چلو زندگی میں ہی راہیں بدل کے دیکھتے ہیں۔ یوں محبت کی ہے، اب کہ بچھڑ کے دیکھتے ہیں۔ وہ راستے جن سے یادیں ہیں وابستہ اپنی ۔ ان سے بھی الگ جہاں چل کے آج تو دیکھتے ہیں یہ ربط عجب تھا وہ کے کبھی درمیاں اپنے بھی۔ اب دل سے ہم کہ دغا کر کے تو دیکھتے ہیں۔ راحت تھی جو کبھی تم سے دل کو اب کہ مگر۔ نیاں اک یہ ستم ترے شہر میں کھا کر دیکھتے ہیں۔ گلہ ہی نہیں میرا دیوار سے اب رہا ہے۔ پتھر ترے شہر کے چوم کے ہم بھی دیکھتے ہیں۔ یوں شہر ترا ترے جسم کی طرح ہی خوشبو کا ہے۔ جدا ہوکر حسن سے ، غم یہ بھی کھا کر دیکھتے ہیں۔ گلہ بھی واجب تو ہے نہ یوں کہ جدائی کا۔ غم کا بھی سمندر اب اُنڈیل کے دیکھتے ہیں۔ شاعر۔عبدالصبور سومرو۔ بحر۔زمزمہ/متدارک مسدس مضاعف۔۔۔
اب جو شراب پی کر نہ تری محفل میں آۓ۔۔ عمر تمام ہی، پھر وہ یوں ہی حسن کو ترسے۔۔ میکدے کی خوشبو نے چندن کردیا بدن ہے۔ ہو نہ؟ مے روبرو جسم سے، وہ پھر بوند کو ترسے۔ پیاسی نظریں میخانے کی دید میں غلطاں۔۔۔ اِس گلی کو نہ گزرے، وہ پیمانے کو ترسے۔۔۔۔ دن تھے وہ بھی عذاب، طلب تھی بوند رخے جاں۔ گھائل پیاسے تھے دو بدن، آہٹ کو ترسے۔۔۔ ہاۓ گزارا نہ جاۓ دن، بن میکدے ساقی۔ جو مے پیے یوں بن ترے، وہ محبوب کو ترسے۔۔ چاک ہوں، ملی رفاہ ہے یوں ترے کوچے میں آکر۔۔ میکدے سے کیا رشتہ، دل کیوں اس کو ترسے۔ چھوڑ گئے ہو جہاں میں کیوں مجھے یار اکیلا۔ سلسلہ تھا جو، کبھی کبھی عمر برسنے کو ترسے۔ شاعر۔عبدالصبور سومرو۔ بحر۔ہندی/متقارب مسدس محذوف۔۔۔۔
آنکھوں سے باتیں کرنے دو۔۔۔ ہونٹوں کو ، ہونٹوں سے کچھ کہنے دو۔۔۔ کاٹ ہی آۓ سفر غم ہم تو۔۔۔ پھول کے ساۓ میں اب رہنے دو۔۔۔ راتوں کے درد کیا جانو تم ۔۔۔۔ شب اک اب سکوں میں رہنے دو۔۔۔۔ کب تھا مرا اس شہر میں تو بھی۔۔۔ ٹوٹا ہے دل ، ابھی کچھ رہنے دو۔۔۔۔۔ چاہ کی تو سزا ملی بہت ہے۔۔۔۔۔ سانسوں سے یہ ملن ہونے دو۔۔۔۔۔ سحر کا امکاں بھی تو نہیں اب ۔۔۔۔۔ دل ، پہلو میں مجھے رونے دو۔۔۔۔۔ سب ہے تمام تری محفل میں ۔۔۔۔۔۔ اپنے سے دور ہی مت ہونے دو۔۔۔۔۔۔۔۔ سب رُتیں اب کی بار خزاں سی۔۔۔۔۔ خاموشی ہے، اب کہنے دو۔۔۔۔۔۔۔ تم تھے کبھی، اب یہ ہی بہت ہے ۔۔۔۔۔۔ مرہم ہے، پل کا رہنے دو۔۔۔۔۔۔ شاعر۔عبدالصبور سومرو۔۔ بحر۔ہندی/متقارب اژم مقبوض محذوف۔۔۔۔۔
Bahut khoob ruburo ka bahut shukriya
One of the best classical singers of this era 👏👏
बहुत सुन्दर 🙏❤️🙏
Excellent 👌
Zabardast
چلو زندگی میں ہی راہیں بدل کے دیکھتے ہیں۔
یوں محبت کی ہے، اب کہ بچھڑ کے دیکھتے ہیں۔
وہ راستے جن سے یادیں ہیں وابستہ اپنی ۔
ان سے بھی الگ جہاں چل کے آج تو دیکھتے ہیں
یہ ربط عجب تھا وہ کے کبھی درمیاں اپنے بھی۔
اب دل سے ہم کہ دغا کر کے تو دیکھتے ہیں۔
راحت تھی جو کبھی تم سے دل کو اب کہ مگر۔
نیاں اک یہ ستم ترے شہر میں کھا کر دیکھتے ہیں۔
گلہ ہی نہیں میرا دیوار سے اب رہا ہے۔
پتھر ترے شہر کے چوم کے ہم بھی دیکھتے ہیں۔
یوں شہر ترا ترے جسم کی طرح ہی خوشبو کا ہے۔
جدا ہوکر حسن سے ، غم یہ بھی کھا کر دیکھتے ہیں۔
گلہ بھی واجب تو ہے نہ یوں کہ جدائی کا۔
غم کا بھی سمندر اب اُنڈیل کے دیکھتے ہیں۔
شاعر۔عبدالصبور سومرو۔
بحر۔زمزمہ/متدارک مسدس مضاعف۔۔۔
اب جو شراب پی کر نہ تری محفل میں آۓ۔۔
عمر تمام ہی، پھر وہ یوں ہی حسن کو ترسے۔۔
میکدے کی خوشبو نے چندن کردیا بدن ہے۔
ہو نہ؟ مے روبرو جسم سے، وہ پھر بوند کو ترسے۔
پیاسی نظریں میخانے کی دید میں غلطاں۔۔۔
اِس گلی کو نہ گزرے، وہ پیمانے کو ترسے۔۔۔۔
دن تھے وہ بھی عذاب، طلب تھی بوند رخے جاں۔
گھائل پیاسے تھے دو بدن، آہٹ کو ترسے۔۔۔
ہاۓ گزارا نہ جاۓ دن، بن میکدے ساقی۔
جو مے پیے یوں بن ترے، وہ محبوب کو ترسے۔۔
چاک ہوں، ملی رفاہ ہے یوں ترے کوچے میں آکر۔۔
میکدے سے کیا رشتہ، دل کیوں اس کو ترسے۔
چھوڑ گئے ہو جہاں میں کیوں مجھے یار اکیلا۔
سلسلہ تھا جو، کبھی کبھی عمر برسنے کو ترسے۔
شاعر۔عبدالصبور سومرو۔
بحر۔ہندی/متقارب مسدس محذوف۔۔۔۔
آنکھوں سے باتیں کرنے دو۔۔۔
ہونٹوں کو ، ہونٹوں سے کچھ کہنے دو۔۔۔
کاٹ ہی آۓ سفر غم ہم تو۔۔۔
پھول کے ساۓ میں اب رہنے دو۔۔۔
راتوں کے درد کیا جانو تم ۔۔۔۔
شب اک اب سکوں میں رہنے دو۔۔۔۔
کب تھا مرا اس شہر میں تو بھی۔۔۔
ٹوٹا ہے دل ، ابھی کچھ رہنے دو۔۔۔۔۔
چاہ کی تو سزا ملی بہت ہے۔۔۔۔۔
سانسوں سے یہ ملن ہونے دو۔۔۔۔۔
سحر کا امکاں بھی تو نہیں اب ۔۔۔۔۔
دل ، پہلو میں مجھے رونے دو۔۔۔۔۔
سب ہے تمام تری محفل میں ۔۔۔۔۔۔
اپنے سے دور ہی مت ہونے دو۔۔۔۔۔۔۔۔
سب رُتیں اب کی بار خزاں سی۔۔۔۔۔
خاموشی ہے، اب کہنے دو۔۔۔۔۔۔۔
تم تھے کبھی، اب یہ ہی بہت ہے ۔۔۔۔۔۔
مرہم ہے، پل کا رہنے دو۔۔۔۔۔۔
شاعر۔عبدالصبور سومرو۔۔
بحر۔ہندی/متقارب اژم مقبوض محذوف۔۔۔۔۔