Naseer Turabi's Ghazal پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی​

Поделиться
HTML-код
  • Опубликовано: 26 окт 2024

Комментарии • 19

  • @فنکدہنو
    @فنکدہنو 2 года назад

    واہ۔ کتنی سچائی اور گہرائی ہے۔ ان قلبی وارداتوں سے اصل اور زیادہ لطف باذوق اور واقف حال اٹھاتے ہیں

  • @khursheedabdullah2261
    @khursheedabdullah2261  4 года назад +12

    پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی​
    شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی​
    شہروں میں ایک شہر میرے رَت جگوں کا شہر​
    کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی​
    لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ​
    بچھڑے تو دور دور تک رقابت نہیں رہی​
    شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام​
    اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی​
    راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات​
    آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی​
    راہوں میں ایک راہ گھر لوٹنے کی راہ​
    ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی​
    یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد​
    وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی​
    ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام​
    اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی​
    خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب​
    اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی​
    رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ​
    ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی​
    باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات​
    اور اب یہ اتفاق کہ چاہت نہیں رہی​
    یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
    ملنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی
    فصلوں میں ایک فصل وہ جاں دادگی کی فصل​
    بادل کو یاں زمیں سے رغبت نہیں رہی​
    زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم​
    اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی​
    سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر​
    آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی​
    نصیر ترابی

    • @Shujaaology
      @Shujaaology 4 года назад

      محبتیں محبتیں محبتیں

    • @islamiduniyanetwork
      @islamiduniyanetwork 4 года назад

      بہت بہت شکریہ جناب آپ کا کہ آپ نے کلام کے مکمل اشعار لکھے
      اور آگے بھی ایسے ہی لکھتے رہیں

    • @amanabibi7903
      @amanabibi7903 4 года назад

      بہت بہت شکریہ

    • @arifsyed1
      @arifsyed1 4 года назад

      واہ واہ بہت عمدہ

    • @khushzoq6455
      @khushzoq6455 4 года назад

      تیسرے شعر کے دوسرے مصرعے میں (تک) اضافی ہے۔۔۔
      دور دور رقابت نہیں رہی

  • @Shujaaology
    @Shujaaology 4 года назад

    آ ہا ہا کیا کہنے ھیں ،، ڈھیروں محبتیں سائیں ،، شاد رہیے

  • @al-amin6537
    @al-amin6537 4 года назад

    gazab ki shayeri hain.

  • @Ghazal_Qazi
    @Ghazal_Qazi 3 года назад

    روح و دل میں بسا ہوا ہے یہ پرتاثیر خوبصورت کلام ..اور لب و لہجہ۔ ہمیشہ سن کر اک عجب کیفیت برپا ہو جاتی ہے۔ بہت شکریہ
    سلامت باشید ہمیشہ 🌹❤️🌹

  • @hassanfershorijamil8844
    @hassanfershorijamil8844 4 года назад

    کیا استادی، کیا تمّوج۔۔۔لکھتے رہئے ترابی صاحب۔۔

  • @zameerhaiderzameeroficial131
    @zameerhaiderzameeroficial131 4 года назад

    Kamal Kalam Kamal dad

  • @MUHAMMADAKRAM-un6nq
    @MUHAMMADAKRAM-un6nq 4 года назад

    Sir excellent poetry

  • @rahilakhtar9729
    @rahilakhtar9729 4 года назад

    waaaahhhh ✌️

  • @NadeemMalik-sk8jm
    @NadeemMalik-sk8jm 4 года назад

    Waaaa waaaa

  • @viralworldstudio7907
    @viralworldstudio7907 4 года назад

    Nice

  • @قاریشمستبریزالہندی

    Very best

  • @khushzoq6455
    @khushzoq6455 4 года назад

    پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی​
    شاید کہ تیرے ہجر کی عادت نہیں رہی​
    شہروں میں ایک شہر میرے رَت جگوں کا شہر​
    کوچے تو کیا دِلوں ہی میں وسعت نہیں رہی​
    لوگوں میں میرے لوگ وہ دل داریوں کے لوگ​
    بچھڑے تو دور دور رقابت نہیں رہی​
    شاموں میں ایک شام وہ آوارگی کی شام​
    اب نیم وَا دریچوں کی حسرت نہیں رہی​
    راتوں میں ایک رات مِرے گھر کی چاند رات​
    آنگن کو چاندنی کی ضرورت نہیں رہی​
    راہوں میں ایک راہ وہ گھر لوٹنے کی راہ​
    ٹھہرے کسی جگہ وہ طبیعت نہیں رہی​
    یادوں میں ایک یاد کوئی دل شکن سی یاد​
    وہ یاد اب کہاں ہے کہ فرصت نہیں رہی​
    ناموں میں ایک نام سوال آشنا کا نام​
    اب دل پہ ایسی کوئی عبارت نہیں رہی​
    خوابوں میں ایک خواب تری ہم رَہی کا خواب​
    اب تجھ کو دیکھنے کی بھی صورت نہیں رہی​
    رنگوں میں ایک رنگ تیری سادگی کا رنگ​
    ایسی ہَوا چلی کہ وہ رنگت نہیں رہی​
    باتوں میں ایک بات تیری چاہتوں کی بات​
    اور اب یہ ایک بات کہ چاہت نہیں رہی​
    یاروں میں ایک یار وہ عیّاریوں کا یار
    ملنا نہیں رہا تو شکایت نہیں رہی
    فصلوں میں ایک فصل وہ جاں دادگی کی فصل​
    بادل کو یاں زمین سے رغبت نہیں رہی​
    زخموں میں ایک زخم متاعِ ہنر کا زخم​
    اب کوئی آرزوئے جراحت نہیں رہی​
    سنّاٹا بولتا ہے صدا مت لگا نصیر​
    آواز رہ گئی ہے سماعت نہیں رہی​
    نصیر ترابی