ماشاءاللہ سر اللہ تعالی اپ کو قائم دائم رکھے اپ کو پورا اسلام اباد دیکھتا ہے اپ نے بہت اچھے حوالے سے روشنی ڈالی اصل جو مین جڑ ہے نا وہ وہ ٹھیکہ ہے ٹھیکے میں افسران کا فائدہ ہوتا ہے کمیشن ملتے ہیں کک بیکس ملتے ہیں کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا گاڑی میں پیٹرول گاڑیاں اور شراب کباب عیاشیاں یہ سب ٹھیکہ سسٹم سے ہی پورے ہوتے ہیں مثال کے طور پر اگر ٹھیکے میں 800 بندے کی ویکنسی دی ہے تو ٹھیکیدار فرضی فرضی 800 بندے کے ڈیٹیلز لے لے گا اور میکسیمم ڈیڑھ سو 200 بندہ بھرتی کر کے 800 بندوں کی سیلری لے گا اور جو سیلری کا جو بجٹ بنے گا وہ 800 ورکروں کا بجٹ ہوگا اور جو ڈیڑھ سو 200 بندہ بھرتی کیا ہوگا اس کی بھی تنخواہ کاٹ کوٹ کے کم دے جاتے ہیں اور موجودہ اجرت کے مطابق نہیں ہوتی اس ٹھیکے میں سب سے زیادہ ٹھیکیدار اور افسران کا فائدہ ہے اور پورا اسلام اباد کچرا کنڈی بن گیا ہے مثال کے طور پر جس سیکٹر میں ڈیڑھ سو ورکر چاہیے کام کے لیے وہاں 60 70 بھرتی کرتے ہیں اور ایک ورکر سے 10 سے 15 ورکروں جتنا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی 14 14 گھنٹے اسے ڈیوٹی لی جاتی ہے اور بل وہی ڈیڑھ سو کے بنتے ہیں اس کچرے کے حوالے سے اور اپنی اپنی ڈیوٹی کے حوالے سے ایک میکنزم بنانا چاہیے ایک تو جہاں جتنی ریکوائرمنٹ ہے اس حساب سے ورکر بڑھتی کرنے چاہیے اور وہ ابھی ریگولر بیسس پہ اگر ریگولر بیسس پہ ورکر بڑھتی نہ کیے ہیں تو ورکر کو ایک تو ٹائم پہ سیلری نہیں ملتی اس کو بینیفٹس نہیں ملتے ان کو چھٹیاں میڈیکل الاؤنسز وغیرہ یہ چیزیں نہیں ملتی اور ورکر کام میں انٹرسٹ نہیں لیتا اس کی وجہ ہے کہ وہ سیلری کے مطابق کام کرتا ہے جتنی سیلری ہوگی وہ اسی حساب سے کام کرے گا اور ٹائم پاس کرے گا اس لیے اسلام اباد کے اندر ریگولر ورکر ہونا بہت ضروری ہے اور دوسری بات دہی علاقوں کا بھی کچرہ اسلام اباد کے اندر کے سیکٹر سے ورکر نکل کر دہی علاقوں کا کچرہ اٹھاتے ہیں دہی علاقے یعنی کہ گاؤں دیہات کے لیے علیحدہ ایڈمنسٹریشن ہونی چاہیے اس کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر اور دہی علاقوں کی جو لیبر ہے وہ علیحدہ ہونی چاہیے اس کو سی ڈی اے ہی پے کرے سیلری بھی سی ڈی اے دے اس سے یہ ہوگا کہ اسلام اباد کے اندر گندگی غلاظت کچرا توڑ پھوڑ مینٹیننس سٹریٹ لائٹس سیوریج انڈر گراؤنڈ پائپ لائن واٹر سپلائی اور دوسرے دیگر جتنے بھی شعبہ جات ہیں ان کے کام میں روحانی ائے گی اور کام تیزی سے ہوگا جب سے اسلام اباد کے اندر سی ڈی اے نے افسران کی ملی بھگت سے ٹھیکے والا سسٹم ایجاد کیا ہے تب سے اسلام اباد اور لوکل ابادی جتنی بھی ہے کچرا کنڈی بن گئی ہے اور جو بھی افسران ہیں جس جس ڈائریکٹریٹ کے ہیں جن کو اپنی کرسی پہ 15 سے 20 سال ہو گئے ہیں اور ان کے پاؤں جم گئے ہیں اپنی کرسیوں پہ اپنے ڈائریکٹریٹ پر ان کو فوری دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کریں اور اچھے لوگ لے کر ائیں نیا بندہ جب اتا ہے تو اس کو سسٹم کو سمجھنے اور نظام کو چلانے میں ٹائم لگتا ہے اور اس کو اتنی جلدی یہ چالاکیاں نہیں کرنی ہوتی
Good wishes for Lala Ezzat
Good job SokiTV 👍
📝
ماشاءاللہ سر اللہ تعالی اپ کو قائم دائم رکھے اپ کو پورا اسلام اباد دیکھتا ہے
اپ نے بہت اچھے حوالے سے روشنی ڈالی اصل جو مین جڑ ہے نا وہ وہ ٹھیکہ ہے ٹھیکے میں افسران کا فائدہ ہوتا ہے کمیشن ملتے ہیں کک بیکس ملتے ہیں کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا گاڑی میں پیٹرول گاڑیاں اور شراب کباب عیاشیاں یہ سب ٹھیکہ سسٹم سے ہی پورے ہوتے ہیں مثال کے طور پر اگر ٹھیکے میں 800 بندے کی ویکنسی دی ہے تو ٹھیکیدار فرضی فرضی 800 بندے کے ڈیٹیلز لے لے گا اور میکسیمم ڈیڑھ سو 200 بندہ بھرتی کر کے 800 بندوں کی سیلری لے گا اور جو سیلری کا جو بجٹ بنے گا وہ 800 ورکروں کا بجٹ ہوگا اور جو ڈیڑھ سو 200 بندہ بھرتی کیا ہوگا اس کی بھی تنخواہ کاٹ کوٹ کے کم دے جاتے ہیں اور موجودہ اجرت کے مطابق نہیں ہوتی اس ٹھیکے میں سب سے زیادہ ٹھیکیدار اور افسران کا فائدہ ہے
اور پورا اسلام اباد کچرا کنڈی بن گیا ہے مثال کے طور پر جس سیکٹر میں ڈیڑھ سو ورکر چاہیے کام کے لیے وہاں 60 70 بھرتی کرتے ہیں اور ایک ورکر سے 10 سے 15 ورکروں جتنا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی 14 14 گھنٹے اسے ڈیوٹی لی جاتی ہے اور بل وہی ڈیڑھ سو کے بنتے ہیں اس کچرے کے حوالے سے اور اپنی اپنی ڈیوٹی کے حوالے سے ایک میکنزم بنانا چاہیے ایک تو جہاں جتنی ریکوائرمنٹ ہے اس حساب سے ورکر بڑھتی کرنے چاہیے اور وہ ابھی ریگولر بیسس پہ اگر ریگولر بیسس پہ ورکر بڑھتی نہ کیے ہیں تو ورکر کو ایک تو ٹائم پہ سیلری نہیں ملتی اس کو بینیفٹس نہیں ملتے ان کو چھٹیاں میڈیکل الاؤنسز وغیرہ یہ چیزیں نہیں ملتی اور ورکر کام میں انٹرسٹ نہیں لیتا اس کی وجہ ہے کہ وہ سیلری کے مطابق کام کرتا ہے جتنی سیلری ہوگی وہ اسی حساب سے کام کرے گا اور ٹائم پاس کرے گا اس لیے اسلام اباد کے اندر ریگولر ورکر ہونا بہت ضروری ہے
اور دوسری بات دہی علاقوں کا بھی کچرہ اسلام اباد کے اندر کے سیکٹر سے ورکر نکل کر دہی علاقوں کا کچرہ اٹھاتے ہیں دہی علاقے یعنی کہ گاؤں دیہات کے لیے علیحدہ ایڈمنسٹریشن ہونی چاہیے اس کے لیے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر اور دہی علاقوں کی جو لیبر ہے وہ علیحدہ ہونی چاہیے اس کو سی ڈی اے ہی پے کرے سیلری بھی سی ڈی اے دے اس سے یہ ہوگا کہ اسلام اباد کے اندر گندگی غلاظت کچرا توڑ پھوڑ مینٹیننس سٹریٹ لائٹس سیوریج انڈر گراؤنڈ پائپ لائن واٹر سپلائی اور دوسرے دیگر جتنے بھی شعبہ جات ہیں ان کے کام میں روحانی ائے گی اور کام تیزی سے ہوگا جب سے اسلام اباد کے اندر سی ڈی اے نے افسران کی ملی بھگت سے ٹھیکے والا سسٹم ایجاد کیا ہے تب سے اسلام اباد اور لوکل ابادی جتنی بھی ہے کچرا کنڈی بن گئی ہے اور جو بھی افسران ہیں جس جس ڈائریکٹریٹ کے ہیں جن کو اپنی کرسی پہ 15 سے 20 سال ہو گئے ہیں اور ان کے پاؤں جم گئے ہیں اپنی کرسیوں پہ اپنے ڈائریکٹریٹ پر ان کو فوری دوسرے صوبوں میں ٹرانسفر کریں اور اچھے لوگ لے کر ائیں نیا بندہ جب اتا ہے تو اس کو سسٹم کو سمجھنے اور نظام کو چلانے میں ٹائم لگتا ہے اور اس کو اتنی جلدی یہ چالاکیاں نہیں کرنی ہوتی
پروگرام پنسد کرنے کا بہت بہت شکریہ اللہ پاک آپ کو ہمیشہ خوش اور سلامت رکھے آمین ثم آمین