پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی شہروں میں ایک شہر میرے رَت جگوں کا شہر کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی راہوں میں ایک راہ گھر لوٹنے کی راہ ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار ملنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی فصلوں میں ایک فصل وہ جاں دادگی کی فصل بادل کو یاں زمیں سے رغبت نہیں رہی زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی نصیر ترابی
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی شہروں میں ایک شہر میرے رَت جگوں کا شہر کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ بچھڑے تو دور دور رقابت نہیں رہی شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی راہوں میں ایک راہ وہ گھر لوٹنے کی راہ ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات اور اب یہ ایک بات کہ چاہت نہیں رہی یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار ملنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی فصلوں میں ایک فصل وہ جاں دادگی کی فصل بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی نصیر ترابی
واہ۔ کتنی سچائی اور گہرائی ہے۔ ان قلبی وارداتوں سے اصل اور زیادہ لطف باذوق اور واقف حال اٹھاتے ہیں
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر میرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی
لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ
بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی
شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی
راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی
راہوں میں ایک راہ گھر لوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی
یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی
ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی
خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی
رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی
باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی
یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
ملنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی
فصلوں میں ایک فصل وہ جاں دادگی کی فصل
بادل کو یاں زمیں سے رغبت نہیں رہی
زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی
سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
نصیر ترابی
محبتیں محبتیں محبتیں
بہت بہت شکریہ جناب آپ کا کہ آپ نے کلام کے مکمل اشعار لکھے
اور آگے بھی ایسے ہی لکھتے رہیں
بہت بہت شکریہ
واہ واہ بہت عمدہ
تیسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں (تک) اضافی ہے۔۔۔
دور دور رقابت نہیں رہی
آ ہا ہا کیا کہنے ھیں ،، ڈھیروں محبتیں سائیں ،، شاد رہیے
gazab ki shayeri hain.
روح و دل میں بسا ہوا ہے یہ پرتاثیر خوبصورت کلام ..اور لب و لہجہ۔ ہمیشہ سن کر اک عجب کیفیت برپا ہو جاتی ہے۔ بہت شکریہ
سلامت باشید ہمیشہ 🌹❤️🌹
کیا استادی، کیا تمّوج۔۔۔لکھتے رہئے ترابی صاحب۔۔
Kamal Kalam Kamal dad
Sir excellent poetry
waaaahhhh ✌️
Waaaa waaaa
Nice
Very best
پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی
شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی
شہروں میں ایک شہر میرے رَت جگوں کا شہر
کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی
لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ
بچھڑے تو دور دور رقابت نہیں رہی
شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام
اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی
راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات
آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی
راہوں میں ایک راہ وہ گھر لوٹنے کی راہ
ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی
یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد
وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی
ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام
اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی
خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب
اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی
رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ
ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی
باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات
اور اب یہ ایک بات کہ چاہت نہیں رہی
یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
ملنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی
فصلوں میں ایک فصل وہ جاں دادگی کی فصل
بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی
زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم
اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی
سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر
آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی
نصیر ترابی