آپ رسالت مآب کے کے لئے "تو" کا تخاطب استعمال کرنے کی ہمت نہیں پائی کیونکہ انھوں نے اس بات کو پیش نظر نہیں رکھا کہ کون کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔
شاہ صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ترجمہ عاشق اور محبوب کی محبت کو سامنے رکھتے ہوئے اسی بے تکلفی کا اظہار قائم رکھا جو اللہ اور اس کے محبوب کے درمیان محبت اور بے تکلفی ہے۔
یہی حد ادب ہمیں لے ڈوبا کہ قران کو مخمل کے جزدان میں لپیٹ کر سب سے اونچی جگہ پر رکھ دیا کہ کہیں غلطی سےبھی اسے کھولنا نہ پڑجائے بس لڑکی کی رخصتی کے وقت اسی حالت میں منگوا کر اس کی نیچے سے دلہن کو گزار دیں
شاذ کوئی شخص ہوگا کہ قران اس کی سائڈ ٹیبل پر رکھا مل جائے
لیکن بعض لُغوی معنی کو سیاق و سباق ہی اصطلاح بناتا ہے۔ context سے ہٹ کر یہ محض عام سا مطلب بتاتا ہے۔ مثلاً ربا کا لُُغوی مطلب تو قرض پر اضافہ ہے مگر سورہ البقرہ میں یہ اس قرض پر اضافہ ہے جو مستحقین صدقات سے لیا جائے۔
العسرة..... میں ال میں( اس) کا sense آرہا ہو....ال کسی کو specific
کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے... جیسے کتاب اور الکتاب...
و العلم عند الله....
جزاک اللہ خیر ۔ اللہ آپ کو اپنا قرب عطا کرے۔
کچھ سال پہلے امین احسن اصلاحی صاحب کی تفسیر پڑھی تو یہ سوال ذہن میں آیا کہ قرآن میں ویسا نظم تلاش کرنا جیسا ہم اور کتابوں میں دیکھتے ہیں کیا یہ درست ہے ؟
ہماری ذہنی مشق تو کبھی بھی زماں و مکاں کی حد پار نہیں کرسکتی اور قرآن اللہ کی صفت کلام کا ظہور ہے ، یہاں عبدالماجد دریابادی کی اصطلاح کہ یہ “ عالم قدس “ ہے بہت دل کو لگی اور سمجھ میں آیا کہ اس عالم کی سیر احساس کے ساتھ ہوسکتی ہے ذہن کے ساتھ نہیں۔ اور احساس میں نظم کی وہ صورت نہیں جو کسی مضمون کی تحریر میں ہوتی ہے۔اسی لیے الفاظ، آیات اور سورتوں کی ترتیب میں نظم کو تلاش کرنے کی ذہنی کاوش بے سود ہے۔
حضور ! آپ نے مولانا محمد اکرم اعوام رح کا لکھا ہوا ترجمہ , ' اکرم التراجم ' بھی پڑھا ہے ؟
Shah Abdul Qadir Dehlvi is the full name?
ایک تجویز ہے استاد محترم کہ اس تقابلی جائزے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ آپ سورت فاتحہ سے عبد القادر صاحب کا ترجمہ ہمیں پڑھ کہ سمجھائیں کیونکہ وہ زرا پرانی اردو میں ہے۔ شکریہ
معاف کیجیے میں یہ بات آپ کے بیان قرآن کے نظم میں بھیجنا چاہتا تھا مگر غلطی سے یہاں بھیج دیا۔
حضرت ! آپ کس شہر میں ہوتے ہیں ۔ کیا آپ سے براہِ راست استفادہ کیا جا سکتا ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃاللہ
آپ عمر عبدالعزیز صاحب سے اس نمبر پر رابطہ کرلیں۔
+923224721959
ایڈمن
ماشاءاللہ بہت ھی عمدہ طریقے سے آپ نے حضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمتہ القرآن کی امتیازی خصوصیات بیان فرمائیں۔۔
غالبا 1985 کی بات ھے ،میرے انتہائی محترم دوست حضرت ماسٹر غلام حسین صاحب رحمہ اللہ نے اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ عبد الحکیم انصاری رحمتہ اللہ علیہ سے 1960 کے لگ بھگ پوچھے گئے سوال کہ ترجمہ القرآن کس کا پڑ حنا چائے،کے جواب میں ان کا فرمان سنایا کہ سب سے بہتر ترجمہ شاہ عبد القادر رح کا ھے۔
کی مجھے آپ کی سورہ فاتحہ پہ دو وڈیوز اور آج کی وڈیو سورہ الم نشر ح کے ترجمہ کے تقابلی مطالعے کے بعد سمجھ آئی
جزاک اللہ خیرا۔۔۔بارک اللہ فیکم۔
ھم اللہ کریم کے انتہائی شکر گزار ھیں،جس نے ھمیں آپ جیسی شخصیت سے استفادے کے مواقع عطا فرمائے۔الحمدللہ علی ذلک۔
امید ھے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔الھم زد فزد۔
@@AhmadJavaidWhatsApp number toh nhi ha?
کاش کہ عربی زبان بھی سیکھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا
Make short videos
کہاں شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور کہاں لارنس آف عریبیہ کا پڑہوتا جو منطق کا سہارا لے کر دین میں تحریف کرتا ہے ۔ محترم آپ نے یہ کیسا غیر فطری امتزاج بنا رکھا ہے
اپنے ہم عصر عالم دین کی وسعت علم وفکر آپ سے ھضم نہیں ھو رہی۔ آپ کی شرح کے بعد غامدی صاحب کے تفسیری و مرادی ترجمے کا حسن اور واضح ھو گیا۔ آپ خالی الذہن ھو کر قرآن کیطرف رجوع نہیں فرماتے اپنی صوفیت ساتھ لیکر جاتے ہیں۔
آپ کی بات سے جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ محترم غامدی صاحب کو تو اس کی مکمل اجازت ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام حنبل، امام غزالی، امام رازی، ابن عربی اور دیگر بے شمار بزرگان دین کی آرا پر تنقید کریں، انہیں غلط قرار دیں، بعض کی آرا کو متوازی دین قرار دیں، روایت کے بہت سے اجزا کو غیر دین قرار دیں۔
مگر کسی دوسرے شخص کو اس بات کی ہر گز اجازت نہیں کہ وہ غامدی صاحب کے ترجمہ قران کو درست قرار دیتے ہوئے، اس کی بعض کمزوریاں، اپنے کسی ترجمہ کے مقابلے میں نہیں، بلکہ ایک 200 سال پرانے عالم دین کے ترجمہ کے مقابلے میں واضح کر سکے۔
جب غامدی صاحب پچھلے علما اور صوفیا کی آرا پر تنقید کرتے ہیں تو اس کی وجہ کیا یہ ہوتی ہے کہ غامدی صاحب سے ان بزرگوں کی وسعت علم و فکر ہضم نہیں ہو رہی ہوتی؟
آپ جیسے لوگوں کامسئلہ یہ ہے کہ آپ نے غامدی صاحب کو صرف ٹی وی پر سنا ہے، ان کی صحبت کا فیض نہیں پایا اور ان کی وسعت قلبی، علمی مزاج اور بلند نظری سے خود کو دور رکھا ہے۔ ورنہ ایسی لغو بات نہ کرتے جو آپ کے (اور ہمارے بھی) ممدوح، غامدی صاحب کا مرتبہ گھٹانے کا باعث بن سکتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ محترم غامدی صاحب بھی خالی الذہن ہو کر قرآن کی طرف رجوع نہیں فرماتے، بلکہ اپنے اس شعور کے ساتھ رجوع فرماتے ہیں جسکے تمام بلڈنگ بلاکس ویسٹرن ازم کے بنے ہوئے ہیں۔ خالی الذہنی کا ان کا دعوی محض ان کا وہم ہے۔
تیسرے یہ کہ محترم احمد جاوید صاحب پر آپ نے جو الزام لگایا ہے کہ آپ "صوفیت ساتھ لے کر" قرآن کی طرف رجوع فرماتے ہیں، اس ویڈیو سے اس کا ثبوت بہم پہنچائیے کہ کہاں جاوید صاحب نے قرآن کی کسی مراد پر تصوف کے کسی نظریے کو حَکم بنایا اور اس نظریہ کو قرآن سے غلط طور پر ثابت کیا۔
Well said !! Explained beautifully
@syednasirgilani If we invite to defend ur ustad ghamdi u will run faster than shytan
❤