آج سمجھ آئی، کہ ایک مسلمان کیلیے دینی حمیت اتنی اہم کیوں ہے، غیرت حضرت انسان کے لئے اتنی اہم کیوں ہے، بہت اچھے انداز میں ایک ایسی بات سمجھ میں آئی جو اپنی زندگی میں اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے، آج پتہ چلا ہے کہ جس کے اندردینی حمیت اور غیرت اعلی درجے کی ہو وہی فرد اور قوم سر بلند ہوتی ہے اور دینی حمیت و غیرت مسلمان میں بردباری اور تحمل پیدا کرتی ہے نہ کہ اشتعال اور شرانگیزی۔ اللہ تعالی احمد جاوید صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کو مزید علم سے نوازے اور صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
احمد جاوید صاحب اس دور میں اللہ تعالیٰ کا تحفہ اور امت کا اثاثہ ہیں ۔ نہایت گجھلک مسائل کی گھتیاں بڑی حکمت کے ساتھ کھولتے ہیں ۔ بہت سارے اشکالات ان کی چند منٹ کی گفتگو سے دور ہو گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ احمد جاوید صاحب کو صحت اور ایمان والی، طویل عمر عطاء فرمائے آمین یارب العالمین ♥️
Man, al-insan, has intrinsic dignity and honor becauseof who and what he is---abd Allah and khalifa Allah. It is the presence of the Sacred in him, that immanent substance that has its source in the Transcendent that makes man a dignified being, Ashraf al Makhluqaat. Dignity and honor is the very dough with which our primordial nature (al Fitrah) has been kneaded. "We have conferred dignity on the children of Adam" (Karrama bani Adama) (Sura al Isra, 17:70).
السلام علیکم۔ تھوڑا موضوع سے ہٹ کر ایک درخواست ہے۔پروفیسر ہودبھائی کی تازہ ترین کتاب میں عللامہ اقبال کو قریبا ایک مذہبی شدت پسند کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انکے خطبات کو عامیانہ بلکہ بعض جگہ پر بے ربط اور موٹی موٹی اصطلاحات استعمال کر کے اپنے آپ کو بڑا عالم ثابت کرنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ اقبالیات کے ماہر ہونے کے ناطے آپ اس تجزیہ پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے۔ جزاک اللہ خیر Book: Pakistan: Origins, Identity and Future published by Routledge
"Credo ut intelligam" OR "I believe so that I may understand." (Augustine of Hippo and Anselm of Canterbury). To be human is to realize this obligation. Period.
Very insightful, please continue lectures on the subject. Unfortunately, the way our religious beliefs are inculcated traditionally tends to deny one of the two seemingly opposing aspects under discussion because we don't have an understanding of dialectics, unity of opposites, in this case unity of theory and practice. My two cents is that without an understanding of dialectics, Quran understanding becomes extremely difficult. With a dialectic approach, Quranic understanding comes naturally. A suggestion to Javaid sb: the first part of the lecture addressing the negative post on a Facebook was unnecessary. Listeners in this forum would not have viewed the FB page, while FB page followers would not be listening to this lecture.
اپنے مخلص دوستوں کی خدمت میں۔ از احمد جاوید صاحب عمران شاہد صاحب بھنڈر کے رد میں میری حالیہ تحریر سے بعض مخلص دوستوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ انھیں مجھ سے یہ توقع نہیں تھی کہ میں اس حد تک جاؤں گا۔ مجھ سے رابطہ کر کے کسی نے حیرت ظاہر کی، کسی نے طبیعت پوچھی، کسی نے طبیعت صاف کی اور کسی نے افسوس اور مایوسی کا تقریباً روتے ہوئے اظہار کیا۔ ان دوستوں کو جب اس انتہائی بدتمیزی کا پس منظر بتایا بلکہ دکھایا تو سب کی، جی ہاں، بلا استثنا سب کی شکایت، ناراضی اور کوفت نہ صرف یہ کہ رفع ہو گئی بلکہ تین صاحبِ قلم عزیزوں کو میدان میں اترنے سے بزور روکنا پڑا۔ نہ روکتا تو ایسی ہجویات اب تک وائرل ہو چکی ہوتیں جن کا ادبی زبان و بیان سے دور کا بھی تعلق نہ ہوتا۔ الحمدللہ دیرینہ تعلق داروں بلکہ عزیز تر از جاں یاروں کے دل تو صاف ہو گئے البتہ فیس بک پر سرگرم بعض خیر خواہوں نے بھی اس تحریر کا وہی اثر لیا ہے جو قریب کے احباب کی گھبراہٹ کا سبب بنا تھا۔ ان کی خدمت میں بھی اپنے اس رویے کا سبب عرض کرنا ہے اس امید کے ساتھ کہ ان کے دل بھی میری طرف سے صاف ہو جائیں گے۔ رمضان کے آخری عشرے میں کسی صاحب نے 'جنابِ' بھنڈر اور صفوان 'صاحب' کے فیس بک شذرات کا ایک پلندا دکھا کر مشورہ مانگا کہ اس کے جواب میں کیا کرنا چاہیے؟ میں چونکہ فیس بک وغیرہ سے دور ہوں اس لیے یہاں ہونے والی اکثر اچھی بری باتیں دیر سے پہنچتی ہیں۔ بہرحال، ان تحریروں سے جو سامنے آیا وہ میرے لیے سخت ہولناک تھا۔ زندگی میں شاید پہلی مرتبہ شبہ ہوا کہ میری خوش اخلاقی اور رواداری کہیں نفاق اور بے حمیتی تو نہیں ہے! سچی بات ہے بہت سوچنے پر بھی یہ شبہ پوری طرح دل سے نہیں نکلا۔ رہ رہ کر الحبّ للہ و البغض للہ کی کسوٹی پر خود کستا رہا اور شرمندہ ہوتا رہا۔ آخر یہ فیصلہ کر لیا کہ مقدسات کی اہانت کا ترکی بہ ترکی جواب دینا ہے۔ یعنی ایک دوست کے لفظوں میں علاج بالمثل کرنا ہے۔ غضب خدا کا مقدسات کی تحقیر اور استہزا پر بھی کوئی روسیاہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے لوگوں سے اپنے حسنِ اخلاق پر واہ وا کرواتا رہے تو اسے منافق اور بے حمیت نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے!! اب مجھے یقین ہے کہ یہ قلمی محاربین ہیں اور ان کی پرشور مبارز طلبی کو ان سنا کرنا اللہ، کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بے وفائی ہے۔ مبارزت طلب کو ذلت کی زمین چٹائی جاتی ہے، سر پر نہیں بٹھایا جاتا۔ اللہ کے علانیہ دشمنوں سے آپ جناب کرنا نرم سے نرم لفظوں میں بے حمیتی ہے۔ اسلام کو جتنا نقصان دہشت گردوں نے پہنچایا ہے، اس سے کہیں بڑا ضرر دعوت، تحمل، مصلحت، اخلاق وغیرہ کی آڑ میں جمہوری طریقے سے مسندِ امامت سنبھالنے کی دوڑ میں شامل مجددوں اور مصلحوں سے پہنچا ہے۔ انھی میں سے ایک امیدوار کے کنویسنگ ایجنٹ کو ایک دشمنِ خدا کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھا تو خلافِ طبع انھیں بھی لتاڑنا پڑا۔ درویش 'صاحب' بھی ایمیزون کے ٹارزن کی طرح اپنے گرو گھنٹال کی کمک کو پہنچے ہوئے تھے، وہ بچارے بھی، بحمدالله، روند میں آ گئے۔ شاید کچھ دن کرسیِ ارشاد پر فوم کی موٹی گدی رکھے بغیر بیٹھنے اور لختئی ترنم کے ساتھ گالی بکنے سے معذور رہیں۔ موصوف میرے دوست کے دوست ہیں۔ ان کا' جی اختر!' کہنا کانوں کو بھلا لگتا ہے اور بیدل پر میرے دوست کی فکری اور فنی گفتگو سنتے ہوئے سرپرستانہ پوسچر میں ٹانگ پر ٹانگ رکھنا ، عارفانہ انداز سے رو بہ فلک ہو کر آنکھیں میچنا اور فلسفیانہ شان سے سگرٹ کے کش لگانا۔۔۔ یہ سب اچھا لگتا ہے۔ یہیں تک محدود رہتے تو تاریخِ ادب میں نام پاتے، لیکن۔۔ لیکن۔۔۔ خیر چھوڑیئے۔ مبصرین کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ میں نے اپنی تحقیر کا جواب دیا ہے یا بدلہ لیا ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔ بخدا نہیں! جو ہیچ میرز اپنی کم اوقاتی پر آپ شاہد ہے، اس کی تعظیم کیا اور تحقیر کیسی! میں نے بالکل نوجوانی میں ایک شعر کہا تھا جو محض شاعری نہیں تھا۔ جو مجھ کو حقیر جانتا ہے میں اس کے گمان سے بھی کم ہوں ان کی طرف سے مقدسات کی مسلسل اہانت کو حوالہ اس لیے نہیں بنایا کہ سنسنی اور اشتعال نہ پھیلے۔ یہی مناسب لگا جس پر اب دوستوں کو منانے نکلا ہوا ہوں۔ اتنی وضاحت اور کر دوں کہ خدا کو ماننا نہ ماننا ہر انسان کا خداداد حق ہے۔ میرے حلقۂ تعلق میں کئی لوگ ہیں جو ملحد یا لا ادری ہیں۔ مسلسل بحث مباحثے کے ماحول میں بھی بہت اچھی طرح نبھ رہی ہے۔ سو مجھے ان شاء اللہ معلوم ہے کہ فراخ دلی، رواداری اور وسیع المشربی کتنی ضروری ہے۔ آخری بات۔ برادرم بشارت مرزا صاحب کے تبصرے نے ان کی محبت میں اضافہ کر دیا۔ اس وضاحت کے اصل مخاطب وہی ہیں۔ البتہ سجاد خالد صاحب اور وحید مراد صاحب کے کمنٹس نے تکلیف پہنچائی۔ سجاد صاحب کے تبصرے کی بنیاد ہی خلافِ واقعہ ہے۔ وحید مراد صاحب بھولے آدمی ہیں۔ سمجھتے ہیں صوفی دینی حمیت نہیں رکھتا۔ حسن بصری، جنید بغدادی عبدالقادر جیلانی سے لے کر افریقہ کے مرابطین، عبدالقادر الجزائری، امام شامل، شاہ اسماعیل شہید وغیرہ کے اقوال و افعال کا اپنا ذوق ایک طرف رکھتے ہوئے مطالعہ کر لیں۔ نیز فارسی اور اردو شعری روایت میں اب تک لکھی جانے والی ہجویات کا بشرطِ فرصت و ہمت جائزہ لے لیں۔ خود دیکھ لیں گے کہ کم از کم پندرہ بیس فی صد مسلمہ صوفیوں کے قلم سے نکلی ہیں۔ جیسے خاقانی نے کسی بات پر خفا ہو کر اپنے جلیل القدر صاحبِ نسبت استاد ابوالعلا گنجوی کی ہجو لکھ ماری اور بے شرم نے استاد کو بھیج بھی دی۔ ابوالعلا نے اسی کاغذ کی پشت پر چار مصرعے لکھ کر ہجو کو قاصد کے منہ پر مار دیا۔ خاقانیا اگرچہ سخن نیک دانیا یک پند گویمت بشنو رایگانیا ہجوِ کسے مکن کہ ز تو بہ بود بسن شاید کہ او پدر بودت تو ندانیا تو جناب، یہ ناچیز حاجی تو تھا ہی، آج ہاجی بھی گیا۔ دونوں کے مقبول ہونے کی قوی امید ہے۔ اور ہاں، بھنڈر 'صاحب' کی فرمائش پر ان سے ایک علمی مجادلہ بھی کرنا ہے۔ جلد شاید بہت جلد۔ اس کا عنوان ابھی سے رکھ لیا ہے، اور اختتام بھی پیشگی طے ہو گیا ہے۔ عنوان : "اور اب اپنے اسلوب میں! " اختتام : "گو پیر ہوئی شاعری سودا کی جوانو / تم سے نہ کھنچے گی یہ کماں سخت کڑی ہے خوش رہیں۔ via Shahid Awan
شاعر سرشار حق عنوان ۔۔۔۔۔۔ملعون غلام ہم نے بغداد سے سبق سیکھا او گردن کو اپنی کٹوائیں منہ جو کھولا زبان بھی کاٹے گا دست قاتل سے تم زرا بچنا گر جو بولے تو تم بھی باغی ہو تم کو عبرت نشان بنائیں گے تخت اسکا ہے جسکی طاقت ہے او ہم کو خدا بھی مانو اب گھر جو اجڑے ہیں سب ہی مجرم تھے خود ہی رو رو کے صبر کر لیں گے اتنی جرات کہاں غلاموں میں خود کو آزاد وہ بھی سمجھیں اب وہ جو ارض وطن دیا قاعد تیرے بیٹوں نے آج بیچا ہے چند لقمے یہود دے گا اگر ندیاں ظلم کی بہائیں گے وہ جو اقبال تھا خودی والا وہ بھی نادم ہے اپنی غلطی پر کلمہ پڑھ کہ جو مٹی مانگی تھی کفر کے بھاؤ ہم نے بیچی ہے اپنی مٹی کو ہم بھی ترسیں گے اب عذابوں کا دور آئے گا وہ جو چنگیز تھے ہلاکو تھے ان کی نسلیں ہماری محسن ہیں میر جعفر ہمارے آباء تھے میر صادق ہمارے بچے ہیں ہر نفس نے کفن ہے پہنا اب جانے کس وقت یہ امر آئے چند لمحوں کو اور زندہ ہیں چند سانسیں یہاں پہ باقی ہیں بے بسی میں جو صدیاں کٹتی ہیں رحم آتا ہے تب ہی یزداں کو جو حواری تھے میرے قاعد کے اب کتابوں میں صرف زندہ ہیں بھول جاؤ شہید ملت کو اسکی لغزش سے در گزر کر دو ظلم کا فیصلہ یہیں ہو گا جبر والو زرا یہ سوچو تم
Thank you Mr. Shahid Awan پچھلے دنوں عمران شاہد بھنڈر صاحب، احمد جاوید صاحب کے ایک جملہ کو زیر بحث لاتے ہوئے اس پوسٹ میں سخن آرا ہوئے۔ احباب نے تبصرہ جات میں خوب خوب چاند ماری کی۔ یہ پوسٹ جاوید صاحب سے شئیر ہوئی تو انکا جوابی تبصرہ موصول ہوا۔ دلچسپی رکھنے والے احباب کے لئے یہ تحریر بعینہٖ پیش ہے۔ -------- برادرم شاہد اعوان صاحب، میری کسی گفتگو میں سے ایک نامکمل سا فقرہ نکال کر جو تبصرے کیے گئے ہیں، ان کا جواب اپنے استاد سلیم احمد کے اسلوب میں دینا مناسب ہو گا۔ "علم کا نقطۂ تکمیل جاننا نہیں، ماننا ہے!" فیلسوفِ کبیر عمران شاہد بھنڈر صاحب نے فرمایا کہ "مجھے حیرت ہے کہ مذہبی ذہن کس حد تک بدحواس ہو چکا ہوتا ہے کہ اوٹ پٹانگ باتیں کرنا اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ وہ بغیر کچھ جانے مانتا ہے۔ یعنی کسی بھی علم کے بغیر مانتا ہے۔ لہذا ان "حقیقی" معنوں میں ماننا جہالت کی انتہا ہے نہ کہ علم کی۔ علم والوں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ علم کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا کہ اس کے بعد فقط ماننا باقی رہ جائے۔ غالب رجحان، بہرحال، یہی ہے کہ جس نے مان لیا یہ سمجھ کر کہ علم کی تکمیل ہو گئی وہ فکری سطح پر فارغ ہو گیا"۔ عالمِ بالا کی اس سخن فہمی پر آسمانِ علم کے دو درخشندہ ستاروں نے مہرِ تصدیق بھی لگا دی: ڈاکٹر عرفان شہزاد:" اس جملے سے جو متبادر ہے وہ علم کی نفی ہے۔ احمد جاوید کے ہاں علم کی ابتدا بھی بغیر دلیل ماننے سے ہوتی ہے"۔ صلاح الدین درویش:" یہاں علم کی ۔۔۔ تکمیل۔۔۔ سے مراد مدرسہ خیرالمدارس ملتان سے درس نظامی کی تکمیل ہے۔۔۔۔ " ڈاکٹر عرفان اور درویش صاحب مختلف الخیال ہیں لیکن کچھ باتیں مشترک ہیں اور کچھ مختلف . دونوں بلا کے عیب جو ہیں، قبل از وقت خود اعتمادی کے پتلے ہیں، برابر کے غبی ہیں البتہ ایک کی غبابت رلانے والی ہے جبکہ دوسرے کی ہنسانے والی! ایک صاحب ملتان کے چوہانِ بلا نون کی طرح comically religious ہیں اور دوسرے جنھیں پیار سے سلّو مُو کیش پکارنا چاہیے، ہمارے دارالحکومت کے کچھ دانشوروں کی طرح clownishly liberal. دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک کے بال چھدرے اور چھوٹے ہیں، دوسرے کے گھنے اور لمبے+یہ قینچی سے ترشواتے ہیں ، وہ سر پر درانتی چلواتے ہیں+ایک کے دماغ میں ببل گم بھرا ہے جبکہ دوسرے کی کھوپڑی پر بھوسا اگا ہے+ +ایک مضحکہ خیز حد تک سنجیدہ ہیں، دوسرے گھناؤنی سطح کے چھچھورے+ایک کے دانت کم سفید ہیں، دوسرے کے زیادہ وغیرہ وغیرہ. دونوں کو فیور باخ کے گدی نشین کا مصرع اٹھاتے دیکھ کر اکبر الہ آبادی بہت یاد آئے. بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں ڈاکٹر قطعی الدلالہ کے قولِ جلیل سے جو 'مبرہن' ہے ( یہ 'متبادر' کا جواب ہے) وہ، چشمِ بد دور، (خود موصوف کے) علم کی حقیقت ہے. "علم کا نقطۂ تکمیل جاننا نہیں، ماننا ہے"! اس جملے سے علم کی نفی وہی ذہن برآمد کر سکتا ہے جو علم تو علم، نادانی کے لائق بھی نہ رہ گیا ہو. اس کا جواب بھنڈر صاحب کی طرف منہ کر کے دوں گا. وہ کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیں گے. رہے سلّو مو کیش، تو اس اعجوبۂ روزگار شعّارِ شپش پرور کے لیے یہ دو شعر کافی ہیں جو میرے ایک قصیدے "در ہجوِ غالیانِ تبرّا فروش" کا حصہ ہیں : نکالتا ہے جو منہ سے یہ خوکِ مزبلہ خوار اسے سمجھتے ہیں احمق خطاب کی آواز وہ کون لوگ ہیں جو سر جھکا کے سنتے ہیں یہ گوزِ کرگس و ریحِ غراب کی آواز صلاح الدین درویش کے لیے یہ سودائی زبان اور سوزنی اسلوب جان بوجھ کر اختیار کیا ہے. دو چار مہینے لغاتوں میں بلکہ لغاتوں پر سر مارتے پھریں گے تو اس بجّو سے جان چھوٹ جائے گی جو ان بھولے بادشاہوں کے فرقِ سقائی کا تاج بنا بیٹھا ہے. یہ اندازہ غلط نکلا تو ان کی سطحِ فہم پر، یعنی پاتال میں اتر کر بھی کچھ مدح خوانی کی جا سکتی ہے. اور ہاں، دریائی گھوڑوں پر ترس کھانے والے ایک شرمیلے مینڈک نے بھی زکام کی شدت کے باوجود اپنی خیر خواہی کا سڑ سڑ کرتے ہوئے کیا خوب اظہار کیا ہے: "کاش یہ لوگ عقل کی فعلیت ہی بہتر طور پر جان سکیں". ان برخورداروں نے عقل کی فعلیت کا بس نام ہی سنا ہے. انھیں پتا ہی نہیں کہ عقل کی فعلیت دکھا دی تو یہ اس exhibitionist کے خلاف ہراسمنٹ کی ایف آئی آر کٹواتے پھریں گے. خیر، اب آتے ہیں 'فیلسوفِ کبیر' عمران شاہد بھنڈر کی طرف جو اُس فلسفے کے ماہر ہیں جس کے بارے میں غالباً انوری نے کہا تھا: "فلسفہ کہ اکثرش باشد سفہ"! ان کے تبصرے پر میرا نکتہ وار تبصرہ یہ ہے کہ : 1. بھنڈر صاحب کو زبان آتی ہے نہ تمیز. جس کی زبان بازاری ہو، اس کا ذہن علمی نہیں ہو سکتا. اور جسے بات کہنے کا ڈھنگ نہیں آتا، اس کا فکری سانچا بھی ٹیڑھا میڑھا ہوتا ہے. 2. بھنڈر صاحب نے فلسفہ پڑھا زیادہ ہے، سمجھا کم ہے. اسی لیے ان کا تنقیدی بلکہ تحقیری نوٹ غلط گمانی ، غلط بیانی اور غلط زبانی کا ایک تیزابی مرکب ہے اور کچھ نہیں. (یہاں انھیں ایک مشورہ ہے کہ ازراہِ کرم مجھے فکری سطح پر فارغ نہ کروائیں. اس ناچیز کو سرعتِ انزال کی شکایت ہے نہ ہی عزل کی ضرورت) 3. میرے جس فقرے کو انھوں نے پنچنگ بیگ بنایا ہے، اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو ان کے فلسفہ بھرے دماغ میں آیا ہے. نظریاتِ علم سے ذرا بھی مس ہو تو آدمی اس جملے سے وہ مفہوم نکال ہی نہیں سکتا جس پر میرے عزیز گرج برس رہے ہیں. 4. بھنڈر صاحب علمی مباحث کو بھی دنگل بنا دیتے ہیں. بھلے لوگ آج بھی یونس پہلوان کے اکھاڑے ہی میں ہیں. 5. بھنڈر صاحب جس چیز کو اناڑی پن سے شے فی الذات کہتے ہیں وہ جان لی گئی ہے یا مان لی گئی ہے؟ یہ فرمائیں گے کہ مان تو لی گئی ہے مگر یہ علم کا نتیجہ ہے. بالکل ٹھیک. اب فیلسوفِ بلا سوف یہ بتا دیں کہ علم کے نتیجے اور تکمیل میں کیا فرق ہے؟ 6. علم کا کلی معروض وجود یا موجود ہے. علم کا مستقل نتیجہ یہ ہے کہ وجود، علم سے اور موجود، معلوم سے زیادہ ہے! اس دعوے میں امکانِ خطا، وہم ہے. اسے بس ماننا ہے اور جاننے کے تغیرات اس اطلاق کے دائرے میں رکھنا ہے. 7. یہ جان لینا کہ وجود مطلق ہے اور علم اضافی، نفسِ وجود کے مطلق اثبات کو ماننے کی کیٹیگری میں رکھتا ہے، بلحاظِ مظاہر بھی اور ماورائے مظاہر بھی. مگر لگتا ہے کہ بھنڈر صاحب اور ان کے مصاحبین جاننے کو جانتے ہیں نہ ہی ماننے کو مانتے ہیں. تو بھائی، اب اس پنچنگ بیگ کو اتار دیں، بار بار پہنچا نہ اتروائیں.
آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ بھنڈر صاحب کی مطبوعہ تحریریں دیکھنے کے بعد ان کے بارے میں میرا جو تاثر بنا تھا وہ آج بھی جوں کا توں ہے. یعنی یہ محنتی طالبِ علم ہیں. بہت پڑھاکو ہیں لیکن کند ذہنی کا عارضہ پڑھے ہوئے کو حافظے تک محدود رکھتا ہے، فہم تک نہیں پہنچنے دیتا. اچھے آدمی ہیں. جس کے دوست بن جائیں وہ خوش نصیب ہے، اور جس کے دشمن بن جائیں، وہ... وہ بھی خوش نصیب ہے. میر کا ایک شعر اس اعتماد کے ساتھ ان کی نذر کرتا ہوں کہ نہ سمجھیں گے نہ برا مانیں گے : یہ سر جبھی سے گوے ہے میدانِ عشق کا پھرتا تھا جن دنوں میں تو گیندیں اچھالتا
"Credo ut intelligam" OR "I believe so that I may understand." (Augustine of Hippo and Anselm of Canterbury). To be human is to realize this obligation. Period.
اسلام علیکم، یہ شعر جو چینل پہ اوپر لکھا نظر آتا ہے، اگر نستعلیق خط میں یہاں درج کر دیں تو مہربانی ہوگی اور یہ کہ یہ شعر کن کا ہے استاد محترم کے لئے صدق دل سے دعائیں اللہ پاک آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے آمین
چند سوال ۱۔ حمیت کی ایک قسم قانون توہین مزہب/رسالت ہے جس کے ہوتے ہوۓ اگر کوئی انفرادی طور پر بھی غیر مسلموں کے ساتھ مکالمے میں گنجائش بنا بھی لیتا ہے تو وہ اس قانون اور اس کے معاشرتی نفاذ کی بدولت محدود ہو جاتی ہے۔ ۲- پیغمبر اسلام اپنی سیرت اور شخصیت میں خود اسلام کی ایک اہم دلیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملحد ہمارے نبی ص کی شخصیت پر تنقید کو ایک جائز تنقید سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمارے غصے میں آ جانے کو وہ اپنی جیت تصور کرتے ہیں۔ اس صورت میں کیا کیا جائے جبکہ مکمل علمی نقات پر محدود ہو جانے سے محمد ص کی شخصیت ہی ممکنہ موضوعات سے خارج ہو جاۓ۔ ۳- جائز دلیل اور تحقیر میں تفریق کی کیا صورت ہے؟ آپ کی بات سے ایسے لگتا ہے کہ اس کا تایعن ایک سبجیکٹو بات ہے یعنی تحقیر وہ جس سے مزہبی ذہن کو غصہ چڑھ جاۓ اور جائز دلیل وہ جو میری برداشت کی سطح پار نہ کرے۔ پھر جنونیوں کو کس طرح قائل کیا جائے کہ وہ غلط ہیں جبکہ ان کی سطح برداشت ہم سے مختلف ہو؟
یہ عمران شاہد بھنڈر اور عرفان شہزاد کی بات ہو رہی ہے۔ بھنڈر صاھب نے احمد جاوید صاحب کے اس جملہ "علم کی تکمیل کا جو انتہائی نقطہ ہے وہ نقطہ ماننے کا ہے جاننے کا نہیں۔" پر اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا "جھے حیرت ہے کہ مذہبی ذہن کس حد تک بدحواس ہو چکا ہوتا ہے کہ اوٹ پٹانگ باتیں کرنا اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ وہ بغیر کچھ جانے مانتا ہے۔ یعنی کسی بھی علم کے بغیر مانتا ہے۔ لہذا ان "حقیقی" معنوں میں ماننا جہالت کی انتہا ہے نہ کہ علم کی۔ علم والوں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ علم کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا کہ اس کے بعد فقط ماننا باقی رہ جائے۔ غالب رجحان، بہرحال، یہی ہے کہ جس نے مان لیا یہ سمجھ کر کہ علم کی تکمیل ہو گئی وہ فکری سطح پر فارغ ہو گیا۔" عرفان صاحب جن کا تعلق المورد (غامدی) سے ہے انہوں نے کمنٹ میں لکھا "اس جملے سے جو متبادر ہے وہ علم کی نفی ہے۔ احمد جاوید کے ہاں علم کی ابتدا بھی بغیر دلیل ماننے سے ہوتی ہے۔"
مودبانہ عرض ہے کہ اس عالمانہ گفتگو کا ٹارگٹ کون ہے؟ یا یہ کہوں کہ اس کا استفادہ کون اٹھاۓ گا؟ کیونکہ عام پاکستانی کی سمجھ سے تو یہ گفتگو بالا تر ہے۔ اور وہ اسلام کے نام پر بھیڑیا بنا ہوا ہے اور اس کے لۓ کوئ بھی انسان سوز حرکت جائز ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ “حق” پر ہے۔ اس کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ یا یہ آپس کی کی چپقلش ایک سے دوسرے پر بہتر ثابت کرنا ذیادہ اہم ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں پانی سر سے اوپر نہ نکل جاۓ جس میں ہم سب غرق ہو جائیں۔
ملحد کارٹون کو نصیحت: خدا کے وجود پر سوال اٹھانے سے پہلے اپنے وجود کی تصدیق ضرور کر لیں۔ آپ کو پہلے وجود کی ضرورت ہے اور تبھی آپ اس کے وجود پر سوال اٹھا سکتے ہیں جو آپ کے اپنے وجود کا سبب ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ خدا ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ ہیں یا نہیں۔ بصورت دیگر یہ ایک کارٹون کی طرح ہوگا جو کارٹون اینیمیٹر کے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے جس کی تخلیق کارٹون خود ہے۔
احمد جاوید صاحب بہت بڑے عالم ہیں ۔اللہ انھیں صحت و عافیت عطا فرماءے اور تادیر ان سے استفادہ ہمیں نصیب فرماءے۔آمین
اللّٰہ سبحان و تعالٰی حضرت کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین ثمہ آمین
آج سمجھ آئی، کہ ایک مسلمان کیلیے دینی حمیت اتنی اہم کیوں ہے، غیرت حضرت انسان کے لئے اتنی اہم کیوں ہے، بہت اچھے انداز میں ایک ایسی بات سمجھ میں آئی جو اپنی زندگی میں اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے، آج پتہ چلا ہے کہ جس کے اندردینی حمیت اور غیرت اعلی درجے کی ہو وہی فرد اور قوم سر بلند ہوتی ہے اور دینی حمیت و غیرت مسلمان میں بردباری اور تحمل پیدا کرتی ہے نہ کہ اشتعال اور شرانگیزی۔ اللہ تعالی احمد جاوید صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کو مزید علم سے نوازے اور صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
احمد جاوید صاحب اس دور میں اللہ تعالیٰ کا تحفہ اور امت کا اثاثہ ہیں ۔ نہایت گجھلک مسائل کی گھتیاں بڑی حکمت کے ساتھ کھولتے ہیں ۔ بہت سارے اشکالات ان کی چند منٹ کی گفتگو سے دور ہو گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ احمد جاوید صاحب کو صحت اور ایمان والی، طویل عمر عطاء فرمائے آمین یارب العالمین ♥️
Allah apka saaya hum par hamesha rakhe
ما شاء اللہ
*اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ خاتَمِ النَّبِیِّینَ وَتَمَامِ عِدَّۃِ الْمُرْسَلِینَ وَعَلٰی اٰلِہِ الطَّیِّبِینَ الطَّاھِرِینَ، وَٲَصْحَابِہِ الْمُنْتَجَبِینَ*
Man, al-insan, has intrinsic dignity and honor becauseof who and what he is---abd Allah and khalifa Allah. It is the presence of the Sacred in him, that immanent substance that has its source in the Transcendent that makes man a dignified being, Ashraf al Makhluqaat. Dignity and honor is the very dough with which our primordial nature (al Fitrah) has been kneaded. "We have conferred dignity on the children of Adam" (Karrama bani Adama) (Sura al Isra, 17:70).
Beeeeéeeaaaasssssttttttt ❤❤❤for intellectuals,,,
السلام علیکم۔ تھوڑا موضوع سے ہٹ کر ایک درخواست ہے۔پروفیسر ہودبھائی کی تازہ ترین کتاب میں عللامہ اقبال کو قریبا ایک مذہبی شدت پسند کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ انکے خطبات کو عامیانہ بلکہ بعض جگہ پر بے ربط اور موٹی موٹی اصطلاحات استعمال کر کے اپنے آپ کو بڑا عالم ثابت کرنے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ اقبالیات کے ماہر ہونے کے ناطے آپ اس تجزیہ پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے۔ جزاک اللہ خیر
Book: Pakistan: Origins, Identity and Future published by Routledge
کیا بات ہے کیا نقطے اٹھانے ہیں اور ہماری آنکھیں سینوں کو کھول کر رکھا دیا ہے اللہ تعالٰی آپ کو ہر وقت آسانیاں عطا فرمائے آمین
ماشاءاللہ بہت گہری گفتگو لیکن ساتھ ساتھ پر اثر انداز بھی۔۔۔۔۔
یار مرا خار مرا عشق جگر خوار مرا
یار توئی خار توئی خواجہ نگھدار مرا
Sir kindly is lecture k link send krda
Haqq: "Beauty is the splendor of Truth." (Plato). What is True (Haqq) is by necessity beautiful but such cannot be said for beauty.
♥️♥️♥️
At the Beginning about whom discussion was made. I could not got. Plz any respected member tell. So I may safe.
please correct me if im wrong 18:00 is it related to jinab javed ghamidi sb
اگر آپ ان مذہبی شر پسند بوزنوں کے نام بھی بتا دیں تو ہمیں انکے شر سے بچنے میں آسانی رہے گی
"Credo ut intelligam" OR "I believe so that I may understand." (Augustine of Hippo and Anselm of Canterbury). To be human is to realize this obligation. Period.
Very insightful, please continue lectures on the subject. Unfortunately, the way our religious beliefs are inculcated traditionally tends to deny one of the two seemingly opposing aspects under discussion because we don't have an understanding of dialectics, unity of opposites, in this case unity of theory and practice. My two cents is that without an understanding of dialectics, Quran understanding becomes extremely difficult. With a dialectic approach, Quranic understanding comes naturally. A suggestion to Javaid sb: the first part of the lecture addressing the negative post on a Facebook was unnecessary. Listeners in this forum would not have viewed the FB page, while FB page followers would not be listening to this lecture.
which fb post is this exactly
@@salman3409 This is on Javaid sb RUclips lecture Passion and Wisdom Part 1/3, uploaded 6 days ago.
الحاد اخراج کی طرح ہے: جب جسم میں کافی مقدار میں جمع ہو جائے تو اسے باہر آنا پڑتا ہے۔
(عبدالحکیم مراد)
❤
اپنے مخلص دوستوں کی خدمت میں۔
از احمد جاوید صاحب
عمران شاہد صاحب بھنڈر کے رد میں میری حالیہ تحریر سے بعض مخلص دوستوں کو تکلیف پہنچی ہے۔ انھیں مجھ سے یہ توقع نہیں تھی کہ میں اس حد تک جاؤں گا۔ مجھ سے رابطہ کر کے کسی نے حیرت ظاہر کی، کسی نے طبیعت پوچھی، کسی نے طبیعت صاف کی اور کسی نے افسوس اور مایوسی کا تقریباً روتے ہوئے اظہار کیا۔ ان دوستوں کو جب اس انتہائی بدتمیزی کا پس منظر بتایا بلکہ دکھایا تو سب کی، جی ہاں، بلا استثنا سب کی شکایت، ناراضی اور کوفت نہ صرف یہ کہ رفع ہو گئی بلکہ تین صاحبِ قلم عزیزوں کو میدان میں اترنے سے بزور روکنا پڑا۔ نہ روکتا تو ایسی ہجویات اب تک وائرل ہو چکی ہوتیں جن کا ادبی زبان و بیان سے دور کا بھی تعلق نہ ہوتا۔
الحمدللہ دیرینہ تعلق داروں بلکہ عزیز تر از جاں یاروں کے دل تو صاف ہو گئے البتہ فیس بک پر سرگرم بعض خیر خواہوں نے بھی اس تحریر کا وہی اثر لیا ہے جو قریب کے احباب کی گھبراہٹ کا سبب بنا تھا۔ ان کی خدمت میں بھی اپنے اس رویے کا سبب عرض کرنا ہے اس امید کے ساتھ کہ ان کے دل بھی میری طرف سے صاف ہو جائیں گے۔
رمضان کے آخری عشرے میں کسی صاحب نے 'جنابِ' بھنڈر اور صفوان 'صاحب' کے فیس بک شذرات کا ایک پلندا دکھا کر مشورہ مانگا کہ اس کے جواب میں کیا کرنا چاہیے؟ میں چونکہ فیس بک وغیرہ سے دور ہوں اس لیے یہاں ہونے والی اکثر اچھی بری باتیں دیر سے پہنچتی ہیں۔ بہرحال، ان تحریروں سے جو سامنے آیا وہ میرے لیے سخت ہولناک تھا۔ زندگی میں شاید پہلی مرتبہ شبہ ہوا کہ میری خوش اخلاقی اور رواداری کہیں نفاق اور بے حمیتی تو نہیں ہے! سچی بات ہے بہت سوچنے پر بھی یہ شبہ پوری طرح دل سے نہیں نکلا۔ رہ رہ کر الحبّ للہ و البغض للہ کی کسوٹی پر خود کستا رہا اور شرمندہ ہوتا رہا۔ آخر یہ فیصلہ کر لیا کہ مقدسات کی اہانت کا ترکی بہ ترکی جواب دینا ہے۔ یعنی ایک دوست کے لفظوں میں علاج بالمثل کرنا ہے۔ غضب خدا کا مقدسات کی تحقیر اور استہزا پر بھی کوئی روسیاہ ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے لوگوں سے اپنے حسنِ اخلاق پر واہ وا کرواتا رہے تو اسے منافق اور بے حمیت نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے!!
اب مجھے یقین ہے کہ یہ قلمی محاربین ہیں اور ان کی پرشور مبارز طلبی کو ان سنا کرنا اللہ، کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بے وفائی ہے۔ مبارزت طلب کو ذلت کی زمین چٹائی جاتی ہے، سر پر نہیں بٹھایا جاتا۔ اللہ کے علانیہ دشمنوں سے آپ جناب کرنا نرم سے نرم لفظوں میں بے حمیتی ہے۔ اسلام کو جتنا نقصان دہشت گردوں نے پہنچایا ہے، اس سے کہیں بڑا ضرر دعوت، تحمل، مصلحت، اخلاق وغیرہ کی آڑ میں جمہوری طریقے سے مسندِ امامت سنبھالنے کی دوڑ میں شامل مجددوں اور مصلحوں سے پہنچا ہے۔ انھی میں سے ایک امیدوار کے کنویسنگ ایجنٹ کو ایک دشمنِ خدا کی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھا تو خلافِ طبع انھیں بھی لتاڑنا پڑا۔ درویش 'صاحب' بھی ایمیزون کے ٹارزن کی طرح اپنے گرو گھنٹال کی کمک کو پہنچے ہوئے تھے، وہ بچارے بھی، بحمدالله، روند میں آ گئے۔ شاید کچھ دن کرسیِ ارشاد پر فوم کی موٹی گدی رکھے بغیر بیٹھنے اور لختئی ترنم کے ساتھ گالی بکنے سے معذور رہیں۔ موصوف میرے دوست کے دوست ہیں۔ ان کا' جی اختر!' کہنا کانوں کو بھلا لگتا ہے اور بیدل پر میرے دوست کی فکری اور فنی گفتگو سنتے ہوئے سرپرستانہ پوسچر میں ٹانگ پر ٹانگ رکھنا ، عارفانہ انداز سے رو بہ فلک ہو کر آنکھیں میچنا اور فلسفیانہ شان سے سگرٹ کے کش لگانا۔۔۔ یہ سب اچھا لگتا ہے۔ یہیں تک محدود رہتے تو تاریخِ ادب میں نام پاتے، لیکن۔۔ لیکن۔۔۔ خیر چھوڑیئے۔
مبصرین کی اکثریت یہ سمجھ رہی ہے کہ میں نے اپنی تحقیر کا جواب دیا ہے یا بدلہ لیا ہے۔ نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔ بخدا نہیں! جو ہیچ میرز اپنی کم اوقاتی پر آپ شاہد ہے، اس کی تعظیم کیا اور تحقیر کیسی! میں نے بالکل نوجوانی میں ایک شعر کہا تھا جو محض شاعری نہیں تھا۔
جو مجھ کو حقیر جانتا ہے
میں اس کے گمان سے بھی کم ہوں
ان کی طرف سے مقدسات کی مسلسل اہانت کو حوالہ اس لیے نہیں بنایا کہ سنسنی اور اشتعال نہ پھیلے۔ یہی مناسب لگا جس پر اب دوستوں کو منانے نکلا ہوا ہوں۔
اتنی وضاحت اور کر دوں کہ خدا کو ماننا نہ ماننا ہر انسان کا خداداد حق ہے۔ میرے حلقۂ تعلق میں کئی لوگ ہیں جو ملحد یا لا ادری ہیں۔ مسلسل بحث مباحثے کے ماحول میں بھی بہت اچھی طرح نبھ رہی ہے۔ سو مجھے ان شاء اللہ معلوم ہے کہ فراخ دلی، رواداری اور وسیع المشربی کتنی ضروری ہے۔
آخری بات۔ برادرم بشارت مرزا صاحب کے تبصرے نے ان کی محبت میں اضافہ کر دیا۔ اس وضاحت کے اصل مخاطب وہی ہیں۔ البتہ سجاد خالد صاحب اور وحید مراد صاحب کے کمنٹس نے تکلیف پہنچائی۔ سجاد صاحب کے تبصرے کی بنیاد ہی خلافِ واقعہ ہے۔ وحید مراد صاحب بھولے آدمی ہیں۔ سمجھتے ہیں صوفی دینی حمیت نہیں رکھتا۔ حسن بصری، جنید بغدادی عبدالقادر جیلانی سے لے کر افریقہ کے مرابطین، عبدالقادر الجزائری، امام شامل، شاہ اسماعیل شہید وغیرہ کے اقوال و افعال کا اپنا ذوق ایک طرف رکھتے ہوئے مطالعہ کر لیں۔ نیز فارسی اور اردو شعری روایت میں اب تک لکھی جانے والی ہجویات کا بشرطِ فرصت و ہمت جائزہ لے لیں۔ خود دیکھ لیں گے کہ کم از کم پندرہ بیس فی صد مسلمہ صوفیوں کے قلم سے نکلی ہیں۔ جیسے خاقانی نے کسی بات پر خفا ہو کر اپنے جلیل القدر صاحبِ نسبت استاد ابوالعلا گنجوی کی ہجو لکھ ماری اور بے شرم نے استاد کو بھیج بھی دی۔ ابوالعلا نے اسی کاغذ کی پشت پر چار مصرعے لکھ کر ہجو کو قاصد کے منہ پر مار دیا۔
خاقانیا اگرچہ سخن نیک دانیا
یک پند گویمت بشنو رایگانیا
ہجوِ کسے مکن کہ ز تو بہ بود بسن
شاید کہ او پدر بودت تو ندانیا
تو جناب، یہ ناچیز حاجی تو تھا ہی، آج ہاجی بھی گیا۔ دونوں کے مقبول ہونے کی قوی امید ہے۔
اور ہاں، بھنڈر 'صاحب' کی فرمائش پر ان سے ایک علمی مجادلہ بھی کرنا ہے۔ جلد شاید بہت جلد۔ اس کا عنوان ابھی سے رکھ لیا ہے، اور اختتام بھی پیشگی طے ہو گیا ہے۔
عنوان : "اور اب اپنے اسلوب میں! "
اختتام : "گو پیر ہوئی شاعری سودا کی جوانو / تم سے نہ کھنچے گی یہ کماں سخت کڑی ہے
خوش رہیں۔
via Shahid Awan
شاعر سرشار حق
عنوان ۔۔۔۔۔۔ملعون غلام
ہم نے بغداد سے سبق سیکھا
او گردن کو اپنی کٹوائیں
منہ جو کھولا زبان بھی کاٹے گا
دست قاتل سے تم زرا بچنا
گر جو بولے تو تم بھی باغی ہو
تم کو عبرت نشان بنائیں گے
تخت اسکا ہے جسکی طاقت ہے
او ہم کو خدا بھی مانو اب
گھر جو اجڑے ہیں سب ہی مجرم تھے
خود ہی رو رو کے صبر کر لیں گے
اتنی جرات کہاں غلاموں میں
خود کو آزاد وہ بھی سمجھیں اب
وہ جو ارض وطن دیا قاعد
تیرے بیٹوں نے آج بیچا ہے
چند لقمے یہود دے گا اگر
ندیاں ظلم کی بہائیں گے
وہ جو اقبال تھا خودی والا
وہ بھی نادم ہے اپنی غلطی پر
کلمہ پڑھ کہ جو مٹی مانگی تھی
کفر کے بھاؤ ہم نے بیچی ہے
اپنی مٹی کو ہم بھی ترسیں گے
اب عذابوں کا دور آئے گا
وہ جو چنگیز تھے ہلاکو تھے
ان کی نسلیں ہماری محسن ہیں
میر جعفر ہمارے آباء تھے
میر صادق ہمارے بچے ہیں
ہر نفس نے کفن ہے پہنا اب
جانے کس وقت یہ امر آئے
چند لمحوں کو اور زندہ ہیں
چند سانسیں یہاں پہ باقی ہیں
بے بسی میں جو صدیاں کٹتی ہیں
رحم آتا ہے تب ہی یزداں کو
جو حواری تھے میرے قاعد کے
اب کتابوں میں صرف زندہ ہیں
بھول جاؤ شہید ملت کو
اسکی لغزش سے در گزر کر دو
ظلم کا فیصلہ یہیں ہو گا
جبر والو زرا یہ سوچو تم
Thank you Mr. Shahid Awan
پچھلے دنوں عمران شاہد بھنڈر صاحب، احمد جاوید صاحب کے ایک جملہ کو زیر بحث لاتے ہوئے اس پوسٹ میں سخن آرا ہوئے۔ احباب نے تبصرہ جات میں خوب خوب چاند ماری کی۔
یہ پوسٹ جاوید صاحب سے شئیر ہوئی تو انکا جوابی تبصرہ موصول ہوا۔ دلچسپی رکھنے والے احباب کے لئے یہ تحریر بعینہٖ پیش ہے۔
--------
برادرم شاہد اعوان صاحب، میری کسی گفتگو میں سے ایک نامکمل سا فقرہ نکال کر جو تبصرے کیے گئے ہیں، ان کا جواب اپنے استاد سلیم احمد کے اسلوب میں دینا مناسب ہو گا۔
"علم کا نقطۂ تکمیل جاننا نہیں، ماننا ہے!"
فیلسوفِ کبیر عمران شاہد بھنڈر صاحب نے فرمایا کہ
"مجھے حیرت ہے کہ مذہبی ذہن کس حد تک بدحواس ہو چکا ہوتا ہے کہ اوٹ پٹانگ باتیں کرنا اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ وہ بغیر کچھ جانے مانتا ہے۔ یعنی کسی بھی علم کے بغیر مانتا ہے۔ لہذا ان "حقیقی" معنوں میں ماننا جہالت کی انتہا ہے نہ کہ علم کی۔ علم والوں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ علم کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا کہ اس کے بعد فقط ماننا باقی رہ جائے۔ غالب رجحان، بہرحال، یہی ہے کہ جس نے مان لیا یہ سمجھ کر کہ علم کی تکمیل ہو گئی وہ فکری سطح پر فارغ ہو گیا"۔
عالمِ بالا کی اس سخن فہمی پر آسمانِ علم کے دو درخشندہ ستاروں نے مہرِ تصدیق بھی لگا دی:
ڈاکٹر عرفان شہزاد:" اس جملے سے جو متبادر ہے وہ علم کی نفی ہے۔ احمد جاوید کے ہاں علم کی ابتدا بھی بغیر دلیل ماننے سے ہوتی ہے"۔
صلاح الدین درویش:" یہاں علم کی ۔۔۔ تکمیل۔۔۔ سے مراد مدرسہ خیرالمدارس ملتان سے درس نظامی کی تکمیل ہے۔۔۔۔ "
ڈاکٹر عرفان اور درویش صاحب مختلف الخیال ہیں لیکن کچھ باتیں مشترک ہیں اور کچھ مختلف . دونوں بلا کے عیب جو ہیں، قبل از وقت خود اعتمادی کے پتلے ہیں، برابر کے غبی ہیں البتہ ایک کی غبابت رلانے والی ہے جبکہ دوسرے کی ہنسانے والی! ایک صاحب ملتان کے چوہانِ بلا نون کی طرح comically religious ہیں اور دوسرے جنھیں پیار سے سلّو مُو کیش پکارنا چاہیے، ہمارے دارالحکومت کے کچھ دانشوروں کی طرح clownishly liberal. دونوں میں فرق یہ ہے کہ ایک کے بال چھدرے اور چھوٹے ہیں، دوسرے کے گھنے اور لمبے+یہ قینچی سے ترشواتے ہیں ، وہ سر پر درانتی چلواتے ہیں+ایک کے دماغ میں ببل گم بھرا ہے جبکہ دوسرے کی کھوپڑی پر بھوسا اگا ہے+ +ایک مضحکہ خیز حد تک سنجیدہ ہیں، دوسرے گھناؤنی سطح کے چھچھورے+ایک کے دانت کم سفید ہیں، دوسرے کے زیادہ وغیرہ وغیرہ.
دونوں کو فیور باخ کے گدی نشین کا مصرع اٹھاتے دیکھ کر اکبر الہ آبادی بہت یاد آئے.
بدھو میاں بھی حضرتِ گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشتِ خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
ڈاکٹر قطعی الدلالہ کے قولِ جلیل سے جو 'مبرہن' ہے ( یہ 'متبادر' کا جواب ہے) وہ، چشمِ بد دور، (خود موصوف کے) علم کی حقیقت ہے. "علم کا نقطۂ تکمیل جاننا نہیں، ماننا ہے"! اس جملے سے علم کی نفی وہی ذہن برآمد کر سکتا ہے جو علم تو علم، نادانی کے لائق بھی نہ رہ گیا ہو. اس کا جواب بھنڈر صاحب کی طرف منہ کر کے دوں گا. وہ کچھ نہ کچھ سمجھ ہی لیں گے. رہے سلّو مو کیش، تو اس اعجوبۂ روزگار شعّارِ شپش پرور کے لیے یہ دو شعر کافی ہیں جو میرے ایک قصیدے "در ہجوِ غالیانِ تبرّا فروش" کا حصہ ہیں :
نکالتا ہے جو منہ سے یہ خوکِ مزبلہ خوار
اسے سمجھتے ہیں احمق خطاب کی آواز
وہ کون لوگ ہیں جو سر جھکا کے سنتے ہیں
یہ گوزِ کرگس و ریحِ غراب کی آواز
صلاح الدین درویش کے لیے یہ سودائی زبان اور سوزنی اسلوب جان بوجھ کر اختیار کیا ہے. دو چار مہینے لغاتوں میں بلکہ لغاتوں پر سر مارتے پھریں گے تو اس بجّو سے جان چھوٹ جائے گی جو ان بھولے بادشاہوں کے فرقِ سقائی کا تاج بنا بیٹھا ہے. یہ اندازہ غلط نکلا تو ان کی سطحِ فہم پر، یعنی پاتال میں اتر کر بھی کچھ مدح خوانی کی جا سکتی ہے.
اور ہاں، دریائی گھوڑوں پر ترس کھانے والے ایک شرمیلے مینڈک نے بھی زکام کی شدت کے باوجود اپنی خیر خواہی کا سڑ سڑ کرتے ہوئے کیا خوب اظہار کیا ہے:
"کاش یہ لوگ عقل کی فعلیت ہی بہتر طور پر جان سکیں".
ان برخورداروں نے عقل کی فعلیت کا بس نام ہی سنا ہے. انھیں پتا ہی نہیں کہ عقل کی فعلیت دکھا دی تو یہ اس exhibitionist کے خلاف ہراسمنٹ کی ایف آئی آر کٹواتے پھریں گے.
خیر، اب آتے ہیں 'فیلسوفِ کبیر' عمران شاہد بھنڈر کی طرف جو اُس فلسفے کے ماہر ہیں جس کے بارے میں غالباً انوری نے کہا تھا: "فلسفہ کہ اکثرش باشد سفہ"! ان کے تبصرے پر میرا نکتہ وار تبصرہ یہ ہے کہ :
1. بھنڈر صاحب کو زبان آتی ہے نہ تمیز. جس کی زبان بازاری ہو، اس کا ذہن علمی نہیں ہو سکتا. اور جسے بات کہنے کا ڈھنگ نہیں آتا، اس کا فکری سانچا بھی ٹیڑھا میڑھا ہوتا ہے.
2. بھنڈر صاحب نے فلسفہ پڑھا زیادہ ہے، سمجھا کم ہے. اسی لیے ان کا تنقیدی بلکہ تحقیری نوٹ غلط گمانی ، غلط بیانی اور غلط زبانی کا ایک تیزابی مرکب ہے اور کچھ نہیں. (یہاں انھیں ایک مشورہ ہے کہ ازراہِ کرم مجھے فکری سطح پر فارغ نہ کروائیں. اس ناچیز کو سرعتِ انزال کی شکایت ہے نہ ہی عزل کی ضرورت)
3. میرے جس فقرے کو انھوں نے پنچنگ بیگ بنایا ہے، اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو ان کے فلسفہ بھرے دماغ میں آیا ہے. نظریاتِ علم سے ذرا بھی مس ہو تو آدمی اس جملے سے وہ مفہوم نکال ہی نہیں سکتا جس پر میرے عزیز گرج برس رہے ہیں.
4. بھنڈر صاحب علمی مباحث کو بھی دنگل بنا دیتے ہیں. بھلے لوگ آج بھی یونس پہلوان کے اکھاڑے ہی میں ہیں.
5. بھنڈر صاحب جس چیز کو اناڑی پن سے شے فی الذات کہتے ہیں وہ جان لی گئی ہے یا مان لی گئی ہے؟ یہ فرمائیں گے کہ مان تو لی گئی ہے مگر یہ علم کا نتیجہ ہے. بالکل ٹھیک. اب فیلسوفِ بلا سوف یہ بتا دیں کہ علم کے نتیجے اور تکمیل میں کیا فرق ہے؟
6. علم کا کلی معروض وجود یا موجود ہے. علم کا مستقل نتیجہ یہ ہے کہ وجود، علم سے اور موجود، معلوم سے زیادہ ہے! اس دعوے میں امکانِ خطا، وہم ہے. اسے بس ماننا ہے اور جاننے کے تغیرات اس اطلاق کے دائرے میں رکھنا ہے.
7. یہ جان لینا کہ وجود مطلق ہے اور علم اضافی، نفسِ وجود کے مطلق اثبات کو ماننے کی کیٹیگری میں رکھتا ہے، بلحاظِ مظاہر بھی اور ماورائے مظاہر بھی. مگر لگتا ہے کہ بھنڈر صاحب اور ان کے مصاحبین جاننے کو جانتے ہیں نہ ہی ماننے کو مانتے ہیں.
تو بھائی، اب اس پنچنگ بیگ کو اتار دیں، بار بار پہنچا نہ اتروائیں.
آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ بھنڈر صاحب کی مطبوعہ تحریریں دیکھنے کے بعد ان کے بارے میں میرا جو تاثر بنا تھا وہ آج بھی جوں کا توں ہے. یعنی یہ محنتی طالبِ علم ہیں. بہت پڑھاکو ہیں لیکن کند ذہنی کا عارضہ پڑھے ہوئے کو حافظے تک محدود رکھتا ہے، فہم تک نہیں پہنچنے دیتا. اچھے آدمی ہیں. جس کے دوست بن جائیں وہ خوش نصیب ہے، اور جس کے دشمن بن جائیں، وہ... وہ بھی خوش نصیب ہے.
میر کا ایک شعر اس اعتماد کے ساتھ ان کی نذر کرتا ہوں کہ نہ سمجھیں گے نہ برا مانیں گے :
یہ سر جبھی سے گوے ہے میدانِ عشق کا
پھرتا تھا جن دنوں میں تو گیندیں اچھالتا
"Credo ut intelligam" OR "I believe so that I may understand." (Augustine of Hippo and Anselm of Canterbury). To be human is to realize this obligation. Period.
اسلام علیکم، یہ شعر جو چینل پہ اوپر لکھا نظر آتا ہے، اگر نستعلیق خط میں یہاں درج کر دیں تو مہربانی ہوگی اور یہ کہ یہ شعر کن کا ہے
استاد محترم کے لئے صدق دل سے دعائیں
اللہ پاک آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے آمین
حمیت جزبات جبکہ حکمت علم ۔علم جزبات پہ بھاری ھے جزبات کو علم کے تابعے رکھیے ھاں شدید محبت کا ذکر قرآن پاک میں آیا ھے stronge likeness
چند سوال
۱۔ حمیت کی ایک قسم قانون توہین مزہب/رسالت ہے جس کے ہوتے ہوۓ اگر کوئی انفرادی طور پر بھی غیر مسلموں کے ساتھ مکالمے میں گنجائش بنا بھی لیتا ہے تو وہ اس قانون اور اس کے معاشرتی نفاذ کی بدولت محدود ہو جاتی ہے۔
۲- پیغمبر اسلام اپنی سیرت اور شخصیت میں خود اسلام کی ایک اہم دلیل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملحد ہمارے نبی ص کی شخصیت پر تنقید کو ایک جائز تنقید سمجھتے ہیں۔ اس صورت میں ہمارے غصے میں آ جانے کو وہ اپنی جیت تصور کرتے ہیں۔ اس صورت میں کیا کیا جائے جبکہ مکمل علمی نقات پر محدود ہو جانے سے محمد ص کی شخصیت ہی ممکنہ موضوعات سے خارج ہو جاۓ۔
۳- جائز دلیل اور تحقیر میں تفریق کی کیا صورت ہے؟ آپ کی بات سے ایسے لگتا ہے کہ اس کا تایعن ایک سبجیکٹو بات ہے یعنی تحقیر وہ جس سے مزہبی ذہن کو غصہ چڑھ جاۓ اور جائز دلیل وہ جو میری برداشت کی سطح پار نہ کرے۔ پھر جنونیوں کو کس طرح قائل کیا جائے کہ وہ غلط ہیں جبکہ ان کی سطح برداشت ہم سے مختلف ہو؟
یہ کس کی بات ہو وہی ہے
یہ عمران شاہد بھنڈر اور عرفان شہزاد کی بات ہو رہی ہے۔ بھنڈر صاھب نے احمد جاوید صاحب کے اس جملہ "علم کی تکمیل کا جو انتہائی نقطہ ہے وہ نقطہ ماننے کا ہے جاننے کا نہیں۔" پر اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا "جھے حیرت ہے کہ مذہبی ذہن کس حد تک بدحواس ہو چکا ہوتا ہے کہ اوٹ پٹانگ باتیں کرنا اس کا مقصد حیات بن جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ وہ بغیر کچھ جانے مانتا ہے۔ یعنی کسی بھی علم کے بغیر مانتا ہے۔ لہذا ان "حقیقی" معنوں میں ماننا جہالت کی انتہا ہے نہ کہ علم کی۔ علم والوں نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ علم کبھی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا کہ اس کے بعد فقط ماننا باقی رہ جائے۔ غالب رجحان، بہرحال، یہی ہے کہ جس نے مان لیا یہ سمجھ کر کہ علم کی تکمیل ہو گئی وہ فکری سطح پر فارغ ہو گیا۔" عرفان صاحب جن کا تعلق المورد (غامدی) سے ہے انہوں نے کمنٹ میں لکھا "اس جملے سے جو متبادر ہے وہ علم کی نفی ہے۔ احمد جاوید کے ہاں علم کی ابتدا بھی بغیر دلیل ماننے سے ہوتی ہے۔"
مودبانہ عرض ہے کہ اس عالمانہ گفتگو کا ٹارگٹ کون ہے؟ یا یہ کہوں کہ اس کا استفادہ کون اٹھاۓ گا؟ کیونکہ عام پاکستانی کی سمجھ سے تو یہ گفتگو بالا تر ہے۔ اور وہ اسلام کے نام پر بھیڑیا بنا ہوا ہے اور اس کے لۓ کوئ بھی انسان سوز حرکت جائز ہے اگر وہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ “حق” پر ہے۔ اس کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ یا یہ آپس کی کی چپقلش ایک سے دوسرے پر بہتر ثابت کرنا ذیادہ اہم ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں پانی سر سے اوپر نہ نکل جاۓ جس میں ہم سب غرق ہو جائیں۔
ملحد کارٹون کو نصیحت: خدا کے وجود پر سوال اٹھانے سے پہلے اپنے وجود کی تصدیق ضرور کر لیں۔ آپ کو پہلے وجود کی ضرورت ہے اور تبھی آپ اس کے وجود پر سوال اٹھا سکتے ہیں جو آپ کے اپنے وجود کا سبب ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ خدا ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ ہیں یا نہیں۔ بصورت دیگر یہ ایک کارٹون کی طرح ہوگا جو کارٹون اینیمیٹر کے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے جس کی تخلیق کارٹون خود ہے۔
kya yaha ghamidi sab ki bat ho rahi hai ? batao bhai
Lag toh yunhi Raha ha lekin Ahmed javaid Sahab ne past mein Javed Ahmed ghamidi shb ki boht tareef aur Adab SE guftugu ki ha
Ghamidi centre me h ase log exist kerty hain. Hamza Ali Abbasi and M Hassan Ilyas
Yehi ghalti ki k unki tareefain kin