مولانا طاہر اشرفی صاحب اور مفتی عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور ہمارے بڑے ہیں لیکن آپ کو یہ اطلاع دے دی جائے کہ ان کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ہمارے اکابرین کا ایک نظام دیا گیا ہے جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہے اور اس کے صدر حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور جنرل سیکرٹری قاری مولانا حافظ جالندھری صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور سر پرست اعلیٰ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہیں تو لہذا ان کی جو راے اور فیصلہ ہوگا مدارس کے لئے وہ قابل قبول ہوگی
سوسائیٹیز ایکٹ کیوں وزارت تعلیم کیوں نہیں، یوسف خان مدرسہ چونکہ تعلیمی ادارہ ہے تو اس لئے یہ بات بڑی خوشنما لگتی ہے کہ مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر کرایا جائے، اور اسی ایک چیز کو لے کر داڑھی پگڑی میں ملبوس چہرے بھی جمعیت علماء اور وفاق المدارس کے خلاف پراپیگنڈہ کررہے ہیں سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ سوسائٹی ایکٹ کیا ہے اور اس پر جمعیت کا اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا اصرار کیوں ہے، سوسائٹیز ایکٹ 1860 میں بنایا گیا ایک قانون ہے جس میں وقتا فوقتا حالات کی مناسبت و ضرورت کے ترامیم کی جاتی رہی ہیں، یہ قانون بنیادی طور پر نان پرافٹ تنظمیوں کی رجسٹریشن کے لئے بنایا گیا تھا، یعنی وہ تنظیمیں یا وہ ادارے جو کسی مالی منفعت کے طمع کے بغیر صرف خدمت خلق کے جذبہ کے تحت معاشرے میں بہتری کا کردار ادا کررہے ہوں ان کے لئے لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت خود کو رجسٹر کروا کر قانونی حیثیت اختیار کریں، ابھی تک اس قانون میں اکیس مرتبہ ترامیم کی جا چکی ہیں، آخری ترمیم 21 ویں ترمیم تھی جو کہ “ نیشنل ایکشن پلان” کے عروج کے وقت کی گئی تھی۔ اور اسی طرح اُس وقت بھی پورے پاکستان سے جبہ و دستار کو اسلام آباد اکٹھا کیا گیا تھا اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت باور کرایا گیا کہ یہ کام انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی اور “ پیغام پاکستان” جاری کرایا گیا، سوسائٹیز ایکٹ میں 21ویں ترمیم عمل میں لا کر علماء کو جمع کرکے نعرہ لگایا گیا کہ ایک دیرینہ مسئلہ حل کردیا گیا ہے، مدارس قومی دھارے میں آگئے ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں بیوروکریسی کی منافقت کبھی ختم نہیں ہوتی اس لئے اب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا اور اس بار اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے وزارت تعلیم اور وزارت صنعت کا لولی پاپ کچھ لوگوں کو دے دیا گیا کہ جمعیت اور جمعیت کے حامی وفاقوں پر یوں حملہ انداز ہوا جائے، کیا ہم یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ کیا “ نیشنل ایکشن پلان “ کے وقت وزارت تعلیم نہیں تھی ؟ جب پیغام پاکستان جاری کیا گیا تب وزارت تعلیم کہاں تھی ؟ جب سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کو تسلیم کیا گیا تب وزارت تعلیم کہاں تھی ؟ تب یہ بچونگڑے کہاں تھے ؟ بات مگر وہی ہے کہ تب جمعیت سے بغض کے اظہار کے لئے شاید کوئی کندھا میسر نہیں تھا بہرکیف آگے بڑھتے ہیں کہ ہم سوسائٹیز ایکٹ پر کیوں اصرار کررہے ہیں ؟ تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مدارس نان پرافٹ ادارے ہیں، نان پرافٹ تمام ادارے قانونی طور پر سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے پابند ہیں، صرف مدارس نہیں بلکہ پاکستان میں بڑے بڑے عصری تعلیمی ادارے بھی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں وہاں کیوں زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ؟ وہاں کیوں کسی کو وزارت صنعت یاد نہیں آتی بطور نمونہ چند اداروں کے نام لکھ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں 1 “ سندھ مدرسۃ الاسلام “ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، اور آج تک اپنی تعلیمی سرگرمیاں اسی رجسٹریشن کے تحت جاری رکھے ہوئے ہے، 2- دی سٹی اسکول the city school پاکستان بھر میں پھیلا ہوا یہ عصری تعلیمی ادارہ اسی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے ؟ کیا کوئی اسے صنعتی ادارہ کہنے کو تیار ہے ؟ 3 - بیکن ہاؤس کے نام سے کون ناواقف ہے، یہ ادارہ پہلے چھوٹے سے تعلیمی ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہوا پھر اس نے فلاحی کاموں میں بھی حصہ لے کر اپنا نیٹ ورک ملک کے طول عرض میں پھیلا دیا یہ بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، 4 - غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ 5- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نام سے کون ناواقف ہے ؟ اور یہ ادارہ بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوکر تعلیمی سرگرمیاں مہیا کررہا ہے، 6 - الخدمت فاؤنڈیشن اسکولز 7 - پاکستان ایجوکیشن سوسائٹی یہ سب تعلیمی ادارے اگر سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہو کر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں تو پھر وفاق المدارس کے تعلیمی اداروں سے کس کو کس چیز کا خوف ہے ؟ آگے آئیے چند نام ان اداروں کے بھی گنوا لیتے ہیں جو کہ تعلیمی تو نہیں البتہ نان پرافٹ اداروں کے طور پر کام کررہے ہیں اور یہ معروف نام بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہی رجسٹر ہیں، 1 - ایدھی فاؤنڈیشن 2- چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن 3 - اخوت فاؤنڈیشن 4- انجمن حمایت اسلام 5 - پاک کریسنٹ سوسائٹی یہ تمام ادارے بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت آزادانہ کام کررہے ہیں ، ان کے بینک اکاؤنٹس سے کسی کو مسئلہ ہے نہ ان کے کام میں کوئی رکاوٹ ؟ اگر یہ معاشرے کی بہتری کا کام کررہے ہیں تو مدارس بھی تو معاشرے کی اصلاح کا سب سے بنیادی اور ضروری کام کررہے ہیں ان پر مشکلات کے دروازے کیوں کھولے جا رہے ہیں ؟ اور پھر جب سوسائٹیز ایکٹ میں 21ویں ترمیم میں اتنی سخت سخت باتیں ایڈ کردی گئیں کہ جن کے بعد کسی بھی مدرسہ کے لئے بغیر رجسٹریشن کام کرنا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے اور ان تمام شرائط کو علماء نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا تو اب کیوں ایک نیا محاذ کھڑا کردیا گیا ہے ؟ سوسائٹیز ایکٹ میں اکیسویں ترمیم کے بعد اب حال ہی میں پاس ہونے والی چھبیسویں آئینی ترمیم میں بھی مزید ترامیم کی گئیں جن پر جمعیت علماء نے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی مشاورت سے ہر ممکن تعاون کیا، اپنی بات رکھی، کچھ ریاست کی سنی، کچھ ریاست سے منوائیں ، اس سب کے باوجود صدر مملکت کی جانب سے مسودہ واپس کرنا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں، مدارس اگر آج چند داڑھی اور جبے پہنے اسٹیبلشمنٹ کے پٹھوؤں کے ساتھ لگ گئے تو یاد رکھیں آگے وہ وہ باتیں منوائی جائیں گی جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، یہاں منافقت حکومت نے کی ہے، دھوکہ حکومت نے دیا ہے۔ دغا بیوروکریسی نے کی ہے۔ تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے پاکستان کے تمام مدارس کو جمعیت کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا والسلام یوسف خان
, جناب وسیم بادامی صاحب گزارش ھے کہ اٹھارویں ترمیم کے مجرمین میں ایک مجرم مولانا فضل الرحمان صاحب بھی مے جس ترمیم کی وجہ سے کراچی جیسے شہر کھنڈرات منظر پیش کررھاھے
مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم العالیہ بلکل سہی ہے جو طہارت اشرفی اور دیگر پیٹھے ہو ئے ہیں یہ سب فراڈیہ اور حکومت کے سے فنڈ ملتا ہے مولانا مدارس کو خودمختاری کی طرف لی جا رہے ہیں
یہ سرکاری علمائے کرام اس بل کو پیش کرنے سے پہلے کہاں تھے جو اب پھکی کھا کر خواب غفلت سے بیدار ھوئے یہ جو دھمکیاں دے رھا ھے یہ کس حثیت سے بات کر رھا ھے یہ کوئی mpa mna saniter کیوں اتنی اھمیت دی جا رہی ہے
مولانا طاہر اشرفی صاحب اور مفتی عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور ہمارے بڑے ہیں لیکن آپ کو یہ اطلاع دے دی جائے کہ ان کی رائے کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ہمارے اکابرین کا ایک نظام دیا گیا ہے جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان ہے اور اس کے صدر حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور جنرل سیکرٹری قاری مولانا حافظ جالندھری صاحب دامت برکاتہم العالیہ اور سر پرست اعلیٰ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہیں تو لہذا ان کی جو راے اور فیصلہ ہوگا مدارس کے لئے وہ قابل قبول ہوگی
Molana ❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
مدرسہ رجسٹریشن کی ہر ویڈیو کے نیچے کمنٹس دیں۔ 26 نومبر کو دبانے کے لیے مدارس رجسٹریشن کا مسئلہ بنایا گیا ہے
مولانا فضل الرحمٰن ❤
مولانا کے ساتھ
ہم وفاق المدارس کے ساتھ
ہیں مولانا فضل الرحمان صاحب مدارس کے ہی نما ندے ہیں
سوسائیٹیز ایکٹ کیوں وزارت تعلیم کیوں نہیں،
یوسف خان
مدرسہ چونکہ تعلیمی ادارہ ہے تو اس لئے یہ بات بڑی خوشنما لگتی ہے کہ مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر کرایا جائے، اور اسی ایک چیز کو لے کر داڑھی پگڑی میں ملبوس چہرے بھی جمعیت علماء اور وفاق المدارس کے خلاف پراپیگنڈہ کررہے ہیں
سب سے پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ سوسائٹی ایکٹ کیا ہے اور اس پر جمعیت کا اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا اصرار کیوں ہے،
سوسائٹیز ایکٹ 1860 میں بنایا گیا ایک قانون ہے جس میں وقتا فوقتا حالات کی مناسبت و ضرورت کے ترامیم کی جاتی رہی ہیں، یہ قانون بنیادی طور پر نان پرافٹ تنظمیوں کی رجسٹریشن کے لئے بنایا گیا تھا، یعنی وہ تنظیمیں یا وہ ادارے جو کسی مالی منفعت کے طمع کے بغیر صرف خدمت خلق کے جذبہ کے تحت معاشرے میں بہتری کا کردار ادا کررہے ہوں ان کے لئے لازم قرار دیا گیا تھا کہ وہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت خود کو رجسٹر کروا کر قانونی حیثیت اختیار کریں،
ابھی تک اس قانون میں اکیس مرتبہ ترامیم کی جا چکی ہیں،
آخری ترمیم 21 ویں ترمیم تھی جو کہ “ نیشنل ایکشن پلان” کے عروج کے وقت کی گئی تھی۔ اور اسی طرح اُس وقت بھی پورے پاکستان سے جبہ و دستار کو اسلام آباد اکٹھا کیا گیا تھا اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت باور کرایا گیا کہ یہ کام انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی اور “ پیغام پاکستان” جاری کرایا گیا، سوسائٹیز ایکٹ میں 21ویں ترمیم عمل میں لا کر علماء کو جمع کرکے نعرہ لگایا گیا کہ ایک دیرینہ مسئلہ حل کردیا گیا ہے، مدارس قومی دھارے میں آگئے ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں بیوروکریسی کی منافقت کبھی ختم نہیں ہوتی اس لئے اب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا اور اس بار اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے وزارت تعلیم اور وزارت صنعت کا لولی پاپ کچھ لوگوں کو دے دیا گیا کہ جمعیت اور جمعیت کے حامی وفاقوں پر یوں حملہ انداز ہوا جائے،
کیا ہم یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ کیا “ نیشنل ایکشن پلان “ کے وقت وزارت تعلیم نہیں تھی ؟
جب پیغام پاکستان جاری کیا گیا تب وزارت تعلیم کہاں تھی ؟
جب سوسائٹیز ایکٹ کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کو تسلیم کیا گیا تب وزارت تعلیم کہاں تھی ؟
تب یہ بچونگڑے کہاں تھے ؟
بات مگر وہی ہے کہ تب جمعیت سے بغض کے اظہار کے لئے شاید کوئی کندھا میسر نہیں تھا
بہرکیف آگے بڑھتے ہیں کہ ہم سوسائٹیز ایکٹ پر کیوں اصرار کررہے ہیں ؟ تو اس کی دیگر وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مدارس نان پرافٹ ادارے ہیں، نان پرافٹ تمام ادارے قانونی طور پر سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے پابند ہیں،
صرف مدارس نہیں بلکہ پاکستان میں بڑے بڑے عصری تعلیمی ادارے بھی سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں وہاں کیوں زبانیں گنگ ہوجاتی ہیں ؟ وہاں کیوں کسی کو وزارت صنعت یاد نہیں آتی بطور نمونہ چند اداروں کے نام لکھ رہا ہے۔
تعلیمی اداروں میں
1 “ سندھ مدرسۃ الاسلام “ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے، اور آج تک اپنی تعلیمی سرگرمیاں اسی رجسٹریشن کے تحت جاری رکھے ہوئے ہے،
2- دی سٹی اسکول the city school پاکستان بھر میں پھیلا ہوا یہ عصری تعلیمی ادارہ اسی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے ؟ کیا کوئی اسے صنعتی ادارہ کہنے کو تیار ہے ؟
3 - بیکن ہاؤس کے نام سے کون ناواقف ہے، یہ ادارہ پہلے چھوٹے سے تعلیمی ادارے کے طور پر رجسٹرڈ ہوا پھر اس نے فلاحی کاموں میں بھی حصہ لے کر اپنا نیٹ ورک ملک کے طول عرض میں پھیلا دیا یہ بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے،
4 - غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ
5- علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نام سے کون ناواقف ہے ؟ اور یہ ادارہ بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوکر تعلیمی سرگرمیاں مہیا کررہا ہے،
6 - الخدمت فاؤنڈیشن اسکولز
7 - پاکستان ایجوکیشن سوسائٹی
یہ سب تعلیمی ادارے اگر سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہو کر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں تو پھر وفاق المدارس کے تعلیمی اداروں سے کس کو کس چیز کا خوف ہے ؟
آگے آئیے چند نام ان اداروں کے بھی گنوا لیتے ہیں جو کہ تعلیمی تو نہیں البتہ نان پرافٹ اداروں کے طور پر کام کررہے ہیں اور یہ معروف نام بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ہی رجسٹر ہیں،
1 - ایدھی فاؤنڈیشن
2- چھیپا ویلفیئر ایسوسی ایشن
3 - اخوت فاؤنڈیشن
4- انجمن حمایت اسلام
5 - پاک کریسنٹ سوسائٹی
یہ تمام ادارے بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت آزادانہ کام کررہے ہیں ، ان کے بینک اکاؤنٹس سے کسی کو مسئلہ ہے نہ ان کے کام میں کوئی رکاوٹ ؟ اگر یہ معاشرے کی بہتری کا کام کررہے ہیں تو مدارس بھی تو معاشرے کی اصلاح کا سب سے بنیادی اور ضروری کام کررہے ہیں ان پر مشکلات کے دروازے کیوں کھولے جا رہے ہیں ؟
اور پھر جب سوسائٹیز ایکٹ میں 21ویں ترمیم میں اتنی سخت سخت باتیں ایڈ کردی گئیں کہ جن کے بعد کسی بھی مدرسہ کے لئے بغیر رجسٹریشن کام کرنا تقریبا ناممکن ہوگیا ہے اور ان تمام شرائط کو علماء نے متفقہ طور پر تسلیم کرلیا تو اب کیوں ایک نیا محاذ کھڑا کردیا گیا ہے ؟
سوسائٹیز ایکٹ میں اکیسویں ترمیم کے بعد اب حال ہی میں پاس ہونے والی چھبیسویں آئینی ترمیم میں بھی مزید ترامیم کی گئیں جن پر جمعیت علماء نے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی مشاورت سے ہر ممکن تعاون کیا، اپنی بات رکھی، کچھ ریاست کی سنی، کچھ ریاست سے منوائیں ، اس سب کے باوجود صدر مملکت کی جانب سے مسودہ واپس کرنا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہیں،
مدارس اگر آج چند داڑھی اور جبے پہنے اسٹیبلشمنٹ کے پٹھوؤں کے ساتھ لگ گئے تو یاد رکھیں آگے وہ وہ باتیں منوائی جائیں گی جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،
یہاں منافقت حکومت نے کی ہے، دھوکہ حکومت نے دیا ہے۔ دغا بیوروکریسی نے کی ہے۔ تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پورے پاکستان کے تمام مدارس کو جمعیت کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا
والسلام
یوسف خان
Maulana Fazl Ur Rahman ❤
😂
مولانا فضل الرحمان صاحب زندہ باد
حلوہ پارٹی سے اللّٰہ تعالیٰ بچائے
مدارس اسلامیہ کو حکومت سے الگ رہنا چاہیے
مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کا موقف اپنی جگہ بالکل درست اور بجا ہے
Please batoo ashrafi kun hai ?????
حکومت نے دھوکہ دیا اور یہی ان کا کام ہے
Molana goooooooood
, جناب وسیم بادامی صاحب گزارش ھے کہ اٹھارویں ترمیم کے مجرمین میں ایک مجرم مولانا فضل الرحمان صاحب بھی مے جس ترمیم کی وجہ سے کراچی جیسے شہر کھنڈرات منظر پیش کررھاھے
وعدہ خلافی کی گئ حکومت کی طرف سے
Ashrafi qun hai ?????
مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم العالیہ
بلکل سہی ہے
جو طہارت اشرفی اور دیگر پیٹھے ہو ئے ہیں یہ سب
فراڈیہ اور حکومت کے سے فنڈ ملتا ہے
مولانا مدارس کو خودمختاری کی طرف لی جا رہے ہیں
ھھھھھ۔ اشرفی صاحب سے پوچھو۔۔ آپکا مدرسہ کہاں ہے۔۔۔
حکومت ہماری خود مختاری کو چھیننا چاہتی ہے اور ہم کسی بھی حال میں یہ نہیں ہونے دیں گے
یہ سرکاری علمائے کرام اس بل کو پیش کرنے سے پہلے کہاں تھے جو اب پھکی کھا کر خواب غفلت سے بیدار ھوئے یہ جو دھمکیاں دے رھا ھے یہ کس حثیت سے بات کر رھا ھے یہ کوئی mpa mna saniter کیوں اتنی اھمیت دی جا رہی ہے
ھھھھھھ۔ اشرفی صاحب ۔ بڑا مزاحیہ ہے
Apni apni demand pori.kara Raha hai aur awAm bijli Ka bill Bhar rahi hai mehngaiye bardash Kar rahi apnay Kam bantay Bhar ma Jaye jantay
Tahir ashrafi her hakoomti party ko represent krtey hain
Tahir ashrafi is an aaaa😂
حکومت نے دھوکہ کیوں دیا؟
طاہر اشرفی لاحول ولاقوۃ
Goli kyu chali
مولانا دوغلے سے ایسا ہی ہونا چاہیے یہ حکومت ہی دھوکے سے آئی ہے تو کیوں اس نے ترمیم میں ساتھ دیا ۔
Badami bhi is molana asharfi ke sath 10000 bhe nhi la sakta
10000 to Kia 1000 ko bi nhi la sakta
10000 to Kia 1000 ko bi nhi la sakta